ایک چینی بادشاہ اور ایک فرعون میں مماثلت

ہمارے قومی شاعر اقبالؔ نے ساقی نامہ میں لکھا کہ (اور وہ بھی نوے سال قبل جب اہلِ چین کی پستی اپنے انتہا پر تھی) گراں خواب چینیوں کے سنبھلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے ہیں۔ اہلِ چین کا زوال اُنیسویں صدی میں شروع ہوا ۔ زیادہ سے زیادہ اٹھارویں صدی کے وسط میں حساب جوڑا جائے تو اقبالؔ نے اہل چین کی جس گراں خوابی کا ذکر کیا ہے، اُس کی کل میعاد ڈیڑھ دو سو سال بنتی ہے۔ آج میں اپنے قارئین کو چین کے ماضی کی طرف لے جانا چاہتا ہوں، ماضی بھی وہ جو چودہویں صدی پر محیط تھا۔ یعنی آج سے سات سو سال پہلے۔ یہی لندن میں دُنیا کے غالباً سب سے بڑے عجائب گھر (برٹش میوزیم) میں ہونے والی ایک عظیم الشان نمائش کا موضوع ہے۔ اگر آپ اس نمائش کو دیکھ نہیں سکتے تو پھر اس کے بارے میں پڑھ ہی لیں۔
چالیس سال قبل برٹش میوزیم نے مصر کے ایک قدیم بادشاہ (فرعون گھرانہ کا چشم و چراغ جس کا نام Tutankhamun تھا)کی وفات کے بعد اُس کے ساتھ دفن کئے جانے والے ہیرے جواہرات، بیش قیمت لباس، فرنیچر کی نہ بھولنے والی نمائش ،جسے کئی لاکھ لوگوں نے دیکھا۔ داخلہ ٹکٹ اتنا زیادہ تھا کہ میں نمائش کے دو ٹکٹ نہ خریدسکا۔ میری بیوی کو میری کنجوسی نے ناراض کر دیا۔ اُنہیں منانے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ میں اُنہیں مصر لے جائوں (جس کی نوبت بارہ برس پہلے آئی) اور نہ صرف قاہرہ کے عجائب گھر میں وہ سارا سامان دکھائوں جو لندن لایا گیا تھا بلکہ اس بادشاہ کی خالی قبر بھی۔مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ اب اگر چودہویںصدی کے چین کے بارے میں برٹش میوزیم سے صرف پندرہ میل کے فاصلہ پر رہنے کے باوجود اس نیک بی بی کو یہ نمائش نہ دکھائی گئی تو پھر مجھے اُنہیں چین لے جانا پڑے گا (جہاں وہ پہلے بھی دوبارجا چکی ہیں) یقینا یہ سودا کافی مہنگا ثابت ہوگا۔
مذکورہ بالا قدیم مصری بادشاہ اور چینی بادشاہ کے درمیان تین باتیں مشترک ہیں۔ دونوں نوجوان تھے، جن کی عمر 19 سال کے قریب تھی۔ دونوں کی موت پرُ اسرار، غیر معمولی حالات میں ہوئی۔ دونوں کو اُس سازو سامان کے ساتھ دفن کیا گیا جو اُنہیں دوران بادشاہت میسر تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ وہ دُوسرے جہان میں اُن کے کام آئے گا۔ اس چینی بادشاہ کا نام اُردو میں لکھنا مشکل ہے۔ اس لئے انگریزی میں پڑھ لیں اور وہ ہے Zhu Tan ۔ 1389 ء میں وفات کے وقت عمر صرف 19 سال تھی۔ باور کیا جاتا ہے کہ اس نو عمر بادشاہ کو یہ پٹی پڑھائی گئی (اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ حکمران کے مشیر کتنے مفید یا خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں) کہ اگر آپ عمر جادواں حاصل کر نا چاہتے ہیں تو آب حیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایک اور مشروب پی لیں۔ مشروب میں دو زہریلے عناصر (پارہ اور سکہ) کا تناسب اتنا زیادہ تھا کہ پینے والا قیامت تک زندہ رہنے کی بجائے بڑے تکلیف دہ حالات میں چند دنوں کے اندر مر گیا۔ دُوسرا ظلم یہ ہوا کہ اہلِ چین کے دلوں میں مرجانے والے بادشاہ کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا نہ ہوئے اور اُنہوں نے اس کے لئے Hungکا لقب تراشا ،جس کا مطلب ہے مضحکہ خیز۔ نہ صرف بادشاہ اپنی غلطی سے اپنے ہاتھوں مارا گیا، بلکہ اُس کی معمولی غلطی پر اُس بے چارے کا مذاق بھی اُڑایا گیا۔ اسے کہتے ہیں اول نقصان مایہ دوئم شماتتِ ہمسایہ (ایک اپنی رقم ضائع کرو اور دوسرا ہمسایہ کے وہ قہقہے جو وہ آپ کی حماقت پر لگاتا ہے)۔ مذکورہ بالا فرعون بادشاہ (تو تناخمون) کی موت کے بارے میں کئی مفروضے پیش کئے جاتے ہیں۔ قتل، ملیریا بخار اور دوڑ میں حصہ لینے والی شاہی رتھ اُلٹ جانے سے لگنے والے مہلک زخم۔ اس مصری بادشاہ کی طرح چینی بادشاہ ZHU کو بھی اُس کے تخت و تاج، شاہی ملبوسات اور ہاتھی دانت کے بنے ہوئے شطرنج سیٹ کے ساتھ دفن کیا گیا۔ چالیس سال ہوئے جب جنوب مشرقی چین کے صوبہ Shandong کے جنوب مغربی علاقہ میں (Qufo کے قریب) اس بدنصیب بادشاہ کا مقبرہ اتفاقاً دریافت ہوا۔ قبر کی گہرائی 70 فٹ ہے اور اس کی کھدائی کرنے اور ساری قیمتی چیزوں کو برآمد کرنے میں بیس سال لگ گئے۔ برٹش میوزیم میں وسط ستمبر سے جو نمائش شروع کی جائے گی، اُس کا نام ہے مِنگMing دور کے 50 سال جن میں چین بدل گیا۔ جو سامان نمائش کے لئے چین سے لایا گیا ہے، اُس میں بادشاہ کے پلنگ کے ماڈل کے علاوہ نہانے اور ہاتھ دھونے کے برتن بھی شامل
ہیں۔ جو خاتون اس ہونے والی نمائش کے انتظامات کی سربراہ ہیں وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ وہ اہل برطانیہ کو ایسے نوادرات دکھانے والی ہیں جن کی (بقول حفیظ جالندھری) چشم فلک نے آج تک جھلک نہیں دیکھی۔ آیئے اب میں آپ کو ۔اس بادشاہ کے خاندان سے متعارف کرائوں، تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ وہ کس باغ کی مولی تھا۔1368 ء میں (یہ سن غور سے پڑھ لیں) منگ (Ming) گھرانہ کے پہلے بادشاہ Zhu Yungz Hangنے اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی جو 1644ء (قریباً تین سو سال بعد)ختم ہوئی۔ یہ ناممکن تھا کہ ایک نمائش تین صدیوں کا احاطہ کر سکتی، اس لئے نمائش کے منتظمین نے پندرہویں صدی کے پہلے پچاس سالوں کی منظر کشی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ یہ وہ دور ہے جب بیجنگ چین کا دارالحکومت بنایا گیا۔ Zhu کا اپنے 26بھائیوں میں دسواں نمبر تھا۔ اُس کی عمر صرف پندرہ سال تھی، جب اُس کے باپ نے اُسے اپنی بادشاہت کے ایک صوبہ Shandong کا گورنر بنایا۔ شواہد بتاتے ہیں کہ یہ نوجوان تعلیم یافتہ اور اپنے دور کی تہذیب و ثقافت کا اچھا نمونہ تھا۔ اپنی مختصر زندگی میں اُس نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی کا باپ وہ جرنیل تھا جس نے اُس کے باپ کو تخت نشینی کی جنگ میں کامیاب کرایا تھا۔ اس بادشاہ کا جو سامان نمائش میں رکھا جائے گا اُس میں اُس کی شادی کے ملبوسات کے علاوہ تاج اور اس کی طرح طرح کی ٹوپیاں بھی شامل ہیں۔ نمائش کے لئے اُس کے پلنگ اور بگھیوں کے چھوٹے چھوٹے ماڈل بنائے گئے ہیں جو بالکل اصل کے مانند ہیں۔ نمائش میں یہ بھی دکھایا جائے گا کہ چھ سو سال پہلے چین کی اشرافیہ (حکمران طبقہ) گاف اور فٹ بال سے ملتی جلتی کھیلیں کس طرح کھیلتا تھا۔ اس بادشاہ کا والد (جس نے ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی) تخت پر قابض ہونے سے پہلے راہب اور پیشہ ور سپاہی رہ چکا تھا۔ اُس نے 1398 ء میں وفات پائی۔ ملکہ تو صرف ایک تھی مگر اُس کے حرم میں 24 کنیزیں بھی تھیں، جن کی بدولت وہ 26 بیٹوں اور 16 بیٹیوں کا باپ بنا۔ ہم آج کے کالم کو مذکورہ بالا فرعون بادشاہTutankha Mun کے ذکر پر ختم کرتے ہیں۔ جو 1323ء قبل مسیح اٹھارہ سال کی عمر میں جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ نہ جانے کس وقت تک مورخوں میں اُس کی موت کی وجہ پر بحث جاری رہے گی (قتل یا زہر خورانی یا حادثہ میں ہلاکت) مگر یقین جانئے کہ آپ کے لئے یہ اندازہ کرنا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے کہ جب آپ اہرام مصر کے قریب بادشاہوں کے مدفن (Valley of King) میں فرعونوں کے مقبروں کو دیکھتے ہیں تو آپ کے دل و دماغ کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو خدا سمجھنے والے اور اپنی رعایا سے خدا تسلیم کئے جانے والے اور پرستش کئے جانے والے فرعونوں کی موت کو ہزاروں سال گزرے تو اُن کی حنوط شدہ لاشیں عجائب گھروں کی زینت بن گئی ہیں۔ ہر مطلق العنان حکمران کو وہاں سال میں ایک بار تو ضرور جانا چاہیے تاکہ وہ عبرت حاصل کر سکے۔ غالباً حبیب جالب نے ایک آمر مطلق کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اُس سے پہلے بھی پاکستان کے ایک حکمران کو اپنے خدا ہونے کا یقین تھا۔ اب وہ کہاں ہے؟ خواب و خیال بن گیا۔ نہ نام ،نہ نشان۔ باقی کیا رہ جاتا ہے؟ صرف حکمرانوں کے اچھے اور برے کارنامے۔ چاہے وہ شیر شاہ سوری کی شاہراہ ہو یا راجہ ٹوڈرمل کا نظام مالیہ۔ انگریزوں کی بنائی ہوئی نہریں ہوں یا ریلوے کا بچھایا ہوا جال۔ Dr. Woolner (جن کا مجسمہ اب بھی لاہور کی مال روڈ پر کتاب لئے کھڑا ہے) کی بنائی ہوئی پنجاب یونیورسٹی ہو یا پشاور کا اسلامیہ کالج (جسے قائداعظم نے اپنی وصیت میں اپنے وارثوں میں سرفہرست رکھا)۔ پاکستان کے ایک صدر مملکت (ملک غلام محمد)نے دستور ساز اسمبلی کو غیر قانونی طور پر توڑ کر آمریت کی بنیاد رکھی۔ وہ مفلوج ہو جانے کے بعد بھی ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا۔ آج کوئی شخص نہیں جانتا کہ اُس کی قبر کہاں ہے؟ یہ کالم اقبالؔ سے شروع ہوا۔ مناسب ہوگا کہ اسے ختم بھی اقبال کے دو اشعار پر کیا جائے جو اُنہوں نے مسجد قرطبہ میں دعا مانگتے ہوئے لکھے۔
اوّل و آخر فنا باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ ہو اوّل و آخر فنا
ہے مگر اُس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں