قصہ دو بادشاہوں کا

چار درویشوں کا قصہ توآپ نے ضرور سنا ہوگا۔ آج کے کالم میں دو بادشاہوں کا حال پڑھیں۔ پہلے سپین (اُردو میں ہسپانیہ) چلتے ہیں۔ 26 ستمبر1560ء کا دن تھا جب اس وقت کی دنیا کے بدترین حکمران نے لاطینی امریکہ کے ملک پیرو کے دارالحکومت لیما سے اپنی غیر معمولی مہم شروع کی۔ جونہی ہسپانوی فوج نے پیروکو فتح کر لیا،اس کے جنگجو سردارکے کانوں میں یہ افواہیں گونجنے لگیں کہ پڑوسی ملک برازیل کے وسط میں بے حد امیر لوگوں کی ایک بستی جنگلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ امیرکبیر اتنی کہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کی دولت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔کسی نے یہ بے پرکی اُڑائی کہ اس الف لیلائی سر زمین کے بادشاہ کا نام ایل ڈروڈو (El Dorado) ہے۔ حملہ آور فوج کے ایک پیشہ ور جنگجو سردار کے کان میں جب اس افسانوی امیرآبادی کی بھنک پڑی تو وہ بہت جوش و خروش سے اس مہم میں شامل ہوگیا۔ 
اس سردارکا نام تھاLope de aguirre اور وہ سفاکی اور بربریت کے نئے ریکارڈ قائم کرنے پر تلا ہوا تھا۔ وہ بے رحمِِ، سفاک، توسیع پسنداور مہم جو جنگی سردار اپنے بدنصیب پیروکاروں سے روزانہ مخاطب ہوتا اور اُنہیں ہر ممکن دلیل دے کر قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ قانون قدرت یہ ہے کہ دُنیا کے ہر حصے پر سب سے طاقتور لوگ حکومت کریں۔ جنگجو سردار اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے یہ بیان دُہراتے ہوئے بالکل نہ تھکتا کہ اُس کا مصمم ارادہ یہ ہے کہ وہ ہر ایسا ظلم ڈھائے، ہر ایسے جرم کا ارتکاب کرے جس سے چار دانگ عالم میں اُس کے نام کا ڈنکا بجے۔ مشرق و مغرب میں اُس کا نام خوف کی علامت بن جائے۔ جہاں جہاں بھی سورج طلوع ہو وہاں اُس کا تسلط قائم ہو جائے اور اُس کے نام کا سکہ چلے۔ 
جوں جوں یہ ملعون اور مردود شخص برازیل جیسے وسیع ملک کو عبورکرتے ہوئے اٹلانٹک سمندر کی طرف بڑھتا گیا اُسی تناسب سے پاگل پن اُس کی رہی سہی عقل پر غالب آتا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اپنے ہر اُس ساتھی کو بدترین اذیت دے کر سزائے موت دیتا جو اُس کی ہلاکت خیز پالیسی سے ذرہ بھر اختلاف کرنے کی جرأت کرتا تھا۔ اُس نے سر پر تاج رکھا، تخت پر بیٹھا، اپنی بادشاہی کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی آسمانی طاقتوں کی گالیوں سے بھری زبان میں مذمت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا ۔ ایک دن اُس کا پاگل پن اس حد تک پہنچا کہ اُس نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اُس کے پیروکاروں کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوگیا اوراُنہوں نے اس کا سر قلم کر دیا اور اُس کے مردہ جسم کی دھجیاں اُڑا دیں۔ اگر آپ اس موضوع پر مشہور مورخ Hugh Thompson کی حالیہ شائع ہونے والی کتاب World without End - Global Empire of Philip II پڑھنے کی ہمت نہیں رکھتے تو پھر آپ ہالی وڈ کے ڈائریکٹر Werner Herzog کی بنائی ہوئی فلم ہی دیکھ لیں۔
انسانی تاریخ میں اس خونیں باب کی تکمیل کے نتیجہ کے طور پر ہسپانوی سلطنت پھیلتے پھیلتے رومن مملکت سے وسیع تر اور امیر تر ہوگئی۔ فلپ دوم سپین کے تخت پر بیٹھا۔وہ زاہد خشک اور مذہبی عالم تھا۔ اُس کی حکومت میں ہسپانوی سلطنت کی سرحدوں نے وسطی امریکہ، جنوبی امریکہ، نیدر لینڈ (ہالینڈ)، جزائر غرب الہند اور فلپائن کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ 1570ء میں (فلپ دوم کی تاجپوشی سے 24 سال بعد) چین پر حملہ کر کے اُس پر فوجی قبضہ کرنے کی کاغذی تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں جو شاہی منظوری نہ ملنے کی وجہ سے دھری کی دھری رہ گئیں۔
آیئے مذکورہ کتاب کی طرف واپس چلیں جسے اس کے بے حد محترم اور معزز 82 سالہ مصنف نے اپنی عمر بھرکی علمی اور تحقیقی کاوش کا نکتہ معراج قرار دیا ہے۔ ازرہ کرم 1492ء کی تاریخ کو ذہن میں رکھ کر اس کالم کو پڑھیں چونکہ اس سال ہسپانوی ملاح اور مہم جو کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ اگلے ساٹھ برسوں میں جنوبی اور وسطی امریکہ کے سارے ممالک ہسپانوی مملکت کا حصہ بن چکے تھے۔ آپ کا ذہن چاہے کتنا زرخیز ہو، آپ کے لئے ہسپانوی فوج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی ہولناک تفصیل کا تصورکرنا ممکن نہیں ہوگا۔ منگول حملہ آوروں کی طرح مفتوحِ لوگوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے جاتے تھے۔ زندہ قیدیوں کے دل چیرکر نکال لئے جاتے تھے۔ یہ تھے ان یزیدی روایات کے نگہبانوں کے کارنامے جنہیں پڑھ کر میری طرح کے ایک عام آدمی کی نظر میں بنی نوع انسان کا بطور جنس احترام بہت کم ہو جاتا ہے، اتنا کم کہ صفرکے قریب۔ 
پندرہویں صدی کے سپین کا کافی ذکر ہو چکا، اب ہم آپ کو اُنیسویں صدی کے رُوس لئے چلتے ہیں۔ یقیناً میری تمام قارئین جانتے ہیں کہ جس طرح جرمنی کے بادشاہ کو قیصرکہا جاتا تھا اُسی طرح رُوس کا بادشاہ زارکہلاتا تھا (اب پتا چلا ہے کہ اصل میں یہ سب ایک تھے کیونکہ ہر یورپی بادشاہ دُوسرے بادشاہ کا قریبی رشتہ دار نکلا) 1869ء میں شہرہ آفاق ناول نگار ٹالسٹائی کا ناولWar and Peace شائع ہوا (اورگزشتہ 144برسوں میں دُنیا میں شائع ہونے والے ہر ناول سے زیادہ چھپا اور پڑھا گیا) جس میں 1801ء سے لے کر 1825ء تک رُوس کے زار (الیگزینڈراول) کو ایک ہیروکی طرح مرکزی اورکلیدی مقام دے دیا گیا ہے۔ موصوف کی بہت سی سوانح عمریاں شائع ہو چکی ہوں گی مگر اب بھی اُس کی شخصیت کے کئی پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کے لئے ہر چند سال کے وقفے سے ایک نئی کتاب شائع ہوتی رہتی ہے۔گزشتہ ماہ یہ اعزاز ایک امریکی اشاعتی ادارے Northern Illinois University Press کو حاصل ہوا جس نے پروفیسر Marie Pierre Reyکی معلوماتی اور بڑی دلچسپ کتاب شائع کی۔ اس بادشاہ کا باپ قتل کر دیا گیا تو وہ زار بنا۔ زار کے خواتین کے ساتھ تعلقات بڑے پیچیدہ اور ناقابل فہم نظر آتے ہیں۔ اُس کا روحانی سفر بھی کچھ کم تکلیف دہ نہ تھا۔ سب سے بڑا تضاد اُس کے ترقی پسند اور رجعت پسند خیالات میں تھا۔ اس زار کی وفات سے جڑے ہوئے واقعات ابھی تک کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ فاضل مصنفہ نے کئی برس رُوس کے پہلے دارالحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں گزارے جہاں اُنہوں نے اُس دورکی پوشیدہ دستاویزوںکا بغور مطالعہ کیا (ایک ہم ہیں کہ لاہور کے سول سیکرٹریٹ میں مقبرہ انارکلی میں پڑی ہوئی لاکھوں دستاویزات کو نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے تاکہ مغل دور اور برطانوی راج کے بارے میں ہماری گہری جہالت کم نہ ہو جائے) زار الیگزینڈر اول کی پرورش اُس کی دادی کیتھرائن‘ جسے Kathe Mmt The Great کے نام سے جانا جاتا ہے، نے کی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نسلاً جرمن تھا۔ ذاتی اتالیق کا تعلق سوئٹزرلینڈ سے تھا۔ بچپن کی اس تربیت کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ زار ساری عمر رُوس کی اشرافیہ سے خائف رہا۔ ستم بالائے ستم کہ وہ جتنے بچوں کا باپ بنا وہ سب کے سب بچپن میں فوت ہوگئے۔ 1805ء میں اس زارکا فرانسیسی حکمران نپولین سے میدان جنگ میں مقابلہ ہوا جو نوسال بعد 1814ء میں، نپولین کے اقتدار کے خاتمے تک جاری رہا۔ 1812ء میں اس زار نے نپولین کو تاریخی شکست دی۔ دوبارہ پڑھیں کہ اس بظاہر ذہنی اور جسمانی مسائل کے شکار رُوس کے بادشاہ نے نپولین کو وہ فیصلہ کن شکست دی جس سے نپولین کا زوال شروع ہوا۔ یہ زاراس لحاظ سے قابل رحم تھا کہ اُسے نپولین کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے بدترین دُشمن (آسٹریا، ہنگری سلطنت جواس زار کو دو بار شکست دے چکی تھی) کی فوجی مدد حاصل کرنے کے لئے ذلت آمیز صلح کرنی پڑی۔ قیصر ہو یا کسری، فرعون ہو یا نمرود، زار ہو یا اپنے وقت کا کوئی اور ظل سبحانی، الیگزینڈر اول ہر حکمران کے لئے مقام عبرت ہے۔ قدیم چینی دانشورکنفیوشس کے مطابق ایک عقل مند حکمران کو غیر ملکی دُشمنوں کی بجائے اپنے ملک کے بظاہر بے بس عوام کے غم و غصہ سے ڈرنا چاہئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں