دلچسپ اور عجیب

یہ مہینہ شروع ہوا تو برطانیہ کے سب سے اچھے اخبار گارڈین میں پاکستان کا ذکر دوبارہ ہوا اور دونوں بار نمایاں طور پر ہوا۔ پہلی بار موضوع ہمارے ملک کا سب سے معزز اور سب سے زیادہ چاہے جانے والا شخص تھا (جن کا نام عبدالستار ایدھی ہے) گارڈین نے ان کی خدمت خلق کے کاموں کی تاریخ تفصیل سے بیان کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ اُنہیں نوبل امن انعام کے لئے نامزد کیا جائے۔ میرے جیسے سادہ دل اور جلدی خوش ہو جانے والے لوگ خوشی اور فخر کے اس موقع پر (اپنے آپ کو خصوصی رعایت دیتے ہوئے اور سنگ دل ڈاکٹروں سے نظر بچا کر) گلاب جامن کھانے کا پروگرام مرتب کرنے لگے۔ ابھی ہاتھ مٹھائی کی طرف نہ پہنچا تھا کہ اگلے دن کے اخبار میں مشہور بزنس مین کی ایک نوخیز اور نظروں کو خیرہ کر دینے والی چمک دمک سے بھر پور خاتون (مستور کا لفظ ہر گز استعمال نہیں کیا جا سکتا) کے لاکھوں ڈالروں کو ملک سے باہر سمگل کرنے کی کوشش کرنے اور ہوائی اڈہ پر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے سیکنڈل کی چٹ پٹی مصالحہ دار اور باتصویر خبر پڑھ لی تو سمجھ لیں کہ حساب برابر ہو گیا۔ بطور وکیل میں جانتا ہوں کہ ملزم اور مجرم میں کیا فرق ہوتا ہے۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ جس بدنصیب ملک کے ارب کھرب پتی سیاست دان پاکستان سے چرائی ہوئی دولت کو سمگل کر کے سوئس بینکوں میں پہنچانے کے فن میں مہارت رکھتے ہوں وہاں ایک کم عمر لڑکی (سنا ہے کہ وہ اتنی باکمال ہے کہ ذاتی ہوائی جہازکی مالکہ بن چکی ہے) لاکھوں ڈالر خفیہ طور پر دوبئی لے جانے کی کوشش کرے (جو یقینا اُسکی پہلی کوشش تو نہ ہوگی) تو ایک لحاظ سے قابل معافی ہے۔ یورپ میں مقبول عام گلوکاروں کا بڑا چرچا رہتا ہے۔ اُن کی دولت کی ریل پیل کا ،اُن کی فضول خرچیوں کا ،اُن کی فہرستوں کا، اُن کے طرح طرح کے سیکنڈلوں کا۔ بطور ایک محب الوطن میرے ذہن میں یہ خیال اُبھرا کہ آخر ہم بھی ایک ایٹمی قوت ہیں۔ ہماری ایک فیشن ماڈل نے ذاتی ہوائی جہاز خرید کر ثابت کر دیا کہ ہم کسی سے کم نہیں۔ نہ ماڈل بن کر ڈالر کمانے میں۔ نہ ان ڈالروں کو ملک سے باہر سمگل کرنے میں۔ نہ مشکوک ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کو بیرون ملک سرمایہ کاری میں استعمال کرنے میں۔ قصہ مختصر کہ ہم بھی پانچوں سواروں میں شامل ہیں۔ اگر ہمارے بدخواہوں کو کوئی ثبوت چاہئے تھا تو اُنہیں وہ بھی مل گیا۔ اب آپ خوشی سے گلاب جامن کھائیں (یا میری طرح اُن کو دُور سے للچائی نظروں سے دیکھنے پر اکتفا کریں)۔ مذکورہ بالا واقعہ کو لمحہ فکریہ سمجھ کر گریبان میں منہ ڈالیں (کافی تکلیف دہ عمل ہونے کے باوجود) یا کروڑوں ہم وطنوں کی طرح گریہ وزاری کی مشق جاری رکھیں۔ کامیابی (اور وہ بھی مالیاتی معنوں میں) کی سیڑھی کے اُوپر چڑھ جانے والوں اور اُس کی چوٹی تک پہنچ جانے والوں کی خوش بختی پر رشک کریں یا حسد۔ اُس کا انحصار آپ کی مرضی اور افتاد طبع اور مزاج (جو بلغمی بھی ہو سکتا ہے) پر ہے۔ آپ کے حُسن نظر کی کرشمہ سازی پر یہ مسکین اور بے بس ولاچار کالم نگار کوئی قدغن لگائے تو کیونکر؟
فرانس میں توہین آمیز کارٹون کی اشاعت کازخم ابھی مندمل نہ ہوا تھا کہ خبر آئی کہ وہاں ایک جانے پہچانے فرانسیسی ادیب (نام ہے Michel Houellebecq ) نےSoumission کے عنوان سے جو ناول لکھا ہے وہ فرانس کے نسل پرست، مسلمان دُشمن اور شرمناک حد تک متعصب لوگوں میں ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ فرانس پر مسلمانوں کے غلبہ کے مفروضہ کے گرد گھومتا ہے۔ اس ناول کی اشاعت فرانس کی آبادی کے ایک بڑے حصہ کے مریضانہ ذہن کی علامت ہے۔ London Review of Books (جو بڑے سائز کے کاغذ پر شائع ہوتا ہے) نے اس ناول پر جو تبصرہ حال ہی میں شائع کیا وہ چار صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس جریدہ نے اپنے اس شمارہ میں مغربی دُنیا کے مسلمہ اور قابل احترام مارکسی دانشور طارق علی کا ایک بے حد قابل تعریف اور بصیرت افروز مضمون بھی چار صفحات پر شائع کیاجس کا عنوان تھا۔''The new world Disorder ‘‘۔مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں جو شدید بدامنی ،ابتری اور قتل و غارت کے بڑے پیمانہ پر مظاہرے نظر آتے ہیں، وہ مغربی سامراج اور اُس کی فوجی جارحیت کا منطقی نتیجہ ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد امریکہ بلاشرکت غیرے عالمی طاقت بن کر عالمی امن کا ٹھیکیدار اور اجارہ دار بن گیا اور یہ نعرہ لگایا کہ وہ دُنیا کو ایک نئے عالمی نظام اِمن (New World Order) کی نعمتوں سے مالا مال کرے گا۔ افغانستان اور عراق پر بلا جواز فوجی حملوں کے بعد مشرق وُسطیٰ کا حلیہ جس طرح بگاڑاگیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے اور کسی تبصرہ آرائی کا محتاج نہیں۔
1978 ء کا ذکر ہے۔ برطانیہ کی خوشگوار گرمیوں کے دن تھے۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ میرے گھر سے میرا کالج تین میل کے فاصلہ پر تھا۔ Slought سے Langly تک کا سفر ایک گھنٹہ میں بآسانی پیدل کیا جا سکتا تھا۔ خصوصاً جب کہ ایک نہر کی پگڈنڈی پر چلنا ہو۔نہرمیں کشتیاں تیر رہی تھیں اور ایک کشتی سے موسیقی کی آواز آرہی تھی۔ بڑی دلکش آواز۔ غیر معروف (میرے لئے) گلوکارہ کے گانے کے بول تھے۔ میں نے اپنا دل ایک خلائی ہوا باز کو دے دیا ہے۔ میرے قدم وُہیں رُک گئے اور جب تک گانا ختم نہ ہوا میں کشتی کے پاس کھڑا اسے انہماک سے سنتا اور خلا باز کی خوش بختی پر رشک کرتا رہا۔37 سال گزر گئے۔ کل اخبار کھولا تو Sarah Bright Moon نامی گلوکارہ کی تصویر کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی کہ اب وہ خلا بازوں کو دل دینے کے مرحلہ سے گزر چکی ہے اور اُس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ خود خلائی سفر میں حصہ لے گی۔ سارہ کی عمر 54 برس ہو چکی ہے۔ اور وہ اس سفر میں حصہ لینے والے ایک لاکھ خواہش مند افراد کو شکست دے کر اپنے عمر بھر کے خواب کو پورا کرنے کے قریب آپہنچی ہے۔ خلائی سفر کے لئے راکٹ ماہ ستمبر میں رُوس میں ایک خلائی سٹیشن سے آسمانوں کی طرف پرواز شروع کرے گا۔ سارہ اگلے چھ ماہ میں خلائی راکٹ میں سفر کے رُموز اور رُوسی زبان سیکھے گی۔ دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ خلائی راکٹ میں سفر کا ٹکٹ خاصا مہنگا ہے۔ سارہ یہی رقم خرچ کر کے اپنے لئے ایک چھوٹا ہوائی جہاز خرید سکتی تھی (جس کا وہ استعمال ہر گز نہ ہوتا جو ہمارے ہاں ایک نادان فیشن ماڈل لڑکی کرتی ہوگی ) دُوسرا یہ کہ سفر اتنا کٹھن اور پرُ خطر ہے کہ زندہ واپس آجانے کے امکانات کم ہیں۔ اسے کہتے ہیں ستاروں پر کمندیں ڈالنا ۔اقبال ؔکی محبت کے لئے اپنے آپ کو اہل ثابت کرنے کے لئے اُس خوبی کی موجودگی اوّلین شرط ہے۔ سارہ جوان نہ سہی مگر مذکورہ بالا معیار پر یقینا پوری اُترتی ہے۔
انیسویں صدی میں اُردو ادب میں یہ انقلابی تبدیلی آئی کہ محض عاشقانہ (اور کبھی کبھی فاسقانہ) شاعر ی کی دنیا میں جہاں ہجرو وصال کے قصے بیان کئے جاتے تھے، رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھے جاتے تھے، نظیر اکبر آبادی کی صورت میں ایک عوامی شاعر اُبھرا (نام تھا ولی محمد )۔ نظیر اُن کا تخلص تھا۔ مگر شاعری بے نظیر تھی۔ بنجاروں کا شاعر۔ عام لوگوں کے جذبات کا ترجمان شاعر۔ ڈاکٹر رضا کاظمی کے الفاظ میں ''نظیر نے اُردو شاعری کو مشاعرے کی محفل سے نکال کر عوامی میلہ میں جگہ دی۔ ‘‘1830 ء میں 95 برس کی عمر میں وفات پائی۔ ایک نظم کا عنوان تھا ''روٹیاں‘‘ دُوسری ''آدمی نامہ‘‘۔ ڈیڑھ سو برس گزر جانے کے بعد اُردو ادب میں دُوسرا عوامی شاعر پیدا ہوا، جن کا نام حبیب جالب ہے۔ وہ محتاج تعارف نہیں۔ دُنیا بھر میں ادب اور اُسکا مطالعہ اور اس کی تخلیق متوسط خوشحال اور تعلیم یافتہ طبقہ کی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہوتی ہے۔ انگریزی ادب پر بھی اس کلیہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں امریکہ سے ایک ایسے عوامی شاعر کی وفات کی خبر آئی۔ اُن کی شاعری اور شخصیت پر ہر اچھے اخبار اور رسالہ میں تعزیتی مضامین شائع ہوئے۔ نام تھا Philip Levine ۔87 سال عمر پائی۔ امریکہ میں عام افراد، کسانوں، مزدور، گھریلو خواتین، ان کی زندگی کے مسائل ،اُن کی اُمیدیں، اُن کے خواب اور خوف، یہ اُن کی شاعری کا موضوع تھا۔ اُن کی ایک مشہور نظم کا آزاد ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے۔ ''دُنیا میں کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو آپ ساری عمر اچھی طرح جانتے پہچانتے ہیں۔ وہ اتنی سادہ ہوتی ہیں اور بالکل اتنی سچ کہ اُن کو بیان کرنے کے لئے بھی صرف سادگی اور سچائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ ادبی تلمیحات کی۔ نہ ادب معلیٰ کی۔ نہ ردیف کی۔ نہ قافیہ کی۔ امریکہ میں کئی نک چڑھے نقاد اُنہیں شاعر تسلیم نہیں کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس قسم کی نخوت زدہ تنقید تاریخ کے کوڑے دان میں جاگری۔ اُنہوں نے امریکہ کی تین بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔ وہ امریکہ کے ملک الشعراء قرار دیئے گئے۔ دُنیا بھر میں عوام دوست اُن کی وفات پر سوگوار ہیں۔ ایک چراغ بجھ جانے سے امریکہ میں تاریکی اور بڑھ گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں