سو تھی وہ بھی ایک عورت

کالم شروع کرتے ہیں اُنیسویں صدی میں اُردو کے پہلے اور زندۂ جاوید عوامی شاعر نظیراکبر آبادی کی ایک نظم کے عنوان سے۔ ''سو ہے وہ بھی آدمی‘‘ آج ہم جس بی بی کی زندگی پر نظر ڈالیں گے اُس کے بارے میں لکھے گئے مضمون کا بھی اسی طرح کا عنوان ہونا چاہئے۔ ''سو تھی وہ بھی ایک عورت‘‘ نام تھا ساشی مانی دیوی۔ بھارت کی رہنے والی۔ 92 سال کی طویل عمر پا کر مارچ کے مہینہ میں ایک ایسی زندگی گزار کر دُنیا سے رخصت ہوئی کہ کوئی آنکھ پرنم نہ ہوئی۔ نہ اہل و عیال۔ نہ بال بچہ۔ نہ عزیز نہ رشتہ دار۔ بے یار و مددگار۔ پھر بھی زندگی کے آخری لمحات تک مسکراتی رہی۔ یہ ہوتا ہے فقیری اور درویشی کا کمال۔ ہر دُنیاوی آسائش سے بے نیاز۔ نہ فکر نہ فاقہ۔ نہ گھر بار۔ نہ پائوں میں رشتوں کی زنجیر۔ نہ ہاتھ میں مراسم کے بندھن۔ نہ گردن میں طوقِ غلامی۔ نہ سر میں مال و متاع کا جنون۔ نہ دل میں بہتر زندگی کی اُمنگ۔ نہ حالات کی خرابی کا خوف۔ یہ تھا ساشی مانی (دیوی) کا ابتدائی تعارف۔ یہ سطور پڑھ کر آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ آخر وہ تھی کون؟ کس باغ کی مولی تھی؟ کس خاندان کا چشم و چراغ تھی؟آخر اس کا حُدود اربعہ کیا تھا؟
اس بی بی کا مفصل تعارف کرانے کے لئے آپ کو میرے ساتھ مشرقی بھارت کے پُوری شہر (انگریزی میں Puri لکھتے ہیں) جانا ہوگا۔ وہاں ہر سال ایک ہندو دیوتا جگن ناتھ کا سالانہ میلہ منایا جاتا ہے۔ میلے کا نام پڑھ کر آپ کے ذہن میں پجاریوں کے رقص کے مناظر اُبھرے ہوں گے۔آپ نے تصور میں مندروں کی بجتی ہوئی گھنٹیوں کی آوازیں سنی ہوں گی۔ وہ سارا ہنگامہ جو ایک میلہ کی پہچان ہوتا ہے۔ آپ یہ فرض کرنے میں حق بجانب ہیں کہ مذکورہ بالا تہوار بھی ایک رنگا رنگ اور شوخ و شنگ میلہ کی صورت میں منایا جاتا ہوگا۔ حقیقت اس مفروضہ کے بالکل برعکس ہے۔ سولہ پہیوں والی ایک بھاری بھر کم رتھ (بیل گاڑی) کے ذریعے ہندو دیوتا جگن ناتھ کا بت ایک بلند مقام تک لے جاتا تھا۔ بُت کا لفظ پڑھ کر آپ کے ذہن میں یونانیوں کے بنائے ہوئے حددرجہ خوبصورت مجسموںکی فلم چل پڑی ہوگی۔ آپ کا یہ مفروضہ بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ اوّل الذکر۔ جگن ناتھ لکڑی کے بڑے وزنی اور لمبے چوڑے گول شہتیر کی صورت میں نمودار ہوتا تھا۔ سیاہ رنگ کی خوفناک گھورتی ہوئی آنکھیں۔ نہ کوئی چہرہ نہ کوئی جسمانی نقوش۔ ایک بھاری بھرکم چوبی گیلی کو بلند جگہ سے نشیب کی طرف لڑھکایا جاتا اور وہ جوں جوں ڈھلان کی طرف لڑھکتا‘ اُس کی رفتار میں اضافہ ہوتا جاتا۔ اب ذرا سانس روک لیجئے کیونکہ میں آپ کو یہ بتانے لگا ہوں کہ ہزاروں مذہبی جنونی دوڑ کر اپنے آپ کو لڑھکتی ہوئی چوبی لاٹھ کے آگے گرا دیتے تاکہ وہ کچلے جائیں‘ ہلاک ہو جائیں اور دوبارہ پیدا ہونے کے عذاب سے بچ جائیں۔ آپ کو یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے کہ جائے واردات کس طرح لاشوں اور بہتے ہوئے انسانی خون سے بھر جاتی ہوگی۔ جس انگریز سیاح نے یہ منظر پہلی بار دیکھا وہ بے چارہ صدمہ سے بے ہوش ہو گیا تھا۔ ہوش میں آیا (غالباً کافی دیر کے بعد) تو اُس نے اپنے مشاہدات لکھے اور ایک مقبول رسالہ میں شائع کرائے تاکہ سفید فام ہم وطن اس دل دہلا دینے والے منظر سے زیادہ سے زیادہ دُور رہ سکیں۔ مذکورہ بالا جان لیوا رسم نے انگریزی کے ایک لفظ کو جنم دیااور وہ لفظ ہے Juggernaut۔ مطلب ہے کہ ایک ایسی خوفناک مشین جو ایک بار حرکت میں آجائے تو پھر اُسے روکنا ممکن نہیں رہتا۔
مندرجہ بالا سطور پڑھ کر جگن ناتھ دیوتا کے بارے میں آپ کے دل میں خوف اور نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ہوں گے‘ مگر ساشی مانی دیوی آپ سے ہر گز اتفاق نہ کرتی۔ اُس سادہ دل عورت کی نظر میں وہ وشنو Vishnu نامی دیوتا کا ایک رُوپ تھا‘ جو سب انسانوں کو ایک نظر سے دیکھتا تھا۔ رحمدلی‘ اپنائیت‘ برابری اور محبت کی نظر سے۔ اُسے یقین تھا کہ یہ چوبی دیوتا (اندھیرے مندر میں جس کی سفید بے جان آنکھیں چمکتی تھیں)اُس کی آواز سن سکتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ آخر وہ اُس کا شوہر تھا۔
ساشی مانی تین سال کی عمر میں مندر لائی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ کارنامہ اُس کے والدین کا تھا۔ بچی اتنی کم عمر تھی کہ وہ اپنے کرم فرما والدین کے نہ نام جانتی تھی اور نہ اُن کی شکلیں پہچانتی تھی۔ معصوم بچی کو مندر میں ایک دیوداسی (مندر کی مستقل خدمت گار خاتون) کے سپرد کر دیا گیا تاکہ وہ اس بچی کو دیوداسی بن جانے کی تربیت دے سکے۔ دیو داسی کا سب سے اہم فریضہ پوجا پاٹ کے موقع پر (یعنی دن میں کئی بار) رقص کر کے دیوتا کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا تھا۔ بچی سات یا آٹھ سال کی عمر کو پہنچی تو اُس کی جگن ناتھ دیوتا کے ساتھ شادی کا ناٹک بڑی دھوم دھام سے رچایا گیا۔ دُلہن ساری عمر بڑے فخر کے ساتھ سب لوگوں کو یہ بتاتے نہ تھکتی تھی کہ میں دیوتا کی دھرم پتنی ہوں اور اس 'حقیقت‘ کے سامنے کوئی سوالیہ نشان نہیں لگایا جا سکتا؟
عام رواجی شوہروں کے برعکس ساشی مانی کا شوہر برائے نام توجہ کا طلبگار ہوتا تھا۔ وہ ہر روز صبح سویرے اُٹھ کر اشنان کرتی اور پھر وسیع و عریض مندر میں پوجا پاٹ کے لئے جاتی تھی۔ صرف یہی نہیں اُسے اپنے چوبی رفیق حیات دیوتا (جو ہر روز تازہ پھولوں سے ڈھکا ہوا قیمتی چمکیلے لباس میں سب سے اُونچے تخت پر براجمان ہوتا تھا) کو روزانہ ناشتہ بھی کرانا پڑتا تھا۔ اس باذوق دیوتا کی خدمت میں ناریل‘ مٹھائیوں اور پھلوں کا ناشتہ پیش کیاجاتا۔ مندر میں پوجا کے لئے آئے ہوئے سب لوگوں کے سامنے ہر روز ہر صبح دیوتا کی بیوی رقص کرتی۔ پچاس برس کی عمر تک وہ اس فرض کو ادا کرتی رہی۔ عمر رسیدہ ہو جانے اور خمیدہ کمر کے باوجود رقاصہ اپنی جوشیلی نقل و حرکت سے یہ ثابت کر دیتی کہ وہ دیوتا سے شادی کے اعزاز کی واقعی اہل تھی اور اُس کا جاندار رقص خوشی اور فخر کے جذبات کا مؤثر اظہار بن جاتا۔
بے حد پرُانی روایات کے مطابق لارڈ (دیوتا) جگ ناتھ صدیوں قبل پوری نامی شہر میں اپنا شوق طعام پورا کرنے ہی آیا تھا‘ یعنی اچھے کھانوں کی فراہمی کے لئے پوری کی شہرت (شاید وہاں بھی لاہور کی طرح کوئی اچھی سی فوڈ سٹریٹ ہوگی) ہی دیوتا کی تشریف آوری کا باعث بنی۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پوری کے اُس مندر (جو جگ ناتھ دیوتا کا مسکن تھا) کی رسوئی (باورچی خانہ) دُنیا میں سب سے بڑی تھی‘ جہاں ہر روز اتنے زیادہ برتنوں میں دال‘ پکی ہوئی سبزیاں اور مٹھائیاں بطور چڑھاوالائی جاتیں کہ اُن کی گنتی کرنا ممکن نہیں۔ دیوتا کی خدمت میں ہر روز چھ بار کھانا پیش کیا جاتا۔ دوپہر کا کھانا تو صرف مٹھائیوں پر مشتمل ہوتا۔ چڑھاوے کے بعد یہی کھانا مقدس پرشاد بن جاتا جو پجاریوں میں بطور تبرک تقسیم کر دیا جاتا۔ جو کھانا بچ جاتا وہ زمین پر اکڑوں بیٹھی ہوئی ایک ننھی سی خاتون (جو دیوتا کی وفا شعار بیوی تھی) رضا و رغبت سے کھا لیتی اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتی جورواجی بیویوں کے لئے لمحہ فکر یہ ہے۔
کھانا کھلانا اپنی جگہ کتنا بنیادی فرض سہی‘ اس بیوی کے ناتواں کندھوں پر اور بھی کئی بوجھ تھے۔ اُن میں سب سے اہم اپنے دیوتا شوہر کو رات کے وقت آرام کرنے اور سو جانے کے لئے تیار کرنا ہوتا تھا۔ ساڑھے گیارہ بجے رات کو وُہ دیوتا کو شب خوابی کا لباس پہناتی۔ روشنی مدھم کر دیتی۔ بستر بچھاتی۔ بھجن گاتی۔ آپ یقین کریں کہ عقیدت کے مارے یہ بے مثال سہاگن80 سال کی عمر تک لہک لہک کر بھجن گاتی رہی‘ مگر پھر ایک حادثہ نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔ بیل کے حملہ سے یہ خاتون زخمی ہوگئیں۔ دونوں ٹخنے ٹوٹ گئے‘ پھر بھی وہ ایک کام کرنا کبھی نہ بھولی‘ اور وہ تھا آدھی رات کو مندر کے چوکیدار کو یاد کرانا کہ وہ مندر کے گیٹ بند کر دے تاکہ دیوتا کی نیند میں کوئی خلل نہ پڑے اور وہ سکھ کی نیند سو سکیں۔
جب دیوتا کا چوبی مجسمہ پرانا اور خستہ ہو جانے کی وجہ سے مرمت کیا گیا تو ساشی مانی (تکنیکی طور پر) بیوہ قرار دے دی گئی۔ اُس نے اپنا سر مونڈ لیا اور زیورات اُتار دیئے۔ سرخ کی بجائے سفید ساڑھی پہن لی اور عام بیوگان کی طرح دن رات آنسو بہاتی رہتی۔
ایک سوسال پہلے پوری کے مندر میں25 دیوداسیاں تھیں‘ اب ایک بھی نہیں۔ دیو داسی نہ صرف ہمہ وقتی پجارن تھی بلکہ (بدقسمتی سے) جزوقتی طوائف بھی۔ 1988ء میں بھارتی حکومت نے مندروں میں دیوداسیوں کے وجود کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ پاکستان میں جو لوگ دیوتا سے ایک معصوم لڑکی کی مذکورہ بالا شادی کے انتہائی شرمناک ڈھونگ کی مذمت میں بہ آوازِ بلند سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بی بی سی کی سو فیصد مصدقہ رپورٹ کے مطابق آج بھی سندھ کے دیہاتی علاقہ میں بڑے زمینداراپنی بیٹیوں اور بہنوں کی شادی قرآن پاک سے کرانے کے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں تاکہ زرعی جائیداد سے ان بے بس لاچار خواتین کو بے دخل کیا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں