غلطی کا اعتراف

52 سالہ پرانی بھارتی فلم کا نام تھا ''گھر ایک مندر ہے‘‘۔ مندر تو عبادت گاہ ہے۔ پوجا پاٹ کی جگہ ہے۔ اگر مسلمان اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنے دل کومسجد کا درجہ دے لیں تو اس کا مقدس مقام سمجھنے‘ سمجھانے اور تسلیم کرنے میں انہیں آسانی ہو جائے گی۔ ساری دُنیا میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جنہیں اُن کے کرتوتوں کے طفیل چور کہا جاتا ہے۔ چور کو چور نہ کہا جائے تو اور کون سا اسم صفت استعمال کریں؟ دُنیا کے ہر ملک میں ایسے چالاک اور چرب زبان لوگ بھی ہیں جنہیں ہماری کلاسیکی زبان سنسکرت میں ''چتر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی کچھ لوگ چور ہیں اور کچھ چتر۔ یہ فضل و کرم صرف ہماری سر زمین پر ہے جہاں چور کے سر پر ایک اور ٹوپی بھی ہوتی ہے اور اُس کا نام ہے چتر۔ یہاں میں اپنی مادری زبان پنجابی کی شہرہ آفاق ضرب المثل دُہراتا ہوں۔ ''چور نالے چتر‘‘ یعنی چور اور چتر دونوں ۔یہ بے شرمی اور ڈھٹائی کی بدترین مثال ہے۔ اگر میں نے چوری کی ہے‘ کسی کی حق تلافی کی ہے‘ کسی سے (جو یقینا مجھ سے کمزور ہوگا) زیادتی کی ہے‘ تو مجھے شرمندہ ہونا چاہئے‘ معافی مانگنی چاہئے‘ نہ صرف اپنی چوری کے شکار سے بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی جس کے سامنے مجھے ایک دن جواب دہ ہونا پڑے گا۔ مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں چوری اور سینہ زوری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم جہنم سے کب نکلیں گے؟ میرا جواب بڑا سیدھا سادا ہے۔ جب چوری اور سینہ زوری کے درمیان صدیوں پرانے فولاد صفت رشتہ کو عدلِ اجتماعی کی تلوار کاٹ کر رکھ دے گی۔ اُس سرزمین پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں کس طرح نازل ہوں جہاں چور یا تو چتر ہوتے ہیں یا سینہ زور۔
مندرجہ بالا طویل ترین تمہید لکھنے کے بعد آپ کو یہ بتانا ضروری ہوگیا ہے کہ اصل ماجرا کیا ہے؟ وسط اپریل میں‘ میں نے اس کالم میں لندن میں برطانوی اور پاکستانی وُکلا (مہمان خصوصی سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی صاحب تھے) کی بین الاقوامی کانفرنس کا ذکر کیا تھا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے تین چوٹی کے نامور وُکلا کی شرکت نے چار چاند لگا دیئے اور وہ تھے ڈاکٹر خالد رانجھا‘ جناب حامد خان اور جناب ایس ایم ظفر۔ جناب حامد خان نے حسب معمول اورحسب توقع ایک اچھی‘ سنجیدہ‘ مدلل اور متوازن تقریرکی۔ ڈاکٹر خالد رانجھا نے دَبی زبان میں فوجی عدالتوں کی حمایت کی۔ اس الم نگار نے (جسے بوڑھا ہو جانے کے بعد پہلے سے زیادہ غصہ آتا ہے) اُن پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے یہ لکھا کہ وہ وکیل بنے اور شہرت پائی‘کمزوروں اور بے بسوں کی آواز بنے‘ ہم نے سمجھا کہ ہمیں ایک اور محمود علی قصوری مل گیا مگر بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر خالد رانجھا ہماری اس خوش فہمی کو سرگودھا کی ریتلی خاک میں ملا کر دم لیں گے۔ وہ ایک فوجی آمر (جنرل پرویز مشرف) کے وزیر قانون بن گئے۔ (اُنہوں نے آج تک اس قانون شکنی پر معافی نہیں مانگی) ۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے ہر روایتی زمیندار گھرانہ کا ہر فرد اتنی صدیوں سے اقتدارپرست رہا ہے کہ وہ سورج مکھی کا پھول بن گیا ہے۔ ہر چڑھتے سورج کی طرف منہ کر کے اُسے جھک کر سلام کرتا ہے‘ کورنش بجا لاتا ہے ۔ میاں محمود علی قصوری کا خاندانی پس منظر بھی دیہاتی زمیندار گھرانے کا ہوتا تو وہ بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار کے امین اور محافظ نہ بن سکتے۔ ہم سب اپنے ماضی کے اسیر ہوتے ہیں۔ آپ کا یہ کالم نگار اپنے آپ کو بطور نشان عبرت پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہے۔ دس برس برطانیہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سماجی علوم پڑھائے۔ بی بی سی سے بطور براڈ کاسٹر چار سال وابستہ رہا۔ یہاں پانچ برس قانون کی اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کی۔ 30 سالوں سے بطور وکیل برطانیہ میں پریکٹس کی۔ پانچ قابل اور کامیاب بیرسٹروں کا باپ ہوں اور ایک سابق کالج لیکچرر (جنہوں نے پاکستان میں سات برس اور برطانیہ میں پانچ برس علم معاشیات پڑھایا) کا شوہر (نامدار کا اضافہ غیر مناسب ہوگا) مگر اس کے باوجود جب میں اپنے ذہن کو اوراپنے مزاج کو اور اپنے روّیوں کا تجزیہ کروں‘ گوشت پوست میں چھپی ہوئی ہڈیوں اور ہڈیوں کے اندر پوشیدہ گودے کو کریدوں تو مجھے سات پردوں میںچھپے ہوئے اُس طرح کے ایک نیم وحشی کا عکس نظر آتا ہے جو پھالیہ اور پنڈی بھٹیاں جیسے مقامات میں پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے یہ مان لینے میں کوئی تامل نہیں کہ اگر میں بھی ڈاکٹر خالد رانجھا کی جگہ ہوتا تو غالباً وہی کرتا جو اُنہوں نے کیا۔
1947 ء سے پہلے ہمارا مقابلہ بیک وقت انگریزوں اور ہندوئوں سے تھا۔ اس وقت ہمارے اخلاقی معیار بہت بلند تھے۔ اس دور نے علامہ اقبال‘ حسرت موہانی‘ قائداعظم محمد علی جناح‘ درجنوں مشاہیر اور سینکڑوں بڑے بڑے لوگ پیدا کئے۔ میاں محمود علی قصوری نے 1947 ء سے قبل تعلیم و تربیت مکمل کر لی۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میںوہ انسان دوستی‘ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کی زندہ علامت تھے۔ اب اگر وہ دور ختم ہو گیاجس میں وہ پیدا ہوئے‘ ہوش سنبھالا اور اپنے اردگرد کے ماحول سے اعلیٰ اخلاقی اقدار سیکھیں تو ہم نیا میاں محمود علی قصوری کہاں سے لائیں! جب سانچہ ہی ٹوٹ گیا تو اُس سے پرانی وــضع کے افراد اور اگلے وقتوں کے لوگ اُفق پر اُبھریں تو کیونکر؟مے کشوں کے آداب و اطوار بدل گئے۔ نہ وہ مے خانہ رہا نہ وہ ساقی۔
پرُانے جام شکستہ ہو کر پاش پاش ہو گئے اور سارا ڈھانچہ تبدیل ہو گیا ۔ اب ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمیں ڈاکٹر خالد رانجھا جیسے ہوا کا رُخ دیکھنے والوں‘ مصلحت اندیش اور ''کامیاب افراد‘‘ کے ساتھ ہی گزارہ کرنا پڑے گا اور اُنہیں ہمارے جیسے مستقلاً ناراض‘ ناکام اور نوحہ کناں افراد کے ساتھ ۔ کیا کریں ہماری قسمت ہی کھوٹی نکلی۔
ہماری جیب میں (ماسوائے چند استثنائی افراد کے) سارے سکّے بھی کھوٹے ہیں ۔ وہ جن کے دلوں میں کھوٹ ہی کھوٹ ہے۔ اب دل نہ مندر رہے نہ مسجد۔ ہم کریں تو کیا کریں؟ جائیں تو جائیں کہاں؟
اب واپس آتے ہیں۔جناب ایس ایم ظفر نے ایک بہت اچھا وکیل ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے دفاع میں کہا ہے (ریکارڈ کی دُرستی کے لئے میرے نام بھیجی ہوئی Email میں) کہ وہ ایک آمرانہ حکومت کے وزیر قانون بنے جس کو اُس وقت کی سپریم کورٹ نے جائز ہونے کاسرٹیفکیٹ جاری کیا تھا اور جس نے دو عام انتخابات بھی کرائے تھے۔ جناب سید محمد ظفر صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ قانونی موشگافیاں اپنی جگہ مگر تاریخ نے اپنا فیصلہ تمام فوجی آمریتوں کے خلاف صادر کر دیا ہے۔ میں آدھا سچ بیان کرنے پر شاہ جی (میرے جیسے مداح اُنہیں 60 سالوں سے اِسی نام سے پکارتے آئے ہیں) سے اور اپنے قارئین سے معافی کا طلب گار ہوں کہ میں نے نادانستہ کالم میں یہ لکھ دیا تھا کہ جناب شاہ جی نے فوجی عدالتوں کی حمایت کی تھی۔ مجھ سے ایک بھول اور بھی ہوئی۔ شاہ جی نے اپنی تقریر میں یہ بھی فرمایا کہ 2015 ء میں لکھی گئی تاریخی دستاویزمیگنا کارٹا (Magna Carta )‘جو کافی ضخیم ہے‘ کی صرف تین شقوں میں شہری آزادیوں اور عوامی نمائندوں کے ترجمانی کے استحقاق کا ذکر ہے مگر برطانوی عوام اور برٹش سول سوسائٹی نے اپنی صدیوں طویل جدوجہد سے ان تین شقوں کو بنیاد بنا کر انسانی حقوق کی ایک بڑی عمارت کھڑی کر دی۔ شاہ جی کے دیئے گئے بے حد قیمتی مشورے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان میں بھی سول سوسائٹی کو متحد ہو کر اپنے مشترکہ حقوق کی حفاظت کرنی ہوگی۔ایک شاندار اور ناقابل شکست فصیل جو ہمیں شب خون مارنے والوں سے محفوظ رکھ سکے۔ رات کا ہے اندھیرا اور سمندر طوفانی۔ ڈگمگائی ہوئی کشتی۔ ساحل نظر نہیں آتا۔ آیئے ہم مل کر روشنی کا مینار بنائیں۔ اقتدار کی جنگ میں ہمہ وقت مصروف رہنے والوں کا منہ نہ دیکھتے رہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں