بیس کروڑ ’’گونگے‘‘

میرے قارئین جس دن یہ کالم پڑھیں گے، اُنہیں غالباً یہ احساس بھی نہ ہوگا کہ باتوں باتوں میں دو سال گزرگئے۔ صرف پرندوں کو ہی نہیں وقت کو بھی پرَ لگے ہوتے ہیں اور وہ اتنی تیزی سے اُڑتا ہے کہ بقول غالب ؎
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پا ہے رَکاب میں
اس کالم کی دُوسری سالگرہ دبے پائوںآئی اورگزرگئی مگر اب مجھے یاد آیا تو میں اپنے قارئین کے لیے نیک تمنائوں کا اظہارکرتا ہوں، اُن کی خیر و برکت کی دُعائیں مانگتا ہوں۔ آج اچھا سا خاندانی کیک کاٹوں گا، دو موم بتیاں جلائوںگا اور اپنے بال بچوں کے ساتھ مل کر دُوسری جنم دن مبارک کا گیت گائوںگا۔ میرے چھ بچے ہیں، تین پاکستان پیدا ہوئے اور بہت چھوٹی عمر میں برطانیہ آگئے، تین انگلستان کے شمال مغرب میں لنکا شائر کے تاریخی شہر بلیک برن میں پیدا ہوئے مگر سب کے سب اپنی مادری زبان پنجابی اتنی اچھی بولتے ہیں کہ لاہور (اپنی والدہ کے آبائی شہر) یا سیالکوٹ (اپنے دادا دادی کے آبائی ضلع) جائیں توکوئی شخص اُن کی بولی سُن کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ولایت میں پل کر جوان ہوئے اور پکے ولایتی ہیں۔ افسوس کہ وُہ اُردو لکھ سکتے ہیں نہ بول اور پڑھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بدقسمتی سے نہ اقبالؔ پڑھ سکتے ہیں نہ فیض و فراز۔ یہ تو تھے نقصانات، فائدہ یہ ہوا کہ وہ اپنے باپ کے لکھے ہوئے کالم پڑھنے کی زحمت سے بچ گئے۔ ولایت میں رہتے ہوئے تارکین وطن میں سے جن لوگوں نے چاہا کہ اُن کی اولاد کا مادر وطن سے اور اس کی بدولت خود والدین سے قریبی اور گہرا تعلق قائم رہے اُن کو میں نے ہمیشہ یہی مشورہ دیا کہ میری سگھڑ بیوی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تین چیزوں کو اپنالیں تو کبھی اولاد کے معاملہ میں گھاٹے میں نہ رہیں گے اور وہ ہیں ماں بولی، ساگ (دیسی کھانا) اور شلوار قمیص (دیسی لباس۔) ظاہر ہے کہ میرے بچے انگریزی بولتے ہیں اور ہر لحاظ سے اب اُن کی یہ پہلی بولی ہے مگر وہ پاکستانی اشرافیہ کے برعکس انگریزی میں نہیں سوچتے۔ بالکل دیسی اور طبعاً ''پینڈو‘‘ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سارے چچا صاحبان (خصوصاً رانا اعجاز احمد خان، ڈاکٹر خالد رانجھا اور راجہ منور احمد) کو اچھے لگتے ہیں۔
یوں تو ہماری گمراہی اور کج روی کی ان گنت مثالیں ہیں مگر ان میں سرفہرست زبان کے مسئلہ پر ہماری فکری قحط سالی، ذہن بانجھ پن اور عدم بلوغت ہے۔ ہم اُس روایتی کوّے سے بھی گئے گزرے ہیں جو ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں برُی طرح ناکام رہا، طُرفہ تماشا یہ کہ اپنی چال بھی (جس کا چلن سے دُور کا واسطہ نہ تھا) بُھول گیا۔ پاکستان کے ہر صوبے میں دسویں جماعت تک اپنی مادری زبان (پنجابی، پشتو، بلوچی یا سندھی) اور قومی زبان (اُردو) پڑھائی جانی چاہیے۔ سکولوں کے نصاب میں انگریزی کو وُہی درجہ (اختیاری) دیا جانا چاہئے جو دُوسری غیر ملکی زبانوں (فارسی، عربی، جرمن یا فرانسیسی) کودیا جاتا ہے۔ ہمارے جو طالب علم روس، چین یا جرمنی اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتے ہیں اُنہیں اپنا نصابی مضمون پڑھانے سے ایک سال پہلے صرف وہاں کی زبان سکھائی جاتی ہے اور وہ ایک سال کے اندر اس زبان پر اتنا عبور حاصل کر لیتے ہیں کہ اُنہیں اگلے چند سال اپنا مضمون (طب ، انجینئرنگ اور جراحی سمیت ) بڑی آسانی اور کامیابی سے پڑھ لیتے ہیں۔
ہمارے سیاسی رہنما اور قانون دان آئین کی پاسداری پر زور دیتے ہوئے نہیں تھکتے مگر حیرت ہے کہ اُن کا حافظہ اتنا مصلحت اندیش ہے کہ جو چیزیں اس قابل ہوں کہ بُھلا نہ دی جائیں وہ کسی طو ر یاد نہیں رکھتے۔ آئین کے اُس حصے کو سمجھنے کے لیے سپریم کورٹ کے معزز اور قابل صد احترام جج جناب جسٹس جواد خواجہ ہونا ضروری نہیں جس میں صاف لکھا ہے کہ آئین سازی (جو1973ء میں ہوگئی تھی) کے پندرہ سال بعد اُردو ہماری سرکاری زبان ہوگی۔ یہ مرحلہ 1988ء میں طے پا جانا چاہیے تھا۔27 برسوں کے بعد بھی ہمیں آئین کی یہ شق دکھائی نہیں دیتی۔ آج کے پاکستان کی درسگاہوں میں انگریزی زبان اور انگریزی میں تدریس کی اس قدراجارہ داری ہے وہ انگریز راج کے زمانہ سے بھی سیکڑوں ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ کیا اسے کہتے ہیں انگریز سے آزادی؟کیا آزادی کا مطلب محض حکمران کی جلد کی رنگت میں تبدیلی ہوتا ہے؟ غالباً میں اپنے قارئین کو پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ انقلاب روس سے پہلے وہاں کی اشرافیہ کی زبان فرانسیسی تھی اوررُوسی زبان کو اُجڈ کسانوں اور غیر مہذب دہقانوں کی شناخت سمجھا جاتا تھا (جس طرح آج کے پنجاب میں متوسط اور بالائی طبقہ کے افراد پنجابی کو سمجھتے ہیں۔) جب تک ہم انگریزی کو دیس نکالا نہیں دیتے، کُھرچ کُھرچ کر اس کا نام و نشان نہیں مٹا دیتے تب تک ہم آزادی کے لفظ میں استعمال ہونے والے حروف ابجد میں ''آ‘‘ لکھنے کا بھی حق نہیں رکھتے۔ باقی چار حروف (زادی) لکھنے کی نوبت تو تب آئے گی جب ہم مادر وطن سے عشق کے باقی امتحانوں میں پورا اُتریںگے۔ اقبال نے ہماری اشک شوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ فکر نہ کرو ابھی مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس کالم نگار کی فریاد نقار خانہ میں طُوطی کی آواز ہے مگر میں آپ کو بھی نہ سنائوں توکیا کروں؟ چھ ہزار میل کے فاصلہ سے یہ سُطور اس اُمید پر لکھتا ہوں کہ آپ میری گزارشات پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے۔ مجھ سے پہلے بھی یہ اُمید ظاہر کی گئی تھی: شاید کہ ترے دل میں اُتر جائے میری بات !
ستم بالا ئے ستم کہ ہمارے قائدین سرکاری تقریبات میں انگریزی میں تقریر کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور پھر دیسی لہجے میں بولتے ہیں جو پست ترین معیار پر بھی پورا نہیں اُترتا۔ راجہ پرویز اشرف جیسے نیم خواندہ لوگ وزیراعظم بنے تو اُردو میں تقریر کرنا بھی اُن کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا تھا۔ یوسف رضا گیلانی بطور وزیر اعظم لندن آئے، ایک عالمانہ مجلس میں تقریر کے لیے بُلائے گئے، تقریر حد درجہ غلط انگریزی اور خالصتاً ملتانی لہجے میں کی گئی ۔ صدر مجلس نے حاضرین کو سوال کرنے کی دعوت دی تو کسی نے ایک سوال بھی نہ کیا۔ صدر نے سامعین سے اس غیر معمولی خاموشی کی وجہ پوچھی تو اُنہیں بتایا گیا کہ جب ان کی تقریرکی سمجھ ہی نہیں آئی تو سوال کیا کیا جائے؟ گیلانی صاحب کو ایک خیر خواہ نے مشورہ دیا کہ آئندہ لندن میں تقریرکریں تو مترجم ساتھ لایاکریں۔ اس کالم نگار نے اپنے وزیراعظم کو جو مشورہ دیا وہ مختلف تھا اور وہ یہ تھا کہ آئندہ لندن یا نیویارک میں تقریر کریں تو سرائیکی زبان میں کریں چونکہ وُہ صرف اپنی مادری زبان ہی روانی سے بول سکتے ہیں۔ میزبانوںکا فرض ہے کہ وہ مترجم کا بندوبست کریں۔ وہ جگ ہنسائی کا موقع کیوں دیتے ہیں؟ گیلانی صاحب کو یہ نصیحت ناگوار گزری اور وہ کچھ بولے بغیر مجھ سے زیادہ سے زیادہ فاصلے پر چلے گئے۔ اُن کا بس چلتا تو مجھے دہشت گرد قرار دے کر پولیس کے جعلی مقابلہ میں ہلاک کر وانے کی سزا دلواتے۔ کئی سال گزرگئے، ہوائی سفر کے دوران اتفاقیہ ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ میرے ساتھ والی نشست پر تھے۔ ایک باسی اخبار کے تمام صفحات کو جب بار بار پڑھ چکے تو ہم کلام ہوئے۔ شکر ہے، اُنہوں نے بات دُنیا کی سب سے میٹھی زبان سرائیکی میں کی۔ میں نے خلوص دل سے اُن کے صاحبزادے کی طویل گمشدگی پر گہری تشویش ظاہرکی اور پوچھا کہ سائیں! کوئی خبر ملی کہ بچہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟ وہ شدت غم سے خاموش رہے مگر مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ اُن کے دل پرکیا گزری ہوگی۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے اہل خانہ کو تو دوہرا عذاب برداشت کرنا پڑا۔ گھرا کا سربراہ اپنے باڈی گارڈ کے ہاتھوں جان سے گیا اور بیٹا برسوں سے اغوا ہوکر گم شدہ افراد کی صف میں شامل ہو گیا ۔ مقام عبرت ہے...! وطن عزیز میں سیاسی اور معاشی بحرانوں کی سنگینی، وسعت اور گہرائی سے انکار ممکن نہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ایک اندھے کنویں میں محض اس لیے گرتے جائیں کہ ہم گونگے ہیں، ہماری قوت گویائی سلب ہو چکی ہے۔ اگر 20 کروڑلوگ اپنی قوت گویائی کی بازیابی چاہتے ہیں تو اُنہیں پہلے اپنی اپنی مادری اور پھر قومی زبان بولنا، لکھنا پڑھنا سیکھنا پڑے گا ورنہ ہم تہذیبی اور ثقافتی بحران کے مہلک گرداب میں سے نہیں نکل سکیں گے: اک نکتے وچ گل مکدی اے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں