آمر کی بیٹی

لندن سے کیمبرج (جہاںآکسفورڈ کی طرح برطانیہ کی آٹھ سو سال پرانی یونیورسٹی ہے) زیادہ دُور نہیں۔ آکسفورڈ کی طرح یہ خوبصورت اور قدیم شہر لندن سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ میں ان دونوں شہروں سے اتنی عقیدت رکھتا ہوں(افسوس کہ اِن یونیورسٹیوں میں ہمارے چھ بچوں میں سے کوئی نہ پڑھا) کہ کسی نہ کسی بہانے وہاں جاتا رہتا ہوں اور اس جانے کو عزت اور محبت کے جذبات کے تحت زیارت کرنا کہتا اور لکھتا ہوں۔ کیمبرج کے راستے میں Saffron Walden نام کا ایک قصبہ پڑتا ہے۔ یہ بھی کمال کی جگہ ہے... قدیم مکانات، دل موہ لینے والا طرز تعمیر، سرسبز درختوں اور پھولوں سے ڈھکا ہوا۔ وہاں کے رہنے والے اتنے وضع دار ہیں کہ میں وہاں سیر کرنے نکلوں تو مرد و زن بڑی شائستگی سے مسکراتے ہوئے سلام کرتے ہیں اور موقع ملے تو خوش دلی سے دو چار باتیں بھی کر لیتے ہیں۔ آپ کہاں رہتے ہیں؟آپ کو پہلے نہیں دیکھا؟ یہاں ہمارے قصبے میں کتنی دیر ٹھہریں گے؟ اُمید ہے آپ کا میزبان آپ کا اچھی طرح خیال رکھتا ہوگا؟ ہم آج شام مقامی پاکستانی ریستوران میں کباب کھانے جائیں گے تو آپ سے غالباً وہاں ملاقات ہوگی؟ آج ایک عرصہ کے بعد ہمارے قصبہ میں دھوپ نکلی ہے۔ ہو نہ ہو ایسا آپ کے یہاں آنے کی برکت سے ہوا۔ آپ جلدی واپس نہ جائیں چونکہ دھوپ بھی آپ کے ساتھ چلی جائے گی۔
اب میرے قارئین بتائیں کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس قصبہ (اور اس طرح کے دُوسرے قدیم دیہاتی قصبات میں) رہنے والوں کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں تو کیا یہ شاعرانہ مبالغہ آرائی ہوگی یا حقیقت بیانی؟ میں''کفار‘‘ کی اس ادائے دلنوازی کو رشک بھری بلکہ اشک بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوں، اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں اورمیرے دل میں اُن کے لئے نیک تمنائیں جنم لیتی ہیں۔ اس دوران میرے دل و دماغ پر ایک کھردرا سا وزنی پتھر گرتا ہے۔ میں اُس پتھر کو اُٹھا کر دیکھتا ہوں (اور اپنے زخمی سر کو بھی) تو اُس پر دو الفاظ لکھے ہوتے ہیں ''گالی اور گولی‘‘۔ پوچھتا ہوں کہ اس پتھرکا تعلق کس پتھریلی زمین سے ہے؟ عالم غیب سے آواز آتی ہے: وہ ملک جسے تم اپنا وطن ِعزیزکہتے ہو، جہاں بیس کروڑ بہادراور جفاکش مگر مال مست یا حال مست لوگ رہتے ہیں۔ اُس خون آلودہ سر زمین میں وکلا پولیس سے گالی کی زبان میں بات کرتے ہیں اور پولیس گالی کا جواب گولی سے دیتی ہے۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوگی؟ وکلا اور پولیس ہر ملک کے نظام انصاف کے چار ستونوں میں سے دو ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون، سانحہ فیصل آباد، پھر سانحہ ڈسکہ۔ ایک سانحہ میں بہنے والا معصوم خون خشک نہیں ہوتا کہ دُوسرا سانحہ رُونما ہو جاتا ہے۔ یہ خون آشام سلسلہ حیدرآباد میں پکا قلعہ سے شروع نہیں ہوا بلکہ اس کا آغاز یکم جنوری 1965ء کو کراچی میں لیاری کے بے گناہ لوگوں کے قتل عام سے ہوا، جب ایوب خان (مناسب ہوگا کہ عیوب خان لکھا جائے) کے حامیوں نے جعلسازی اور دھاندلی سے اُس کی صدارتی انتخاب میں ہونے والی کامیابی پر جشن مناتے ہوئے مادر ملت فاطمہ جناح کے حامیوں پر فائرنگ کر دی تھی ۔ جشن منانے والوں کی قیادت ایوب خان کاایک بیٹا کر رہا تھا (جو آنے والے برسوں میں ایک موقع پر خود صدارتی اُمیدوار تھا۔) سوچتا ہوں بلکہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہوں کہ وہ مبارک وقت کب آئے گا جب ہمارے اُوپر حکومت کرنے والی سرکار لاٹھی اورگولی کا سہارا لینے کے بجائے قانون اورآئین کے مطابق چلے گی اور ہماری گفتگو سے گالی تو کُجا سخت الفاظِ تخاطب بھی غائب ہو جائیں گے۔ ہم اپنی نادر شاہی اور اندھی قوت کا مظاہرہ نہتے لوگوں پرگولیاں چلا کر نہیں کریں گے۔ ہم وُہی کریں گے جس کا سبق ہمیں چودہ سو سال قبل دیا گیا تھا... احسن الکلام ہونے کا سبق۔ جب بولو میٹھی اورآہستہ آواز میں بولو، کسی دُوسرے کا دل نہ دُکھائو، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا برتائو کرو۔ اگر ہم اپنی نالائقی اور پست کرداری کی وجہ سے سرورکائنات ﷺ اور اپنے پیارے نبی کی باتوں پر عمل نہیں کر سکتے تو کم از کم Saffron Walden میں رہنے والوں کی دوستانہ اور دل آویزگفتگو کے معیارکو تو اپنا سکتے ہیں۔ اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر ہمارے منہ سے ناشائستہ الفاظ اور ہماری رائفلوں سے گولیاں نکلتی رہیںگی، گالیاں ہمارے دل چھلنی کرتی رہیںگی اور گولیاں ہمارے جسموں کے پرخچے اڑاتی رہیں گی۔ اور یہ سب کچھ اُس سرزمین پر ہوگا اور ہوتا چلا جائے گا جہاں وُہ سبز ہلالی پرچم لہراتا ہے جس کا ترانہ ''ہمارا پرچم ، یہ پیارا پرچم اورعطائے رب کریم پرچم‘‘ ناہید اختر نے لہک لہک کر اس خوبصورتی سے گایا تھاکہ پرچم کا سر فخر سے اُونچا ہوگیا اور پرچم کو سلام کرنے والوں کا بھی۔ وُہ پرچم جسے قومی ترانہ لکھنے والے حفیظ جالندھری نے ''سایہ خدائے ذوالجلال‘‘ قرار دیا۔
1970ء میں لنکا شائر کے ایک کالج میں پڑھاتا تھا تو بی بی سی میں میری ہفتہ وار نشریات کی بدولت ایک نوجوان سے تعارف ہوا۔ نام تھا محمد جمیل کاہلوں جو ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رہنے والے تھے۔آگے چل کر یہ تعارف گہری رفاقت میں بدل گیا۔ برمنگھم سے لندن تک 130میل کا پیدل احتجاجی مارچ کیا تو جمیل بھی میرے بارہ ساتھیوں میں شامل تھے(باقی راستے میں بھاگ گئے۔) جمیل نے اپنے چھوٹے بھائی سرفراز انجم کو بھی برطانیہ بُلا لیا اور کاروبار شروع کرنے میں اُس کی مدد کی۔ بڑے بھائی کی طرح چھوٹا بھائی بھی کاروباری میدان میں کامیاب رہا۔ اُس نے اپنی کاروباری زندگی Saffron Walden میں بطور نیوز ایجنٹ شروع کی۔ یہ ایک ایسی دُکان تھی جہاں سارے اخبارات، رسائل اور روزمرہ کی کئی ضروری اشیا فروخت ہوتی تھیں۔ سرفراز کے اصرار پر ایک اتوارکا دن اُس کا مہمان بن کرگزارنے گیا۔ دُکان پر پہنچا تو اخباروں پر ٹوٹ پڑا اور اُن کی ورق گردانی کرنے لگا۔ اسی دوران اُدھیڑ عمرکی ایک معمولی شکل و صورت کی سفید فام خاتون دُکان میں آئی اور تیزی سے سارے اخبارات کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ چونکہ میں بھی یہی کام کر رہا تھا، میں نے اُس سے پوچھا کہ آپ میری طرح ازرہِ تجسس اخبارات دیکھ رہی ہیں یا آپ کو کسی خاص خبر یا خاص مضمون کی تلاش ہے؟ خاتون نے شکستہ انگریزی میں جواب دیا (جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ غیر ملکی ہیں) کہ وہ سوویت یونین کے بارے میں ایک ایسی خبر ڈھونڈ رہی ہیں جس سے انہیں خصوصی دلچسپی ہے اور آج اُس کی اشاعت متوقع تھی۔ بہت جلد اجنبیت کی برف پگھل گئی اور ہم دوستانہ باتیں کرنے لگے۔ میرے دل میں بڑی کھد بد ہو رہی تھی کہ پوچھوں کہ آپ ہیں کون؟ مگر یہ سوال کرنا آداب کے خلاف تھا۔ مجبوراً ضبط کرنا پڑا۔ وہ خاتون جانے لگیں تو رُک کر پوچھا، کیا آپ یہاں رہتے ہیں؟ میں نے نفی میں جواب دیا کہ میں تو اخبار فروش دُکان کے مالک کا انکل ہوں اور یہاں محض سیر کے لیے آیا ہوں۔ اب تعارف کا مرحلہ آگیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ بتائیں آپ کون ہیں؟ یہاں کیا کرتی ہیں؟ کئی لمحوں کی خاموشی کے بعد آواز آئی کہ میں سوویت یونین سے آئی ہوں اورآپ سن کر ضرور حیران ہوں گے میں سٹالن کی بیٹی ہوں۔ میں نے کہا کہ پھر تو آپ کا نام سوتیلاناSvetalane ہوگا۔ اپنا نام سن کر وہ حیرت اور خوشی سے کھلکھلا کر ہنسی۔ میرے ساتھ مصافحہ کیا اور دیر تک میرا ہاتھ تھامے رکھا۔ نہ مجھے کوئی بات سوجھتی تھی اور نہ اُس خاتون کو۔ ہم ایک دُوسرے کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔ میرے ذہن میںسوویت یونین کے تاریخی واقعات کی فلم چل رہی تھی جس کا مرکزی کردار سٹالن تھا اور خاتون اس فکر میں گرفتار تھی کہ نہ جانے اجنبی شخص اورکون سا نیا سوال کرے؟ آخر وقت جدائی آگیا۔ وُہ کہنے لگیں کہ اب مجھے جانا چاہیے اور وہ چلی گئیں۔ میں دُکان کے باہر گیا اور اُس وقت تک اُسے جاتے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے غائب نہ ہوگئیں۔ گلی کا موڑ مڑنے سے پہلے اُس نے ایک بار مڑ کر دیکھا تو مجھے دیکھ کر گرم جوشی سے الوداعی ہاتھ ہلایا۔ نہ اُنہوں نے اپنا پتہ بتایا کہ میں اُنہیں دوبارہ مل سکتا نہ میرے لیے یہ پوچھنا ممکن یا مناسب ہوتا (یہ ہوتا ہے برطانیہ میں زیادہ عرصہ رہنے کا نتیجہ۔) مئی کے آخری ہفتے میں اس خاتون پر برطانیہ میں ایک بڑی دلچسپ کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کے باوجود کہ سوتیلانا سے میری مذکورہ یادگار ملاقات کا اس کتاب میں کوئی ذکر نہیں، میں نے یہ کتاب ذوق و شوق سے پڑھنی شروع کر دی ہے اور اگلے کالم میں آپ کو اس کا خلاصہ بتائوں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں