آمر کی بیٹی

اگر آپ غور فرمائیں تو آپ کو اس نتیجے پر پہنچنے میںکوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ کسی بھی انسان کی زندگی میں جوحادثاتی واقعات سب سے اہم اور فیصلہ کن ہوتے ہیں وہ پیدائش اور موت ہیں۔ غالباً اُستاد ذوق کا شعر ہے ؎
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خو شی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
تاریخ میں آج تک کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے جو اپنے والدین، جائے پیدائش اور پیدائش کی تاریخ میں سے کوئی ایک چیز بھی چُن سکے۔ ہم اپنے بہن بھائیوں یا رشتہ داروں کے انتخاب میں بالکل بے بس ہیں۔ والد ہو یا قریب و دُور کے رشتہ دار، یہ سب ہمیں ورثے میں ملتے ہیں۔ یہی تقدیر ہوتی ہے ۔
تاریخ میں ہلاکو اور چنگیز خان کی صف میں کئی حکمران کھڑے نظر آتے ہیں جو ظلم و تشدد اور بربریت کی علامت تھے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ اُن سے خوف زدہ رہتے تھے۔ اُن کا نام ہی دہشت سے اس طرح جڑگیا کہ وقت گزر جانے کے باوجود اُن کا نام بولتے یا لکھتے وقت ذہن میں خوف کی سرخ لکیریں اُبھرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ صدی میں ایسے دہشت گرد حکمرانوں میں جرمنی کے ہٹلر، سوویت یونین کے سٹالن اور کمبوڈیا کے پول پوٹ کا دور حکومت سرفہرست تھے۔
پچھلے کالم میں Saffron Walden کے قصبہ میں نیوزایجنٹ کی دُکان پر سویتلانا نامی خاتون سے اتفاقیہ اور نہ بھولنے والی ملاقات کا ذکر تھا۔ وہ مارشل سٹالن کی واحدبیٹی تھی۔ پورا نام تھا Svetlana Alliluyeva تھا۔ مارشل سٹالن کی بیٹی بن کر پیدا ہونے کے بعد اُس کا گھر میں ہوش سنبھالنا اورجوان ہونا کتنا کٹھن کام تھا۔ سویتلاناکا یہ قول دُہرائے جانے کا مستحق ہے: ''میں جہاں بھی جائوں اپنے والدکے نام کی سیاسی قیدی رہوںگی‘‘۔ اُس نے اس قید سے رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اُس نے اسی سال سے زیادہ عمر پائی مگر اُسے مطلوبہ رہائی نہ مل سکی۔
1926ء میں پیدا ہونے والی بچی اس ناز ونعم سے پالی گئی جو رُوس کے زار بادشاہوں کے زمانے میں شہزادیوں کی پرورش کا خاصہ تھا مگر یہ سارا ٹھاٹھ باٹ، عیش و عشرت، ہر طرح کا آرام اور سہولت اُس بچی کو ذہنی سکون دے سکا نہ قلبی خو شی۔ اُس کی زندگی درد و رنج، ذہنی اذیت اور احساس زیاں سے عبارت رہی۔ میں اُس کا چشم دید گواہ ہوں۔ میں نے جن چند ساعتوں کے لیے اُسے دیکھا تو میرے سامنے ایک اُداس، قدرے پریشان ، زرد رُو خاتون کھڑی تھی جس کے چہرے پر خوشی کی ایک لکیر بھی نہ تھی۔ دل بجھا ہوا ہو تو چہرے پر خوشی کے آثارکیونکر نظرآئیں؟ بقول ناصر کاظمی ؎
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
کوئی بھی شہر کتنا ہی بارونق کیوں نہ ہو دیکھنے والے پریشان حال شخص کے لیے سائیں سائیں کرتا ہے۔ سویتلانا کا بھی یہی حال تھا۔ اُس کی والدہ کے لیے اپنے جلاد صفت اور انتہائی سخت گیر شوہرکے ساتھ گزارہ کرنا اتنا مشکل ہوگیاکہ اُس بدنصیب خاتون نے خود کشی کر لی۔ اسی وقت سویتلانا کی عمر صرف چھ سال تھی۔ بچی کو بتایا گیا کہ اُس کی والدہ کی جان خطرناک بیماری نے لے لی ہے۔ دس سال بعد (جب اُس کی عمر سولہ سال تھی) اُسے سکول میں اپنی ہم جولیوں کی دوستانہ گپ شپ کے دوران سچائی کا علم ہوا تو وہ دہل گئی۔ 1930ء کے لہو رنگ دس برسوں کے دوران سویتلانا کے رشتہ داروں کی بڑی تعدادکو یا توموت کے گھاٹ اُتارا جا چکا تھا یا وہ برفانی ویرانوں میں نظربند کیے جاچکے تھے۔ سٹالن کبھی اُس کے ساتھ لاڈ پیارکرتا تھا اور کبھی بے رحم ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بناتا تھا۔ ایک لمحہ پیاری بیٹی پر بوسوںکی بارش اور اگلے لمحے ظالمانہ سرد مہری اور تغافل۔ اُس کی عمر سترہ سال ہوئی تو ایک ایسے شخص کی محبت میں گرفتار ہوگئی جو عمر میں اُس سے دوگنا بڑا تھا۔ سٹالن کو اتنا غصہ آیا کہ اُس نے عاشق نامراد کو سائبیریا کی ایسی جیل میں غیر معین عرصے کے لیے قیدکروا دیا جہاں سے وُہ زندہ باہر نہ آیا۔ سٹالن کا دل نرم ہوتا تھا تو وہ اپنی بیٹی کو میری پیاری تتلی اور چڑیا کے محبت بھرے ناموں سے پکارتا تھا۔ سویتلانا نے ایک نوجوان ڈاکٹر سے شادی کی تو سٹالن کے غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ اُس نے اپنی پیاری بیٹی پر طعنوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا، تم اتنی بدصورت ہوکہ تمہارے ساتھ صرف وُہی مطلب پرست شخص شادی کرنے پر تیار ہوگا جو تمہارے باپ کے بلند مرتبے سے فائدہ اُٹھانے کی اُمید رکھتا ہو۔ سویتلانا کی رودادِ زندگی لکھنے والی خاتون مصنفہ کی نظر میں سٹالن کی ناراضگی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اُس کا داماد یہودی النسل تھا۔ سویتلانا کی زندگی میںکوئی بھی انسانی رشتہ یا کردار دیر پا ثابت نہ ہوا۔ اُس کی پہلی شادی چند سالوں کے بعد ختم ہو گئی اور دُوسری شادی کی مدت اُس سے بھی کم تھی۔ دل شکستہ لڑکی نے کئی بار محبت کی لیکن ہر بار یہ کھوکھلی اور عارضی نکلی، کسی پائدار انسانی رشتے کا پیش خیمہ نہ بن سکی۔ اُس کی واحد ہمدم ، ہم راز اور دوست اُس کی ذاتی ملازمہ تھی۔ 1953ء میں سٹالن نے وفات پائی تو سوتیلانا کو اُن تمام سنگین جرائم کا پتا چلا جس کا ارتکاب اُس کے باپ نے کیا تھا۔ اُ س نے عمر بھر اپنے باپ کی صفائی پیش کی نہ اُس کے جرائم کا جواز پیش کیا۔ مگر ایک بات وہ بار بار کہتی تھی کہ یقیناً میرا باپ آمر مطلق تھا، اگر لاکھوں افراد اُس کی کٹھ پتلی نہ ہوتے، اُس کے اشاروں پر نہ ناچتے اور اپنے ضمیر کی آواز سن کر میرے باپ کے شریک جرم بن جانے پر تیار نہ ہوتے تو جرائم کے ارتکاب پر کچھ تو قدغن تو لگ جاتی۔ وہ سٹالن دور سے اتنی برگشتہ ہوئی کہ بطور احتجاج عیسائی بن گئی۔ ماسکو میں بھارتی سفارت خانے کے ایک سفارت کار کا نام برجیش سنگھ تھا۔ سویتلانا کا اُس کے ساتھ جو دوستانہ رشتہ استوار ہوا وہ اُس کی زندگی میں سکون، محبت، ذہنی ہم آہنگی اور جذباتی آسودگی لایا۔ مگر بدقسمتی نے سویتلانا بے چاری کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ابھی اس دوستی کو ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ بھارتی ڈپلومیٹ عالم جوانی میں فوت ہوگیا۔ سویتلانا نے بڑی مشکل سے سوویت حکمرانوںکو منایا کہ وہ اُسے اپنے مرحوم دوست کی راکھ لے کر بھارت جانے کی اجازت دیں تاکہ راکھ کو دریائے گنگا میں بہایا جا سکے۔ یہی سفراُس کی رہائی کا سبب بنا۔
ماتمی رسومات سے فارغ ہوکر 6 مارچ کی شام کو وہ دہلی میں امریکی سفارت خانے گئی اور سیاسی پناہ مانگ لی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ماسکو میں دو جوان بچوں (بیٹا اور بیٹی) سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئی۔ سویتلانا کی زندگی رُبع صدی میں بڑی کٹھن آزمائشوں میں گزری۔ ہر طرح کی مصیبتوں نے اسے گھیرے رکھا۔ امریکہ کی سی آئی اے اور روس کی کے کارندے عمر بھر اُس کا پیچھا کرتے رہے (شکر ہے، سویتلانا نے مجھے خفیہ ایجنٹ نہ سمجھا اور مجھے دوستانہ نظروں سے دیکھا) اُس کے سرد ہاتھوں نے اپنے لمس سے مجھے (بقول غالب)یہ پیغام دیا ۔
جلاہے جسم جہاں دل بھی جل ہو گیا ہوگا
کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے
سویتلانا نے رُوس چھوڑنے سے پہلے اپنی یادداشتیں مرتب کیں۔ کتاب کا نام تھا ''دوست کے نام 20 خطوط‘‘ ۔ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور دُنیا بھر میں اتنی فروخت ہوئی کہ لکھنے والی خاتون کو پندرہ لاکھ ڈالرکی آمدنی ہوئی مگر سویتلانا امریکی طرز زندگی سے سمجھوتہ کر سکی۔ وہ بہت جلد اپنی کمائی سے محروم ہو گئی چونکہ اُسے کچھ پتا نہ تھا کہ سرمائے کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے؟ امریکہ میں ایک معمار (Architect) جس کا نام Wesley Peters سویتلانا کا آخری شوہر بنا تاکہ اُس کی بچی کھچی پونجی کا بھی صفایا کر سکے۔ زندگی کے پہلے 40 برسوں میں جس خاتون نے گھر سے باہر قدم نہ رکھا، اپنے آخری 40 سالوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہی۔ بہت کم لوگوں نے اُس کے ساتھ دوستی کی۔ اس کالم نگار سمیت بہت کم لوگ اس کے قدردان اور خیر خواہ تھے مگر وہ ساری زندگی لوگوں کے تجسس اور توجہ کا مرکز بنی رہی۔ 1980ء کی دہائی میں وہ واپس رُوس جا کر آباد ہوئی مگر صرف چند برسوں کے لیے۔
زندگی کے آخری سال بڑی عُسرت، مصیبتوں اور تنگ دستی میں گزرے۔ برطانیہ میں دس سال سے زیادہ عرصہ گزارا جہاں وہ سرکاری خیرات سے گزارہ کرتی تھی۔ 2011 ء میں امریکہ میں وفات پائی۔ امریکی حکومت سے ملنے والا وظیفہ جو بہت نادار اور محتاج لوگوں کو دیا جاتا ہے، اُس کے نان نفقہ کا بندوبست کرتا تھا۔ سوانح عمری کی فاضل مصفنہ کی رائے میں شدید مالی مشکلات کے باوجود سویتلانا کی عزت نفس، وقار اور اعلیٰ اخلاقی اقدارکی پاسداری میں عمر بھرکمی نہ آئی۔ آخر موت نے اُسے وہ سکون دیا جو اس بے چاری کے لیے سراب بنارہا۔ پھر بھی ہم یہ نہیں جانتے کہ مرکر اُس کی مضطرب رُوح کو چین ملا یا نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں