تذکرہ ایک نہر اور ایک کتاب کا

آج اس کالم میں آپ کا تعارف ایک ایسی نہر سے کرایا جائے گا جس کا آپ نے نہ پہلے نام سنا ہوگا اور نہ اُس کے حدود اربعہ سے واقف ہوں گے۔ نہر کا نام ہے Canal DU Midi ۔ یہ 155میل لمبی ہے اور دو سمندروں (اٹلانٹک اور بحیرہ روم) کو آپس میں ملاتی ہے(اس کا مطلب ہے یہ جنوبی فرانس میں ہے۔) اس کے دونوں کناروں پرPlane نسل کے42 ہزاردرخت اس خوبصورتی سے لگائے گئے ہیںکہ اقوام متحدہ نے اسے بنی نوع انسان کے مشترکہ سرمایے کی عالمی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ یہ نہر صرف انجینئرنگ کا ہی نہیں بلکہ قدرتی حسن کا بھی شاہکار ہے۔ یہ نہر فرانس کے Sun King (Louis XIV) کے حکم پر کھودی گئی تھی۔ 1830ء میں اس کے کناروں پر درخت لگانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ اس کے پشتوںکو مضبوط بنایا جا سکے۔ دس سال گزرے تھے،اہل فرانس پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ ان درختوںکو ایک مہلک بیماری لگ گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب دُوسری جنگ عظیم میں جرمن جارحیت کا مقابلہ کرنے اور شکست خوردہ اہل فرانس کی مدد کرنے امریکی فوج آئی تو اُن کے گولہ بارود کے ساتھ ایک خطرناک Fungus (یک خلوی پھپوندی) بھی آگئی جو درختوں کی اتنی بڑی دُشمن ہے کہ شاید فرانس کے محکمہ زراعت کو یہ سارے کے سارے درخت کٹوانے پڑیں۔ جو درخت بیمار ہو جائیں اُن کے پتے گر جاتے ہیں اور وہ جس حالت میں نظر آتے ہیں اُسے عرف عام میں ٹنڈ منڈ کہا جاتا ہے۔ ان درختوں کی حالت زار دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ جو برُا حال دُنیا کی سب سے خوبصورت نہرکے کنارے درختوںکا ہوا، وہ انسانوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ بے ایمانی اور بدعنوانی کے زہر سے اُن کے پتے گر جاتے ہیں اور وہ بھی ٹنڈ منڈ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ وہ سرسبز و شاداب نہ رہیں اور سایہ دار بن جانے کی صلاحیت بھی چلی جائے تو ایک دن ایسی تبدیلی آتی ہے کہ اُنہیں سُوکھے درختوں کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے۔کیا یہ تمثیل ہمارے بہت سے سیاسی قائدین کے لئے باعث عبرت نہیں؟
اس سے پہلے کہ آپ کا کتاب سے تعارف کرایا جائے، میرے بوڑھے کانوں میں شاعر مشرق و مغرب (اقبال) کے پیش گوئی کرتے ہوئے دومصرعے اورایک شعر اس طرح گونج رہے ہیں کہ مجھ سے نہ کوئی اور بات لکھی جاتی ہے اور نہ سوچی جا سکتی ہے۔ پہلا مصرع ہے: کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ۔اس سیاق و سباق میں دُوسرا مصرع بھی پڑھ لیں: جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا ۔
تیسرا شعرہے جو آپ مکمل پڑھ لیں ؎
گیا دور ِسرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
چین کی مالی حالت تھوڑی سی خراب ہوئی اور مشرق سے لے کر مغرب تک ہر سٹاک مارکیٹ میں اربوںکھربوں ڈالرکے حصص (Shares) آناً فاناً منہ کے بل جاگرے۔ دُوسرے الفاظ میں چھینک چین کو آئی (اور وُہ بھی صرف ایک) مگر سارے یورپ اور امریکہ کو زکام ہو گیا۔ یہ سطور 26 اور 27 اگست کی درمیانی شب لکھی جا رہی ہیں۔ میرے مطالعہ کے کمرے کے باہر اتنا اندھیرا نہیں جتنا اس وقت کھرب پتی سرمایہ داروں کی آنکھوں کے سامنے چھایا ہوا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب سوویت یونین (ذرائع پیداوار پر سرکاری افسروں کے مافیا طرزکے قبضہ کی وجہ سے) صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ اس سانحہ پر اہلِ مغرب نے خوشی سے اُونچی آواز میں نعرے لگائے۔ زور زور سے تالیاں بجائیں، اشتراکی فلسفہ سے وابستگی یا (اس کالم نگارکی طرح) ذہنی ہمدردی رکھنے والوں کا مذاق اُڑایاگیا۔ تمام ترقی پسندوںکو اشتراکیت کی قبر پر مجاور بن کر بیٹھ جانے کا دوستانہ مشورہ دیا گیا۔ ہزاروں عوام دوست پکڑ دھکڑ سے لے کر بدترین تشدد کا نشانہ بنے۔ چلّی کے منتخب صدر اولاندے کو قتل کرکے پنوشے(Pinochet)کی فسطائی حکومت قائم کی گئی۔ امریکہ کی سی آئی اے نے گوئٹے مالا اور نکارا گوا کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا۔ مغربی جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے کہ وہ صرف نوم چومسکی کی کتاب میں لکھے جا سکتے ہیں۔ اب یہ عوام دُشمن نظام حالت نزع میں ہے، اسے مصنوعی تنفس سے زندہ رکھا جا رہا ہے۔ یورپ کے دو ممالک (یونان اور سپین) میں تو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکیں جڑ پکڑ چکی ہیں۔ یہ یونان میں برسر اقتدار آچکی ہیں، سپین میں آنے والی ہیں۔ اگر بارہ ستمبر کو برطانیہ کی لیبر پارٹی کی راہنمائی کا تاج عوام دوست اور سامراج دُشمن Jereny Corbym کے سر پر رکھا گیا تویہاں وہ زلزلہ آئے گا جس کی بازگشت پاکستان کے میدانوں، صحرائوں اور پہاڑوں تک سنائی دے گی۔ 
اب آتے ہیں کتاب کی طرف جو میرے محترم قارئین کی خصوصی دلچسپی کا موجب ہو گی۔ یہ کتاب یاسمین خان کی ہے۔ وہ آکسفورڈ میں تاریخ پڑھاتی ہیں۔ کتاب کا نام ہے: The Raj at War: A People's History of India's Second World War فاضل مصنفہ نے بڑی عرق ریزی سے ثابت کیا کہ برطانیہ کو دُوسری جنگ عظیم میں محض اس لئے کامیابی حاصل ہوئی کہ ساری برطانوی سلطنت کے وسائل اور لاکھوں فوجی اُس کی مدد کر رہے تھے۔ برصغیر ہند و پاک سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کی تعداد 25 لاکھ تھی۔ برما سے فوجی انخلا کا مرحلہ آیا تو انگریز افسر جان بوجھ کر ہندوستانی سپاہیوں کو (گورے سپاہیوں سے علیحدہ کر کے) ایسے غیر محفوظ راستے سے سفر کرنے پر مجبور کرتے تھے جہاں وہ جاپان کی بے رحم بمباری کا نشانہ بن جاتے۔ بنگال میں چاول کی تجارت کو وہاں کی عوام کے بجائے برطانوی راج کے مفادات کے تابع کیا گیا۔ تجارتی بحری جہازوں پر قبضہ کرکے اُنہیں صرف فوج کی نقل و حمل کے لئے مخصوص کر دیا گیا۔ وہ سب کچھ کیاگیا جو انسانی تاریخ کے ایک بدترین قحط کا باعث بنا۔ لاکھوں افراد بھوک کے مارے سسک سسک کر مر گئے اور اُن کا کوئی والی وارث نہ تھا (گویا اُسی طرح کی غیر انسانی بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا جو ہماری ہر حکومت تھر، چولستان اور بلوچستان کے عوام کے لئے دکھاتی چلی آرہی ہے۔) فاضل مصنفہ نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ 1942ء میں برطانوی حکمرانوں نے چاول کی بار برداری کرنے والی ہزاروںکشتیاں اور چاول کے ہزاروں من کے ذخائر محض اس خوف سے جلا کر راکھ کر دیئے تھے کہ وہ کہیں پیش قدمی کرنے والی جاپانی فوج کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ میں خاتون مصنفہ کی خدمت میں شکریے کے پھول پیش کروں گا کہ اُنہوں نے ایک اچھے مورخ کی طرح غیر جانبداری اور دیانت داری پر سمجھوتہ کئے بغیر قائداعظم کی عہد ساز جدوجہد کو بڑی اچھی طرح بیان کیا اور اُن کے بلند کردار، اُصول پرستی اورآہنی عزم کی بے حد تعریف کی۔ کتاب کے صفحات (236 اور 237 ) پر جہلم کے ایک گائوں میں رہنے والی ایک سیدھی سادی خاتون نذیر بیگم کا ذکر ہے (یہ نام مجھے اس لئے اچھا لگا کہ میری والدہ مرحومہ کا بھی یہی نام تھا۔) اُس کا خاوند برطانوی فوج میں سپاہی تھا، نام تھا بوٹا خان، نائیک نمبر13312۔ وہ سالہا سال سے گھر سے غائب تھا۔ مختلف محاذوں پر دادِ شجاعت دینے والے سپاہی کی بیوی کو گھرکا خرچہ بھیجاجاتا تھا نہ وہ گھر واپس جاتا تھا۔ جب نذیر بیگم کا صبر جواب دے گیا تو اُس نے کمانڈنگ افسرکو اتنی اچھی انگریزی میں خط لکھوایا جو یہ کالم نگار برطانیہ میں اتنے برس پڑھنے پڑھانے کے باوجود نہیں لکھ سکتا۔ خط کا مضمون یہ تھا کہ یا تو بوٹا خان گھرکا خرچہ بھیجنا شروع کرے یا اپنی جنگ پر آمادہ بیوی کو طلاق دے کر فارغ کرے۔ یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی (جیسا کہ ہر بیوی کی ہوتی چلی آئی ہے۔) صفحہ 238 کے آخر میں ''قسمت‘‘ کے نام پر بنائی جانے والی فلم کا ذکر کیا گیا ہے جو 1965ء کی جنگ میں حصہ لینے والے سپاہیوں اور اُن کی پریشان حال اور مفلوک الحال بیویوں اور والدین اور تباہ حال بچوں کے موضوع پر بنائی گئی اور 1993ء میں نمائش کے لئے پیش کی گئی اور اتنی کامیاب رہی کہ اخباروں کو کھڑکی توڑ ہفتہ کی اصطلاح گھڑنی پڑی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں