کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔۔۔۔۔ (حصہ اول)

عرصہ ہوا جب اقبالؒ نے ہم سے پوچھا: کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
اُردو شاعری کا جو جدید دور حالیؔ سے شروع ہوا، وہ اقبالؔ کے کلام کی صورت میں معراج تک جا پہنچا۔ سو یہ ہے جدید اُردو شاعری کا مختصر سفر جس میں یہ رگِ گُل سے بلبل کے پر باندھنے اور محبوب کی نظر نہ آنے والی کمر کی تلاش سے لے کر بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز تک جا پہنچی اور اس طرح یہ ہمارا سب سے قیمتی ادبی، ثقافتی اور ذہنی سرمایہ بن گئی۔ آج کا یہ کالم جو اقبالؒ کے مذکورہ مصرعے سے شروع ہوا، شاعر مشرق و مغرب اقبالؔ کے مصرعے پر ختم ہوگا۔ 
اقبالؒ نے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں سے جو اہم اور بنیادی سوال کیا، ہم ڈیڑھ سو برس گزر جانے کے بعد بھی اُس کا جواب نہ دے سکے۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کی فصاحت، ابوالکلام آزاد کی انشاء پردازی، علامہ عنایت اللہ مشرقی کے تذکروں کے علاوہ بھی ہم نے بہت کچھ سنا اور پڑھا بلکہ بار بار سنا اور بار بار پڑھا مگر اُوپر پوچھا گیا سوال ابھی تک جواب کا منتظر ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ زمانے میں پنپنے، آگے بڑھنے، نشوونما پانے، ارتقائی مراحل طے کرنے، جدید تقاضوں کے آگے سر جھکانے، مختصراً یہ کہ ترقی کرنے کے کون سے لوازمات ہیں؟ تقدیر کے قاضی نے ازل میں کون سا فتویٰ جاری کیا تھا؟ جواب دینے کے لئے راکٹ سائنس کا مطالعہ ضروری نہیں، جواب سیدھا سادا ہے اور وہ ہے عقل و خرد کی بالادستی، تعلیم، تحقیق و تدریس، انصاف و مساوات، ہر قسم کے تعصبات کا خاتمہ، مذہبی رواداری، کثیر ثقافتی معاشرہ، سلطانی جمہور، احترام آدمیت، ہر سطح پر ظلم و زیادتی اور استحصال سے نجات، آزادی تحریر و تقریر، بنیادی انسانی حقوق کا احترام، قانون کی حکمرانی؛ ذات پات و جنس، قبائلی تعلق، رشتہ داری اور دوستی یاری کے بجائے اُصول اور اعلیٰ انسانی اقدار پر معاشرہ کی ترتیب نو اور تشکیل نو! جہالت کے بجائے نشاۃ ثانیہ، یورپ میں اصلاح کلیسا (جس سے جدید روشن دور کی ابتدا ہوئی) کی طرح مذہبی سوچ میں تقلید کی بجائے اجتہاد، اقبال، عبیداللہ سندھی اور شاہ ولی ؔاللہ کا بتایا ہوا، بار بار بتایا ہوا اجتہاد،گھر کے صحن سے لے کر مدرسوں تک، مدرسوں سے لے کر حکومت کے ایوانوں تک ہر جگہ بدبو اور اندھیرے کی بجائے روشنی اور خوشبو اور ان کی وجہ سے رب ذوالجلال کی رحمتوں کا وہ بابرکت سایہ جو ان دنوں ہمارے قومی ترانہ کے آخری تین الفاظ تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔ افسوس کہ پاک سر زمین ہرگز شاد نہیں۔ عوام میں کوئی اخوت نہیں۔ قومی ترانہ میں قوت ِاخوتِ عوام کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے مگر عملاً عوام بے بس، بے زبان، لاچار، مظلوم اور ستم زدہ ہیں۔ سرکاری تقریبات میں بڑے جوش و خروش سے قومی ترانہ گایا جاتا ہے اور سال کے 365 دن وُہی سرکار اپنے عوام کو رعایاسمجھتی ہے اور اُن سے جو سلوک کرتی ہے وہ مغرب میں رہنے والے لوگ (جنہیں ہم کفار کہتے ہیں) جانوروں سے بھی نہیں کرتے۔ پھر ہم پر خدا وند تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں گی یا عذاب بلکہ عذاب در عذاب! پھر ہماری عبادت گاہوں میں نمازیوںپر گولیاں برسیں گی۔ جب ہم گدھے بن جائیں گے تو پھر ہمیں گدھے کا گوشت ہی کھانا پڑے گا۔ جب سینکڑوں معصوم بچوں پر سالہا سال بدترین جنسی حملے ہوںگے تو ہمارے اُوپر بھاری بھر کم کرین گریںگے جو ہمیں کچل ڈالیںگے۔ ہم بھگدڑ میں مارے جائیںگے۔ ہم بھاگنا چاہیں گے تو ہمیں کہیں پناہ نہ ملے گی۔ آسمان دُور ہوگا اور زمین اتنی سخت کہ وہ بھی ہمیں ہڑپ کرنے سے انکارکر دے گی۔ ہمارا یہ حال 1947ء اور پھر 1971ء میں ہو چکا ہے۔ شام جیسے قدیم اور خوبصورت اور نہایت شاندار ملک کے لاکھوں بہادر اور معصوم لوگوں کا کیا حال ہو رہا ہے؟ یہ سب مقام عبرت ہے! آپ ہمارے اخبارات اُٹھا کر ایک نظر دیکھ لیں، آپ کو یہ اندازہ لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ ہم ذہنی طور پر کہاں کھڑے ہیں؟ آپ ملاحظہ فرمائیں کہ ہم ابھی تک اُن عاملوں کی مدد کے طلب گار ہیں جو جنّات پر اپنی حکومت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم کالے جادو کا توڑ نکالنے (اور مناسب داموں پر اپنی خدمات پیش کرنے) والوں سے رُجوع کرتے ہیں۔ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تعویذوں کے ذریعے مصیبتوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ دو سال قبل یہ کالم نگار بہاول پور میں وہاں کے نامور وکیل ملک اسلم صاحب کا مہمان بنا تو فرمائش کی کہ مجھے اُچ شریف کے تاریخی مزاروں کی زیارت کرائی جائے۔ اُنہوں نے بکمال مہربانی یہ فرمائش پوری کر دی۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ لوگوں کی (زیادہ تر خواتین) لمبی قطار ایک حویلی کے باہر کھڑی ہے۔ دریافت کیا کہ یہ لوگ کون ہیں اور یہاں اتنی دیر سے اپنی باری کے کیوں منتظر ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ ضرورت مند یہاں کے سب سے بڑے جدی پشتی پیر صاحب سے تعویذ لینے آئے ہیں۔ میں قطار میں کھڑے ہونے کی زحمت اُٹھائے بغیر پیر صاحب سے اُن کی تاریخی حویلی میں ملنے گیا۔ جناب پیر صاحب (جو رُکن اسمبلی بھی ہیں) بڑی محبت سے ملے۔ نوادرات دکھائے اور چھ ہزار میل دُور سے آنے والے مہمان کو ہرن کی کھال پر لکھا ہوا تعویذ عنایت فرمایا۔ وہ دن اور آج کا دن، میں جہاں بھی جائوں وہ تعویذ میرے پا س ہوتا ہے اور مجھے ہمت کر کے مان لینا چاہیے کہ ایک پینڈو ہونے کے ناتے میں اُسے اپنے لئے با برکت سمجھتا ہوں۔ بقول شخصے آپ تو اپنے وطن سے نکل سکتے ہیں مگر آپ کا وطن اور وہاں کے رہنے والے (وہ چاہے جیسے بھی ہوں) آپ میں سے نہیں نکل سکتے۔ یہی حال میرا ہے۔ کروں توکیا کروں؟ ایک فرد اپنے معاشرہ کی اجتماعی سوچ سے ہرگز آزاد نہیں ہو سکتا۔ وہ زنجیریں جو نظر نہ آئیں کیسے توڑی جائیں؟ توہمات پر بنی ہوئی دیواریں کس طرح گرائی جائیں؟ نفسیات کے جد امجد ڈاکٹر سگمنڈ فرائڈ کی زبان میں غالباً اسے اجتماعی تحت الشعورکا نام دیاگیا تھا۔
اب آپ یورپ پر بھی ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ''کفار‘‘کتنی بڑی ذہنی جست لگا کر کہاں سے کہاں تک پہنچے اورکس تیز رفتاری سے ترقی کی دوڑمیں ہم سے کتنے آگے ہیں اور ہمارے اور اُن کے درمیان فاصلہ ہر روز، ہر ہفتہ، ہر ماہ اور ہر سال کس طرح بڑھ رہا ہے۔ ہر روز نئی دریافت، ہر لمحہ نئی ایجاد۔۔۔۔ قافلۂ شوق ہے کہ کہیں رُکتا نہیں! تین صدیوں سے یورپ رہِ نوردِ شوق ہے۔ وہ ''منزل‘‘ قبول کرے تو کیونکر؟ بقول اقبال، لیلیٰ بھی ہم نشین ہو تو اہلِ مغرب محمل سے دور بھاگتے ہیں۔ محمل کی آسودگی اُنہیں محو خواب ہو جانے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ وہ سمندروں کی تہہ میں غوطہ زن ہیں، خلائوں میں نئے سیاروں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اقبال نے جن نوجوانوں سے اظہار محبت کیا تھا وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے تھے۔ یورپ اُن نوجوانوں سے بھرا ہوا ہے اور یہی یورپ کی ترقی کا راز ہے۔ اگر ہم ڈاکٹر عطاء الرحمن کی فریاد سن لیں، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بتائے ہوئے نسخوں پر عمل کریں تو ہم بھی موجودہ ذہنی جمود کو توڑ کر تحقیق کا کٹھن سفر شروع کر سکتے ہیں۔ موجودہ نظام کہنہ نے ہمیں کولہو کا بیل بنا دیا ہے، جو ساری عمر ایک دائرہ میں ہی چلتا رہتا ہے۔ روزانہ کئی میل سفر کرنے کے باوجود جنات، عاملوں اور تعویذ وں کو اپنے عقائد کا حصہ بنا لینے والوں کے لئے یہ خبر یقیناً باعث حیرت ہوگی کہ ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے اور یاران تیزگام نے محمل کو جا لیا۔ یہ تو تھا اقبال کے ایک اور کمال کے شعرکا نثری بیانیہ۔ تازہ خبر یہ ہے کہ برطانوی سائنس دانوں نے برطانوی حکومت سے اجازت طلب کی ہے کہ اُنہیں Embroyo (جنین یعنی حمل قرار پانے کے بعد پہلے آٹھ ہفتوں میں پیٹ میں پلنے والے انسانی بچے) میں کیمیائی تبدیلیاں کر کے اسے خوب سے خوب تر بنانے کا اختیار دیا جائے۔ جو کالم حالی ؔکے مصرع سے شروع ہواتھا، اقبال کے اس مصرعے پر ختم کر رہا ہوں:
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں