آج کا دن اور گزرا ہوا دن

اگر آپ آج کے دن کو جدید اور گزرے ہوئے دن کو قدیم کہہ لیں تو بات آگے بڑھے گی۔ بقول شاعر مشرق و مغرب (اقبال) ع 
دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم 
اگر آپ مڑ کر دیکھیں تو گزشتہ دو صدیوں سے (جب سے ہمارے اُوپر مغربی یلغار شروع ہوئی ہے) ہمارے ہاں جدید و قدیم میں سے ایک کے انتخاب کی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ یہ بنجر بحث ابھی تک ختم نہیں ہوئی بلکہ مجھے تو کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم اس دلدل میں مزید دھنستے جا رہے ہیں۔ ایک طرف دیوبند‘ دُوسری طرف علی گڑھ، ایک طرف اسلام دُوسری طرف اشتراکیت‘ ایک طرف رائے ونڈ کا تبلیغی اسلام (تو فقط اللہ ہو‘ اللہ ہو‘ اللہ ہو) دُوسری طرف شاہ اسماعیل شہید‘ عبیداللہ سندھی‘ شاہ ولی اللہ اور خود ہمارے اپنے اقبال کا اسلام (یعنی ضرب کلیم‘ بال جبریل‘ ارمغان حجاز اور بانگ درا ) ایک طرف تقلید (تقلید کی روشنی سے تو بہتر ہے خود کشی) دُوسری طرف اجتہاد اور انقلاب (خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے۔) ایک طرف فرسودہ روایات (یہ اُمت روایات میں کھو گئی) دُوسری طرف جہان تازہ اور افکار تازہ (جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نُمودھا) ایک طرف آئین نو سے ڈرنا اور طرز کہن پہ اڑنا (منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں) تو دُوسری طرف خداوند تعالیٰ کا فرشتوں سے خطاب (اُٹھو میری دُنیا کے غریبوں کو جگا دو۔ کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو) ایک طرف کرگس کا جہاں اور دُوسری طرف شاہین کا۔ ایک طرف جہان پیر (Status Quo) کی پرستش۔ دُوسری طرف ولولہ انقلاب کی پرورش۔ بقول اقبال ؎
دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا 
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت
ایک طرف قُل العفو کے قرآنی حکم کے معنی کو پوشیدہ رکھنے کی سازش‘ دُوسری طرف اس حقیقت کو نمودار کرنے کی ہر ممکن کاوش۔ بقول اقبال ؎ 
حرف قُل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
ایک طرف علم و حکمت کی مہرہ بازی اور بحث و تکرار کی نمائش‘ پرانے افکار کی نمائش‘ عقلِ عیار کی نمائش‘ دُوسری طرف ہماری طرح کے ذہنی غلاموں کا ''جوہر ادراک‘‘ فروخت کرنے سے انکار۔ ایک طرف قضا بدلنے کی دُعا اور اپنی آرزو پوری ہو جانے کی دُعا اور دُوسری طرف‘ بقول اقبال ع
اس آرزو کے بدل جانے کی دُعا کیجئے
ایک طرف حسرت موہانی اور سبھاش چندر بوس اور دُوسری طرف مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو۔ ایک طرف خلافت اور دُوسری طرف ملوکیت (جو مولانا مودودی مرحوم کی بہترین کتاب کا عنوان ہے۔) ایک طرف شاہ ایران اور اُردن کے شاہ حسین اور ان جیسے سامراجی پٹھو اور دُوسری طرف ڈاکٹر مصدق‘ فاطمی اور امام خمینیؒ۔ ایک طرف ہوا کا رُخ دیکھ کر چلنے والے اور دُوسری طرف زمانہ ستیز۔ ایک طرف ساززمانہ(بنا کر رکھنے) والے کی پٹی پڑھنے اور پڑھانے والے اور دُوسری طرف (لڑنے اور مزاحمت کرنے) کی رسم حسینؓ پر چلنے والے۔ ایک طرف بہتی ندی کے ساتھ تیرنے والے اور دُوسری طرف زمانہ سے لڑنے والے(بقول اقبال بازمانہ ستیز۔) ایک طرف درباری قصیدہ گو اور سرکاری وظیفہ خوار (ان دنوں کسی خفیہ ایجنسی کا وظیفہ) اور دُوسری طرف فیض‘ جالب اور خوشحال خان خٹک۔ ایک طرف حسن ناصراور عافیہ صدیقی اور دُوسری طرف یوسف رمزی اور ایمل کانسی کو کئی ہزار ڈالروں کے عوض امریکیوں کے ہاتھ فروخت کرنے والے۔ ایک طرف جسٹس منیر‘ جسٹس انوار الحق اور چیف جسٹس ڈوگر کی طرح آئین کو پامال کرنے والے آمر مُطلق کے سہولت کار اور دُوسری طرف جسٹس سعید الزمان صدیقی‘ فخرالدین جی ابراہیم‘ جسٹس وجیہہ الدین احمد اور رانا بھگوان داس کی طرح بلند ترین عہدوں سے احتجاجاً مستعفی ہو جانے والے باضمیر جج صاحبان۔ ایک طرف زیڈ اے سلہری اور اُس قبیل کے صحافی اور دُوسری طرف مظہر علی خان اور حمید نظامی جیسے بااُصول اور بہادر انسان۔ ایک طرف جزائر انڈیمان (کالا پانی) میں ناقابل تصور اذیت ناک عمر قید کاٹنے والے مجاہدین( علمائے حق) اور دُوسری طرف انگریزوں سے خطابات‘ اسناد اور جاگیریں وُصول کر کے ان کے آگے دُم ہلانے والے۔ ایک طرف گدھے کو باپ بنانے والے اور دُوسری طرف رسم ابراہیمی کو زندہ کرتے ہوئے اپنے باپ (آذر) کے خلاف نقش قدم پر چلنے والے۔ ایک طرف ہر دیسی چیز کو برُا کہنے والے اور دُوسری طرف ہر بدیسی اور مغربی چیز کی آنکھیں بند کر کے تعریف کرنے والے۔ دُوسرے الفاظ میں ایک طرف ملا اور دُوسری طرف مسٹر۔ایک وہ تھے (ڈیڑھ سو سال قبل) جو انگریزی سیکھنا‘ بولنا اور پڑھنا کفر سمجھتے تھے اور دُوسری طرف وہ ہیں جو آج اپنی مادری زبان (خصوصاً پنجابی) کا ایک لفظ بولنا بھی کسرِ شان سمجھتے ہیں اور اگر مجبوراً بولیں تو اس صدمہ کی شدت سے نڈھال ہو جائیں۔ ایک طرف مشرق کے وہ مکین جن کا دل مغرب میں جا اٹکاہے۔ دُوسری طرف سفال پاک سے مینا و جام پیدا کرنے کی پیہم کوشش کرنے والے اوراپنے پرانے مٹکے کو مغرب کے بلوری ساغر پر ترجیح دینے والے۔ ایک طرف ماضی پر ست اور غیر ملکی مسلمانوں پر حملہ آوروں سے قریبی رشتہ داری کے جھوٹے دعویٰ دار اور دُوسری طرف ابنِ خلدون‘ ابن سینا‘ ابن رُشد‘ البیرونی اور فارابی کی عالمانہ عظمت سے انکار کرنے والے جدید ابو جہل۔ ایک طرف حجرہ نشین اور تہہ محراب سو جانے والے اور دُوسری طرف وہ جنہیں رسم دُعا یاد نہیں۔ فرنگی بتکدے میں کھو جانے والے۔ ہمارے سیاسی کلچر میں ایک طرف زندہ باد اور دُوسری طرف مردہ باد‘ نہ اعتدال نہ توازن نہ میانہ روی‘ نہ جدید و قدیم کا امتزاج‘ نہ دل و دماغ پر یکساں انحصار۔چاہیے تو یہ کہ ہم اقبال کی طرح مدینہ اور نجف کی خاک کو اپنی آنکھ کا سرمہ بنائیں‘ مگر پڑھیں کیمبرج (برطانیہ) اور ہائیڈل برگ (جرمنی) کی یونیورسٹیوں میں۔ بات وُہیں پر ختم ہو گی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ جدید و قدیم ایک ہی سکہ کے دو رُخ ہیں‘ ان میں صرف ایک کی دلیل دینا کم نظری کی علامت ہے۔ ہم اپنے ذہنی سفر میں انفرادی اور اجتماعی طور پر صرف اس صورت آگے بڑھ سکتے ہیں جب ہم یہ دوئی اور یہ تضاد ختم کر دیں۔ کام ذرا مشکل ہے مگر اسے کئے بغیر چارہ نہیں۔ اس پر ہمارے مستقبل کا انحصار ہے نہ کہ حلقہ نمبر122 کے انتخابی نتیجہ پر۔ یہ ہوتا ہے حقیقت اور خرافات میں فرق ۔
اس کالم نگار کے 75 سالہ مطالعہ کا نچوڑ یہ ہے کہ پنجابیوں کے لئے پنجاب کے بُلھے شاہ‘ وارث شاہ‘ سُلطان باہو‘ شاہ حسین اور سیف الملوک والے حضرت میاں محمد بخش ؒاورپٹھانوں کے لئے محراب گل افغان (جن کے افکار اقبال کی ضرب کلیم میں ہیں) اور سندھیوں کے لئے شاہ لطیف بھٹائی کا بغور مطالعہ اُتنا ہی ضروری ہے جتنا کارل مارکس کا‘ اقبال کا‘ نوم چومسکی کا۔ ارون دھتی رائے کا‘ باری علیگ اور زاہد چوہدری کا‘ ڈاکٹر حمید اللہ کا‘ واصف علی واصف کا‘ حمزہ علوی کا‘ اقبال احمداورPankaj Misra کا !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں