سرحدی دیوار کے اُوپر سے تاک جھانک

35 سال پرانی بات ہے کہ میرا بیٹا (فاروق) لندن یونیورسٹی کے سب سے پرُانے یونیورسٹی کالج میں تاریخِ قدیم (خصوصاً قدیم یونان و رومی سلطنت) پڑھنے کے لیے داخل ہوا تو ہوسٹل میں کوئی کمرہ خالی نہ تھا۔ ایک سکھ طالب علم نے اُسے اپنے کمرے میں جگہ دی اور وہ بھی اس طرح کہ وہ ایک سال فرش پرگدے بچھا کر سویا اور اُس کا مہمان آرام دہ بستر میں۔ اس مہمان نواز سکھ طالب علم کا نام تھا من پریت سنگھ بادل۔ وہ بھارتی پنجاب سے قانون پڑھنے آیا تھا۔ تین سال بعد دونوں دوست پاس ہوئے تو یونیورسٹی نے تقسیم اسناد کی تقریب منعقد کی۔ مجھے اور میری بیوی کو ہائیڈ پارک کے قریب لندن کے سب سے شاندار ہال Royal Albert Hall میں دو بار جانا پڑا، ایک بار فاروق کو ڈگری لیتے ہوئے دیکھنے کے لیے اور دوسری بار من پریت کے والدین کی نمائندگی کرنے کے لیے جو جنوبی پنجاب کے گرد آلودگائوں (بادل) سے لندن نہ آسکتے تھے۔ ہم نے من پریت کو تین سال ہر اتوار کو فاروق کے ساتھ اپنے گھر بلا کر پراٹھے کھلائے۔ من پریت کے لندن میں تعلیمی اخراجات اس کے بے حد امیر چچا نے ادا کیے۔ اس کے والدین ہمارے اتنے احسان مند ہوئے کہ انہوں نے ہم دونوں کو بہ اصرار اپنے گائوں بلایا۔ بُرا ہو میری مصروفیات کا جنہوں نے پھر میرے قدم پکڑ لیے اور مجھے سرحد پار پنجاب نہ جانے دیا، مگر فاروق اور اس کی والدہ ایک ہفتہ کے لیے گئے، وہاں اُن کا شاہانہ استقبال کیا گیا۔ 
بادل جنوبی پنجاب میں راجستھان کی سرحد پر ریت اور مٹی سے اَٹا ہوا چھوٹا سا گائوں ہے‘ جسے وہاں کے رہنے والے ایک سیاست دان پرکاش سنگھ بادل (من پریت کے چچا) نے دُنیا بھر میں مشہور کر دیا ہے۔ وہ رُبع صدی سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ چلے آرہے ہیں۔ لوٹ مار کرنے میں وہ پاکستانی سیاست دانوں سے بخوبی مقابلہ کرتے ہیں۔ بھارت میں غالباً وہ اس وقت سب سے بدعنوان اور کرپٹ سیاست دان ہونے کا ''شرف‘‘ رکھتے ہیں۔ جنوبی بھارت کی ریاست تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے للیتا (جو وہاں کے کرپٹ ترین وزیر اعلیٰ کے انتقال کے بعد اُس کی محبوب ترین داشتہ ہونے کی وجہ سے اس گدی پر قابض ہوئی) کرپشن کے میدان میں پرکاش سنگھ کی سب سے بڑی مدمقابل ہیں۔ چند سال پہلے اس حرّافہ نے بیٹے کی شادی کی دعوت میں پچاس ہزار مہمانوں کو بلایا۔ باقی تفصیلات بیان کرنے کے لیے کالم کی تنگ دامنی آڑے آ رہی ہے۔ 
پرکاش سنگھ بادل لندن آتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار مجھے یاد بھی کرتے ہیں۔ اُن کے سیاسی نظریات مجھ سے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد ہیں۔ وہ دائیں بازو کا فسطائی ذہن رکھتے ہیں۔ ان کے دل میں عوام کے لیے محبت ہے نہ عزت۔ اُن کے سیاسی اقتدار کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ (اس کالم نگار کی طرح) جاٹ ہیں اور سکھوں کی اکثریت کا تعلق اسی قبیلے سے ہے۔ یہی قبائلی رشتہ پرکاش سنگھ کے اقتدار کی جڑ ہے۔ پنجاب میں کانگریس کا اتنا ہی بُرا حال ہے جتنا ہمارے پنجاب میں پیپلز پارٹی کا۔ پرکاش سنگھ ایف سی کالج لاہور میں چار سال پڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے بالکل نہیں تھکتے۔ وہ مجھے یہ داستان اتنی بار سُنا چکے ہیں کہ جب وہ اس موضوع پر بات شروع کرتے ہیں تو مجھے پتا ہوتا ہے کہ اُن کا اگلا جملہ کیا ہو گا۔ یہ ہوتا ہے بوڑھے ہو جانے کا سب سے بڑا نقصان کہ آدمی Nostalgia کا مریض ہو جاتا ہے (دعا فرمائیں آپ کا کالم نگار بوڑھا ہو جانے کے باوجود ذہنی طور پر چاق و چوبند رہے۔) جن دنوں من پریت کی اپنے چچا سے بنتی تھی اس کی چاروں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔ وہ کئی سال وزیر خزانہ رہا۔ پرکاش سنگھ کا بیٹا (سکھبیر) بڑا ہوا تو من پریت کو پنجابی محاورے کے مطابق ''کُھڈّے لائن‘‘ لگا دیا گیا۔ من پریت نے چچا سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی پارٹی بنا لی‘ جس کا نام پیپلز پارٹی رکھا جو ہر الیکشن میں یکے بعد دیگرے بری طرح شکست کھانے کی روایت پر سختی سے قائم ہے۔ 
میں نے من پریت کو کئی بار بزرگانہ اور دوستانہ مشورہ دیا کہ وہ عام آدمی پارٹی (جو ان دنوں دہلی میں برسر اقتدار ہے) میں شامل ہو جائے، مگر اپنے بدعنوان اور خرانٹ چچا کی تربیت کی وجہ سے وہ ترقی پسندی اور عوام دوستی کے نظریات اپنانے سے قاصر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی نہ صرف ناکام بلکہ مزید ذلیل و خوار ہو گا۔ پنجاب میں باپ بیٹے کا راج سالِ رواں میں اپنے اقتدار کا ایک اور سال ختم کرنے کو تھا کہ سیاسی تالاب میں ایک ایسا پتھر آ گرا کہ چار سُو افراتفری پھیل گئی اور لہروں نے دُور دُور تک تلاطم بپا کر دیا۔ 
ایک پختہ روایت سکھ دھرم کا حصہ ہے کہ بوقت ضرورت خالصہ (سکھ دھرم کے تمام پیروکار) کا عوامی اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے۔ اسے سربات (Sarbat ) خالصہ کہتے ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں مغل بادشاہ حکومتی جبر و تشدد کے بل بوتے پر سکھ دھرم کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے تو خالصہ کا یہ اجلاس بار بار طلب کیا گیا۔ گزشتہ صدی میں اس قسم کا اجلاس صرف دو بار ہوا۔ آخری بار یہ اجلاس 1986ء میں بلایا گیا، امرتسر میں دربار صاحب پر فوجی حملہ اور سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ پر توپوں سے گولہ باری کے بعد۔ اس نومبر میں سربات خالصہ امرتسر کے باہر کھلی جگہ میں پھر اکٹھا ہوا جس کا مقصد سکھ دھرم کی مسلسل توہین (گرنتھ صاحب کے پھٹے اوراق کا کئی مقامات پر گرے ہونے کے واقعات) کا سدباب کی تدابیر طے کرنا تھا۔ اس میں ایک لاکھ افراد شریک ہوئے۔ ذرا سوچئے، ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ایک لاکھ افراد اور وہ بھی غیظ و غضب سے بپھرے ہوئے! امرتسر کے مضافات کی دھرتی دھڑ دھڑ کانپنے لگی تو اس میں حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب کے تین اہم ترین گوردواروں کے گرنتھیوں کو ہٹا دیا جائے، ان کی جگہ جو نئے گرنتھی چنے گئے اُن میں ایک علیحدگی پسند خالصتان تحریک سے وابستہ رہ چکا ہے اور 1995ء میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو قتل کرنے کے جرم میں قید کی سزا بھگت رہا ہے۔ گوردواروں پر پرکاش سنگھ کے حامیوں کا قبضہ ہے۔ بادل گھرانہ نے اس اجلاس کو گوردواروں کے بڑے گرنتھیوں کی دھرم کی حفاظت میں ناکامی کے خلاف احتجاج کی بجائے اپنے خلاف سیاسی مظاہرہ سمجھا۔ پرکاش سنگھ نے الزام لگایا کہ مذکورہ اجلاس کے انعقاد کے پیچھے ایک بڑی سازش کارفرما ہے جس کی منصوبہ بندی سکھ دُشمن سزا یافتہ مجرموں، کانگریس پارٹی اور غیر ملکی عناصر نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے مل کر کی ہے۔ 23 نومبر کو بادل گھرانہ نے یہ جوابی کارروائی کی کہ اپنے آبائی علاقے میں اپنے حامیوں کا بہت بڑا جلوس نکالا۔ ناظرین نے تالیاں بجا کر اس کا استقبال کیا اور مخالفین کی دھمکی (سیاہ جھنڈیوں کی صورت میں احتجاج) بے اثر ثابت ہوئی۔ پنجاب کے سیاسی افق پر بادل گھرانے کا جانا پہچانا بادل پھر چھا گیا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پنجاب کے عوام کی اکثریت ایک بار پھر (خالصتان کا مطالبہ منوانے کے لیے) میدان جنگ میں اُترنے کو تیار نہیں۔ اس وقت بھارتی پنجاب کے مسائل سیاسی نہیں بلکہ خالصتاً معاشی ہے۔ پنجاب کی معیشت کا انحصار زراعت پر رہا ہے اور وہ پہلی بار رُو بہ زوال ہے۔ آبپاشی کے لیے مطلوبہ پانی دستیاب نہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے۔ کاشتکار غیر مناسب فصلوں کی کاشت پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کیڑے مارنے کی دوائیوں سے لے کر کھاد تک سب جعل سازی کی لعنت کا شکار ہیں۔ کپاس کی فصل کو سفید سنڈی نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔
فی کس اوسط آمدنی کے اعتبار سے اب اس پنجاب کا بھارت میں درجہ بارہواں ہو گیا ہے۔ صنعت برائے نام ہے، پولیس کا زیادہ وقت کاروں اور موٹر سائیکل چلانے والوں سے رشوت بٹورنے پر صرف ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک ملازمت ڈھونڈنے کے لیے ہر جتن کرتے ہیں اور جو نوجوان اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتے وہ منشیات کے عادی بن جاتے ہیں۔ (باقی صفحہ نمبر13 پر)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں