میری چُنّی دیاں ریشمی تنداں

تنداں پنجابی میں تانے بانے کو کہتے ہیں۔ پنجابی کے ایک جانے پہچانے لوک گیت میں (جسے پہلے زبیدہ بیگم اور بعد میں حنا نصراللہ نے لہک لہک کر گایا) ایک خاتون اپنے اس آہنی ارادہ کا اظہار کرتی ہے کہ وہ اپنے ریشمی دوپٹے کی گرہیں اتنی مضبوطی سے باندھ لے گی کہ نہ اپنے بال کھولے گی اور نہ اپنے دل کا راز ۔وہ دل جس میں محبوب کے ملنے کی خواہش زندہ و تابندہ ہے، خواہش جو رگوں میں دوڑتی پھرتی ہے اور آنکھوں (سنسکرت میں نینوں) میں پیاسے ملنے کی آس بن کر مچلتی اور چمکتی ہے۔ چُن چُن کر ماس کھانے والا کا گا بھی اُن نینوں کا احترام کرتا ہے جس میں یہ آس جاگتی رہتی ہے۔ یہ خوبصورت گیت گانے والی دونوں مٹیاروں کے وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ اُنہوں نے جو ریشمی دوپٹہ اپنے گھر کے قریبی بازار کی عام سی دُکان سے باآسانی خریدا ہوگا اُس کا ریشم کہاں سے، کب اور کیونکر آیا؟ اُس سڑک کی بدولت جو پہاڑوں، دریائوں، سمندروں اور صحرائوں سے گزرتی ہوئی چار ہزار میل لمبی صدیوں سے تاجروں کی گزرگاہ مگر کہلائی شاہراہ ریشم۔ یہ شاہراہ افسانوی شہرت کی مالک ہے۔ تاریخ اتنی قدیم ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ حقیقت کہاں ختم ہوئی اور افسانہ کہاں سے شروع ہوا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے کالم میں میرے کتابوں کی دُکان میں اتفاقاً جانے اور وہاں ایک نئی کتاب کے تعارف کا تذکرہ تھا۔ اُس کتاب کا موضوع ہی شاہراہ ریشم تھا۔ ثانوی عنوان ہے۔ ''دنیا کی ایک نئی تاریخ‘‘ فاضل مصنف کا نام ہے Peter Francopan ۔ 656 صفحات کی ضخیم کتاب مگر برطانوی قوت خرید کے حساب سے بڑی مناسب قیمت (24 پائونڈ) فاضل مصنف آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ ہیں۔ وہ دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ اُن کی بہت سی راتیں اسی ذہنی کشمکش میں گزریں کہ مغربی ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ میں ایک بڑے خلاء کو کس طرح پرُ کیا جائے؟
آیئے واپس چین چلتے ہیں۔ دیوار چین پر چڑھائی کے بعد ہم میاں بیوی کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا کہ ہم نے نئی مہمات کے لئے کمر ہمت کس لی۔ ہم سیدھے بیجنگ کے ریلوے اسٹیشن گئے۔ آپ پاکستان کے تمام ریلوے اسٹیشنوں کو جمع کر لیں تو پھر بھی وہ بیجنگ کے ریلوے سٹیشن سے رقبہ میں چھوٹے رہیں گے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، کل پلیٹ فارموں کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہے۔ سٹیشن کی عمارت کے باہر ایک بہت بڑے میدان میں اتنے زیادہ مسافر مزے سے دھوپ میں لیٹے یا بیٹھے اپنی گاڑی کا انتظار کر رہے تھے کہ ہمارا سر چکرا گیا۔ لگتا تھا کہ انسانوں کا ایک سمندر ہے اور ہم دونوں سیاح اس میں تنکوں کی طرح تیر رہے ہیں۔ یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ ہم نے جس شہر جانا تھا، اُس کا ٹکٹ کس جتن سے خریدا گیااور ٹکٹ خرید کر ہم اُس پلیٹ فارم پر کس طرح پہنچے جہاں ایک ٹرین ہماری منتظر تھی یاسمین صاحبہ (یہ ہے میری وفا شعار اور برُد بار بیوی کا اچھا سا نام) نے (اپنے کُند ذہن شوہر کے برعکس) چین میں چند روز قیام کے اندر اندر چینی زبان کے نہایت کارآمد الفاظ سیکھ لئے تھے۔ بیجنگ کے ریلوے اسٹیشن پر اُن کا اٹکل پچو استعمال اتنا ہی کارآمد ہوا جتنا صحرا میں شربت رُوح افزا ۔ٹرین کا سفر 24 گھنٹے لمباتھا۔ سفر بہت اچھا گزرا، اس سفر نے ثابت کر دیا کہ دُنیا کے صرف چار ملک ہیں جہاں کے لوگوں کو جونہی پتہ چلے کہ آپ پاکستانی ہیں تووہ مسکرانے لگتے ہیں اور آپ سے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہیں اور وہ ملک ہیں۔ چین، ترکی، ملائیشیا (اب دل تھام کے پڑھئے) پڑوسی ملک بھارت۔ دُوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ٹرین میں سفر کرنے والے ہرمقامی شخص (غیر ملکی صرف ہم دو تھے) کے پاس ایک تھرماس تھی جس میں اُس نے دارچینی، سونف،ادرک اور دُوسری صحت بخش جڑی بوٹیوں کو گرم پانی میں ملا رکھا تھا، وہ سارا وقت اپنا دل پسند مشروب پیتا رہتا تھا۔ خوش لباس اور خوش مزاج اور خوش شکل میزبان خواتین ہر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہر ڈبہ میں آتی تھیں۔ تکیوں کے لئے غلاف اور بستروں کی نئی نویلی سفید چادریں بچھاتی تھیں اور تھرماس میں مزید گرم پانی انڈیلتی رہتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے پاس کوئی تھرماس نہ تھی۔ جونہی یہ خبر ٹرین کے گارڈ تک پہنچی اُس نے گرم پانی سے بھری ہوئی تھرماس بھجوا دی۔ تیسری قابل ذکر چیز وہ ناقابل فراموش مناظر ہیں جو ہم نے ٹرین سے باہر دیکھے۔ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین نے اس طرح کے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے جو ہمارے ہاں شادی بیاہ کے مواقع پر نظر آتے ہیں۔ حدنظر تک محنتی خواتین سر جھکائے کدال یا پھائوڑے ا سے کھیت کی نوک پلک سنوار رہی تھیں۔ ظاہر ہے کہ مرداس سے بھی زیادہ مشقت کا کام کرنے میں مصروف ہوں گے، اس لئے وہ نظر نہیں آرہے تھے۔ یہ محنت ہی اہل چین کو فرش سے اٹھا کر عرش تک لے گئی۔
ہماری ٹرین کو شہر کے جس ریلوے اسٹیشن پر جا کر رُک جانا تھا (اور وُہی ہماری منزل تھی)اُس کا نام ہے XIAN ۔ بولا جاتا ہے شیان۔ اس شہر کی تین خوبیاں ہیں، اول، ہزاروں سال سے زیر استعمال شاہراہ ریشم کی یہ آخری منزل تھی۔ اُس کا پرانا نام Changan تھا اور وہ قدیم دُور میں چین کا دارالحکومت تھا۔ دوم، یہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی رہتی ہے۔ آبادی کے اعتبار سے چین کے اُن پانچ بڑے شہروں میں سے ایک، جہاں مسلمانوں کا تناسب ایک تہائی سے لے کر نصف ہے۔ سوم، دُنیا بھر میں جو مساجد سب سے بڑھ کر خوبصورت فن تعمیر کا شاہکار ہیں، اُن میں سے ایک یہاں ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم ریلوے اسٹیشن سے سیدھے مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ یاسمین صاحبہ کی ٹوٹی پھوٹی چینی پھر کام آئی، ہم نے جونہی ایک شخص سے مسجدکا راستہ پوچھا۔ وہ اتفاقاً مسلمان تھا۔ وہ سارے کام کاج چھوڑ کر ہمارے ساتھ مسجد کی طرف چل پڑاا ور راستہ میں دُوسرے مسلمانوں کو بھی دعوت دیتا جاتا تھاکہ یہ مہمان دُور سے آئے ہیں، آیئے ہم چل کر اُنہیں مسجد دکھائیں۔ جلوس کے ساتھ پہنچے مسجد تو دیکھی سو دیکھی، شیان کے مسلمانوں نے بھی ہمیں دل بھر کر دیکھ لیا۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا اب دیکھئے کہ بات بگڑی تو کیوںکر؟ ہمارے مداحوں کا لشکر ہم سے بڑے دوستانہ انداز میں گفتگو کرنے لگا۔ تو پتہ چلا کہ مقامی مسلمان عربی بول رہے ہیں اور ہم سے عربی میں جواب ملنے کی توقع رکھتے ہیں چونکہ اُن کے نزدیک ہر مسلمان نہ صرف عربی پڑھ سکتا ہے بلکہ بول بھی سکتا ہے۔ ہم نے الحمدللہ اور سبحان اللہ کے الفاظ کا سہارا لیا مگر تنکے ڈوبنے والے شخص کو نہیں بچا سکتے۔ چینی مسلمان ہماری طرف بڑے شک کی نظروں سے دیکھنے لگے کہ یہ جعلی مسلمان کہاں سے ٹپک پڑے (خدا کا شکر ہے کہ ہم مسجد سے نہ نکالے گئے اور ہمیں نوافل ادا کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ (اب میں ابوالکلام تو نہیں ہوں کہ الفاظ میں اُس منظر کی تصویر کھینچ کر رکھ دُوں جو ہم دونوں نے دیکھا اور دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ قرن پاک کے ہر سی پارہ کو سنگ مر مر کی ایک بہت بڑی تختی پر سیاہ الفاظ میں کندہ کر کے اس طرح آویزاں کیا گیا تھا کہ مسجد کا صحن سنگ مر مر کی 30 تختیوں سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا اور وہ یوں کہ صحن میں اندھیرا تھا اور رُوشنی صرف مرمریں تختیوں پر۔ ہم وہاں دیر تک کھڑے رہے اور چاروں طرف گردن گھما گھما کر وہ منظر دیکھاجو آج تک نہ دیکھا تھا۔ دُنیا سے چلے جانے سے پہلے ایک بار پھر دیکھنے کی دلی خواہش لے کر مسجد سے باہر آئے۔ یوں لگتا تھا کہ چند لمحات پہلے قرآن پاک ان مرمریں تختیوں کی صورت میں آسمان سے اُترا ہے۔ ہمارے دلوں میں اندیشہ اُبھرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم چند سال بعد دوبارآئیں تو پتہ چلے کہ حضرت جبرائیل دُوسرے ماتحت فرشتوں کے ساتھ آسمان سے اُترے اور ان 30 مر مریں الہامی تختیوں کو اپنے نورانی سروں پر رکھ کر عرش بریں واپس لے گئے۔ مسجد کے ویران صحن میں ایک پرچی چھوڑ گئے۔ ہم دونوں اسے دھڑکتے دل سے اُٹھائیں گے۔ پہلے چومیں گے پھر آنکھوں سے لگائیں گے اور پڑھیں گے تو لکھا ہوگا۔ ''جس اُمت پر اللہ تعالیٰ نے اپنا مقدس کلام اپنے پیارے نبی پر وحی کے ذریعہ اُتارا تھا، اب وہ اس عظیم ترین نعمت کی مستحق نہیں رہی۔ چونکہ (اقبال کے الفاظ میں ) ''اس کے دانشور فرنگی بُتکدے میں کھو چکے ہیں اور عوام تہہ محراب مسجد سو رہے ہیں۔ ‘‘
یہ کالم تو جنوب مشرقی لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے کتابوں کی دُکان میں ایک نئی کتاب کی ورق گردانی سے شروع ہوا تھا۔ کتاب کا موضوع تھا ''شاہراہ ریشم‘‘ مگر کالم لکھنے والا اپنے پیارے قارئین کو وہاں لے گیا جہاں مشرق سے جائیں تو شاہراہ ریشم شروع ہوتی ہے اور مغرب سے سفر شروع کریں تو وہاں ختم ہوتی ہے۔ شاہراہ ریشم ختم ہوئی اور کالم بھی۔ 
کالم شروع ہوا تھا دوپٹے کے ریشمی تانے بانے (تندوں) سے اور ختم ہوگا تندوں کو گنڈھوں (یعنی گرہوں) میں تبدیل کرنے کے مصمم ارادہ پر اور وہ بھی گھُٹ کے (یعنی مضبوطی سے) باندھنے سے۔ قرآن حکیم میں جس مضبوط رسی (واعتصموا بحبل اللہ جمیعا) کا ذکر آیا ہے وہ ہر گز ریشمی نہیں تھی۔ مگر کہیں زیادہ بابرکت، چونکہ وہ بکھری اُمت کو باندھ کر ناقابل شکست بنا دیتی ہے یہ ہے وہ عمل جو دور حاضر میں ہماری آنکھوں کے سامنے کبھی جاری و ساری ہوتا ہے اور کبھی ڈرائوناخواب بن جاتا ہے۔(جیسے عرب اور ایران کی موجودہ رزم آرائی سے)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں