… سب بُت اُٹھوائے جائیں گے

ع جب ارض خُدا کے کعبہ سے، سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
اشفاق احمد نے (جو خود بھی کسی نہ کسی رُوحانی درجہ پر فائز ہونے کا اشارتاً ذکر کرتے رہے) فیض صاحب کے لئے ملامتی صوفی کا اِسم صفت استعمال کیا۔ ہمارے ہاں اس قسم کی رواداری کی مثالیں کم کم ملتی ہیں کہ جب مسلک بالکل جدا بلکہ متضاد ہوں تو پھر بھی فریق مخالف کے لئے تعریفی کلمے ادا کئے جائیں۔ اشفاق احمد (جو ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب کی بے حد مشکوک تکون کا حصہ تھے) نظریاتی لحاظ سے دائیں بازو سے جُڑے ہوئے تھے۔ اُدھر اپنے فیض صاحب بائیں بازو کے اشتراکی دانشوروں کے آشفتہ حال قافلہ کے سردار تھے۔ مناسب ہوگا کہ اشفاق احمد کی ذہنی دیانتداری کی برسرِ عام تعریف کی جائے۔ لگتا ہے کہ اب وہ بھلا زمانہ گزر گیا جب اشفاق احمد اور فیض احمد فیض جیسے بڑے لوگ ہمارے ادبی اُفق پر (جو اِس وقت گرد آلود ہے) ستاروں کی طرح جگمگاتے تھے۔ اب انتظار حسین کا دم غنیمت سمجھیے، وُہی ہمارا سب سے بڑا ادبی سرمایہ ہیں(وہ شدید علیل ہیں، آئیے ہم سب ان کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کریں۔) 
فیض صاحب کا ذہن انقلابی تھا (یہ اُس دور کے ہر اشتراکی ذہن رکھنے والے کے لئے لازم و ملزوم تھا) مگر وہ اتنے دھیمے مزاج کے شخص تھے کہ بتوں سے اُن کی عداوت اور مخاصمت کی شدت بھی اُنہیں یہ لکھنے پر آمادہ نہ کر سکی کہ وہ ارض خدا کے کعبہ کے بتوں کو توڑے جانے اور پاش پاش کرنے (جو اس کالم نگار کی دلی خواہش ہے) کے منظر کو دیکھنے کے منتظر ہیں۔ وہ اپنے ہزاروں لاکھوں قارئین (جو بیک وقت ان کے مداح بھی تھے) کو بھی تسلی دیتے رہے کہ موجودہ حالات چاہے کتنے خراب ہوں آپ فکر نہ کریں، سُرخ سویرا طلوع ہونے کو ہے۔ وہ صرف سویرے پر اِکتفا نہ کرتے بلکہ ہمیں جلد بڑے یقین کے ساتھ ہمارے زخمی دلوں کو باغ باغ کر دینے والے اُن تمام مناظر کا ذکر بھی کرتے جو جلد یا بدیر ہم سب دیکھیں گے۔ اگر آپ بتوں کو زور و شور سے توڑنے کا ڈرامائی منظر دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو کیفی اعظمی یا علی سردار جعفری یا اس قبیل کے کسی اور آتش فشاں قسم کے شاعر سے رُجوع کرنا پڑے گا۔
انسانی تاریخ بڑی بے رحم ہے، وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتی، فیض صاحب کا بھی نہیں۔ 1947ء میں آزادی مل جانے کے بعد ہماری حکومت نے انگریز حکمرانوں کے تمام بُت (فیض صاحب کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے) اُٹھوا کر عجائب گھروں میں حفاظت سے رکھوا دیئے۔ مگر برطانوی راج کا ایک بُت آج بھی ہاتھ میں کتاب تھامے لاہور میں مال روڈ پر پنجاب یونیورسٹی کی پرانی عمارت کے سامنے کھڑا ہے۔ یہ Professor Woolmar کا ہے۔ وہ ہمارے محسن اعظم ہیں۔ اُنہوں نے پہلے اورینٹل کالج اور پھر پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ کتنے فخر اور خوشی کی بات ہے کہ آج تک کسی رجعت پسند یا بنیاد پرست فرد یا جماعت نے (ہمارے پاس بفضل تعالیٰ ان دونوں کی بہتات ہے) اس بُت کو اُٹھائے جانے اور ہماری ایمان کی حرارت سے شرابور نظروں سے دُور کر دینے کا مطالبہ نہیں کیا۔
پیارے قارئین! یہ تو تھا اُس بت کا ذکر جو اُٹھایا نہیںگیا۔ میرا تاریخ کا ناقص مطالعہ مجھے بتاتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اکرم ﷺ جب خانہ کعبہ تشریف لے گئے تو آنحضرت اپنی چھڑی سے وہاں پڑے ہوئے بُتوں کو (سنا ہے کہ اُن کی پوری پلٹن تھی) گراتے چلے گئے۔ یہ توڑنے اور اُٹھاوائے جانے کا درمیانی عمل تھا۔ کچھ عجب نہیں کہ کوئی منچلا ان بتوں کو تاریخی نوادرات سمجھتے ہوئے(جنہیں کفار Collectors Item کہتے ہیں) اُٹھا کر گھر لے گیا ہو۔ وہ ہم نہیں جانتے مگر توڑ پھوڑ کا ذکر میں نے کہیں نہیں پڑھا۔ ان بتوں کا جو بھی حشر ہوا، توڑنے اور پاش پاش کرنے کی کارروائی نبیوں میں رحمت کا لقب پانے والے کے مزاج اقدس کے خلاف تھی (اللہ تعالیٰ یہ حمد لکھنے والے مولانا حالی کے جنت میں درجات بلند فرمائیں۔) 
ہندوستان کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو جونہی بتوں کا لفظ لکھیں یا پڑھیں یا سوچیں فوراً ذہن میں محمود غزنوی کا نام اُبھرتا ہے۔ میرے قارئین چاہے کتنے ناراض ہوجائیں مگر وہ مجھے ایک سچ بتانے سے نہیں روک سکتے۔ 40 سال قبل جب میں غزنی گیا تو میں نے (اپنے پیرو مرشد اقبال ؒ کے نقش قدم پر نہ چلنے کی گستاخی کرتے ہوئے) محمود کی قبر پر فاتحہ نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ میرا ایک خاموش احتجاج تھا۔ مجھے بچپن میں یہی بتایا گیا تھا کہ محمود صرف جوش ایمانی کی وجہ سے بت شکن بنا۔ بعد ازاں مطالعہ کیا تو یہ راز کھلا کہ پُرانے زمانے میں جب ابھی بینک معرض وجود میں نہ آئے تھے لوگ اپنی عمر بھر کی پونجی (سونے چاندی کی شکل میں) مندروں میں رکھ دیتے تھے، جہاں مندروں کا عملہ اُن کی حفاظت کرتا تھا۔ اُس زمانے میں لوہے کی بھاری صندوق (Safe) تو ہوتے نہیں تھے، مندرکا سٹاف سونے چاندی کے ذخائر کو بتوں کے اندر چھپا دیتا تھا۔ بُتوں کی بڑی بڑی توندیںبڑی کارآمد ثابت ہوئیں۔ مندروں میں اپنے مال و زَر کو محفوظ رکھنے والوں کی بدقسمتی اور ان پر حملہ کرنے والوں کی خوش قسمتی ملاحظہ فرمائیں! محمود کے سترہ کے سترہ حملے مندروں میں چھپائے گئے خزانوں کو لوٹنے کے لئے کئے گئے۔ اگر وہ صرف اس پر قناعت کرتا تو پنجاب کا ایک پینڈو اُس کے لئے (بادلِ نخواستہ) دُعائے خیر مانگ ہی لیتا۔ ہر حملے کے بعد محمود پنجاب سے اَن گنت مردوں کو غلام اور عورتوں (جن کا تعلق یقیناً میرے آبائو اجداد سے ہوگا) کو لونڈیاں بنا کر لے گیا۔ اغوا اور اجتماعی زیادتی کی اتنی بڑی واردات کو چشم تصور سے دیکھیں تو آپ کا خون کھول اُٹھے گا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیںگے۔ 
اب آتے ہیں دور جدید کی طرف۔ ہر آمر دُوسرے آمر سے مختلف ہوتا ہے مگر اُن میں ایک قدر ضرور مشترک ہوتی ہے اور وہ ہے اپنے بڑے بڑے بُت بنوا کر اُنہیں جا بجا نصب کروانا۔ وہ بالکل نہیں جانتے کہ ایک دن موسم تبدیل ہوگا، اُن کی آمریت کا سُورج غروب ہو جائے گا، وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جائیں گے اور اس ملک کے لوگ اپنے خوف اور نفرت کا اظہار اُن کے بتوںکی بے حرمتی کے ذریعے کریں گے۔ مشرقی یورپ کے ہر ملک میں یہ حال سٹالن کے بتوں کا ہوا۔ عراق میں صدام حسین کے بتوں کو گرائے جانے اور ان پر جوتوں کی بارش کا منظر ساری دُنیا میں دکھایا گیا۔ ایک ایسا منظر جو ہر ایسے آمر مطلق کے لئے باعث عبرت ہونا چاہئے جو اپنی لازوال بڑائی کے زعم کو اپنے بت بنوانے کی صورت میں ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ ایک دن وہ اور اُ س کے بت منہ کے بل گرتے ہیں۔ دونوں کا انجام خاک و خون میں مل جانے کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ بت کے حصے میں خاک آتی ہے اور آمر کے لئے اُس کا اپنا خون۔
6 جنوری 2016 ء کے برطانوی اخبار (گارڈین) کے دو صفحات پر مائوزے تنگ کے بت کی ایسی انوکھی تصویر شائع ہوئی کہ میں نے سنبھال کر رکھ لی ہے۔ مائوزے تنگ کی وفات کے 40 برس بعد Henan کے دور میں Kaifeng کے عوام نے (دوبارہ لکھتا ہوں عوام نے) چندہ اکٹھا کر کے اپنے عظیم راہنما کے اعزاز میں اُس کا ایک بت ایستادہ کیا تو چار دانگ عالم میں دُھوم مچ گئی۔ بُت کی اُونچائی 118 فٹ ہے(تقریباً دس منزلہ عمارت کے برابر ۔) اس کے بنانے پر تین لاکھ چودہ ہزار پائونڈ (روپے بنانے کے لئے 155 سے ضرب دے لیں) خرچ آئے۔ بُت فولاد اور کنکریٹ سے بنایا گیا مگر اُس کے اوپر سونے کے پتّر (اوراق) چڑھائے گئے۔ جب میں اور میری بیوی چین کے دارالحکومت بیجنگ کے مرکزی چوک کی سیر کو گئے تو وہاں چیئرمین مائو کے بت کی بجائے اُن کی ایک بہت بڑی تصویر دیکھی جو وہاں مستقلاً آویزاں رہتی ہے۔ 
آکسفورڈ یونیورسٹی تو ہر گز محتاج تعارف نہیں۔ وہ بہت سے کالجوں پر مشتمل ہے۔ ایک کالج کا نام Oriel College ہے(جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے Christ Church میں تعلیم پائی تھی۔) اس کالج کے باہر اپنے وقت کے سب سے بڑے Coloniser (ایشیاء اور افریقہ کے ممالک کو بزور شمشیر فتح کر کے برطانوی سلطنت میں شامل کرنے والے) اور خیرات دینے والے شخصCeicil Rhodes کا مجسمہ نصب ہے۔ آج کل آکسفورڈ میں طلبا اور طالبات پے در پے مظاہرے کر رہے ہیں کہ اس بت کو ہٹایا جائے کیونکہ وہ لوٹ مار اور قتل عام کے شرمناک دور کی یادگار ہے۔ ایک افریقی ملک رہوڈیشیا کا نام بھی اس ''فاتح‘‘ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اگر یہ شخص آج زندہ ہوتا تو ہیگ (The Hague) کے شہر میں بنائی گئی بین الاقوامی جرائم کی عدالت کے کٹہرے میں بطور مجرم کھڑا ہوتا۔کتنا اچھا ہو کہ ہم جنرل مشرف کو کراچی سے نکال کر ہیگ بھیج دیں تاکہ کم از کم اُس پر مقدمہ چلانے کی کارروائی تو شروع کی جا سکے۔ مگر ہم صرف ایک شخص کو قربانی کا بکرا کیوں بنائیں؟ ہم اپنی دم توڑتی قومی ایئر لائن (پی آئی اے) سے درخواست کیوں نہ کریں کہ وہ (حج پروازوں کی طرح) کراچی سے ہیگ (The Hague) تک جنگی جرائم کے سب سے بڑے ملزم کے ہزاروں مددگاروں کو جنگی جرائم میںکیفر کردار تک پہنچانے کے لئے خصوصی پروازوں کا بندوبست کرے جس سے غالباً اس ایئر لائن کی دُنیا اور آخرت دونوں سنور جائیںگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں