طوطا توپ چلائے گا

مجھے اب کا تو پتا نہیں کہ بچے سکول کس طرح جاتے ہیں؟ پیدل، سائیکل پر یا گاڑی میں؟ وُہ راستے میں کیا کیا دیکھتے ہیں؟ لکھتے ہیں تو کس چیز پر؟ لکڑی کی تختیاں، اُن پر ملنے والی گاچنی اور سرکنڈے (پنجابی میںکانے) کا بنا ہوا قلم اور سفوف والی دوات، یہ سب تو ہوا ہوئے۔ یہ تمام آلات تحریر اب عجائب گھر کی زینت بن چکے ہوں گے۔ پرائمری درجہ تک ہم بیٹھتے بھی ٹاٹ پر تھے (میرے حصے میں اکثر پھٹا ہوا حصہ آتا تھا۔) مٹی سے جو رشتہ تین چوتھائی صدی قبل قائم ہوا وہ اٹوٹ ہے۔ وقت آنے پر یہ کالم نگار (دُوسرے کروڑوں اربوں افراد کی طرح) اسی مٹی میں جا ملے گا جس کا وہ بنا ہوا ہے۔ اب واپس چلتے ہیں اپنے بچپن کی طرف جب میں سکول پیدل آتے جاتے سڑک پر طرح طرح کے کھیل تماشے دیکھتا تھا۔ بہت کچھ زیبِِ طاق نسیاں ہوا مگر وہ تماشا ناقابل فراموش ہے جس کے اختتام پر طوطا اپنی چونچ سے دُنیا کی سب سے چھوٹی توپ چلاتا تھا۔ تماشائی خوش ہو کر تالیاں بجاتے تھے۔ کچھ لوگ تماشا دکھانے والے کو بطور انعام آنہ، دونّی یا زیادہ سخاوت مقصود ہوتی توچونّی دے دیا کرتے تھے۔ ہر مداری کے پاس ایک بندر بھی ہوتا تھا جو تماشائیوں کو محظوظ کرنے کے لئے پہلے قلا بازیاں لگاتا اور پھر بڑی سنجیدگی اور ذمہ داری سے دائرے میں کھڑے ہوئے تماشائیوں سے باری باری انعام میں دی گئی ریزگاری وصول کرتا تھا۔
آج کے کالم کا عنوان اُس اعلان سے کیا گیا ہے جو مداری کھیل کے دوران مختلف ڈرامائی مناظر دکھانے سے پہلے بار بار بہ آواز بلند کرتا تھا۔ مقصد یہ ہوتا تھا کہ تماشائی بور ہو کر چلے نہ جائیں اور تماشے کے نقطہ عروج کا صبر سے انتظار کریں۔ جب طوطا کمال مہارت اور فرماں برداری سے اپنی چونچ سے ایک چھوٹی سی رسی کو نیچے کی طرف کھینچتا تھا تو ایک خفیف سے دھماکے کے ساتھ ننھی منھی توپ چل جاتی تھی، جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ آپ اُس کاغذ کو اُٹھا کر پڑھیں جو توپ سے دُور جا کر گرتا تھا اور اُس پر لکھا ہوتا تھا کہ آپ کی مُراد پوری ہو گی یا نہیں؟ آپ امتحان میں پاس ہوں گے یا فیل؟ (اس پرچی کے مطابق مجھے ہر امتحان میں پاس ہونا چاہئے تھا مگر یہ پیش گوئی حساب کے امتحان کا نتیجہ نکلنے پر غلط ثابت ہوتی تھی۔) اِدھر توپ چلی اُدھر تماشائی کھسکنے لگے۔ میری طرح بیشتر تماشائی مفت تماشا دیکھتے اور بندر سے بالمشافہ ملاقات سے پہلے ہی غائب ہو جاتے تھے۔
کالم نگار بڑا ہوا تو اُسے پتا چلا کہ جو بات طوطے کے توپ چلانے سے شروع ہوتی ہے وہ ختم بہت دُور جا کر ہوتی ہے۔ رمل، فال نکلوانا، استخارہ، دست شناسی، زائچہ بنوانا۔۔۔۔ قسمت پر یقین رکھنے والے اس کی تفصیل جاننے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرتے؟ بقول اقبال ستاروں کی گزرگاہیں ڈھونڈنے والی مخلوق کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی۔ برصغیر ہندو پاک میں رہنے والوں میں ایک بڑی قدر مشترک یہ ہے کہ اُن کی ایک بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قسمت کا حال یعنی آنے والے وقت میں رُونما ہونے والے واقعات کا پتا چلایا جا سکتا ہے بشرطیکہ اُس فن کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں اور اُنہیں مناسب معاوضہ ادا کیا جائے۔ اس لحاظ سے اس کاروبار کی بدولت سالانہ کروڑوں اربوں روپے قسمت کا حال بتانے والوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ 
میرا مشاہدہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ جو لوگ اتنے ضعیف العقیدہ ہوتے ہیں کہ انگوٹھی میں لگے ہوئے پتھروں کو مبارک یا منحوس سمجھتے ہیں، وُہ یقیناً وہمی ہوتے ہیں۔ وہم کی تعریف کیا ہے؟ جناب شان الحق حقی صاحب کی مرتب کردہ آکسفورڈ لغات کے مطابق ''مافوق الفطرت باتوں پر یقین۔ ایسی باتوں کی طرف سے بے جا ہراس۔ غیر معقول تعبیرات۔ ٹونے ٹوٹکوں، شگونوں پر یقین۔ عقلیت کی ضد۔ نامعلوم یا پُراسرار کا غیر معقولی خوف۔ کسی شے کے اثرات یا خطرات کے بارے میں مشہور عام لیکن ناروا خیال یا تصّور‘‘۔ توہم پرستی کی اس سے زیادہ جامع اور مستند تعریف اور کیا ہو سکتی ہے؟ 
کئی ہزار سال پہلے جب وادیٔ سندھ اور وادیٔ گنگا جمنا میں انسانی تہذیب نے قدم جمائے اور پھلنا پھولنا شروع کیا تو ہندو مذہب نے جنم لیا جو یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی طرح کا دین نہیں بلکہ تہذیب، دیو مالائی روایات، معاشرت، ثقافت اور ذہنی رویوں کا مجموعہ ہے۔ انسانی عقل ابھی پائوں پائوں چلنا سیکھ رہی تھی۔ نہ زلزلے کی اصل وجہ سمجھ آتی تھی اور نہ چاند اور سورج گرہن کی؛ چنانچہ زلزلہ کی یہ وجہ بیان کی گئی کہ جس گائے نے زمین کو اپنے ایک سینگ پر اُٹھایا ہوا ہے، وہ تھک جائے تو زمین کو اپنے دُوسرے سینگ پر منتقل کر دیتی ہے اور اس عمل کے دوران زمین کو جھٹکے لگتے ہیں۔ گرہن کو بہت بڑی مصیبت، قدرتی آفت اور عذاب عظیم سمجھا جاتا تھا (اور غالباً کروڑوں ہندو اب بھی سمجھتے ہیں۔) اس طرح کی غیر عقلی توجیہات کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ 
بھارت کی موجودہ حکومت نے ملک کے طول و عرض میں سنگاپور کی طرز کے بہت سے جدید شہر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے مشترکہ دارالحکومت چندی گڑھ سے کہیں زیادہ جدید اور چمکتے دمکتے، عرف عام میں ماڈرن۔ جنوبی بھارت کے ایک صوبہ آندھرا پردیش میں اس ماڈل کے جدید شہر کے منصوبے کے نقوش منظر عام پر آئے تو جو ردّعمل سامنے آیا وہ فقیدالمثال ہے۔ ٹائون پلانر کو حواس باختہ کر دینے والا عوامی ردّعمل۔ مجوزہ شہر کا نام ہوگا امروتی (Amaravati)۔۔۔۔ سنسکرت زبان میں لافانی لوگوں کی رہائش گاہ۔ ہندو دھرم میں Rahathu Shastra بھی شامل ہے جو سنسکرت زبان میں روایتی فن تعمیر کو کہتے ہیں اور اس کے مطابق صرف وُہی مکان مکینوں کے لئے مبارک ہوتا ہے جس کا رُخ شمال یا مشرق کی طرف ہو۔ جو مکان اس معیار پر پورا نہیں اُترتا اُسے آندھرا پردیش کا کوئی راسخ العقیدہ ہندو خریدنے پر تیار نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلا مجوزہ شہر کا سارا منصوبہ اس توہم پرستی کی روشنی میں دوبارہ بنایا جا رہا ہے، ورنہ آدھے سے زیادہ مکانوں کو خریدنے پر کوئی تیار نہ ہو گا۔
آئیے اب بھارت سے ویت نام چلیں۔ جنوبی ایشیا سے جنوب مشرقی ایشیا ہزاروں میل دُور ہے مگر دونوں توہم پرستی کی لڑی میں اس طرح پروئے ہوئے ہیں کہ یک جان اور دو قالب والا معاملہ ہے۔ 20 جنوری کو ویت نام میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے سارے ملک کی فضا سوگوار ہو گئی اور ماتمی ماحول چھا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایک عمر رسیدہ کچھوا جہان فانی سے کوچ کر گیا‘ جسے ویت نام میں متبرک سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے متبرک کہ ویت نام کی آزادی (جو اُسے یکے بعد دیگرے چین، فرانس اور امریکہ کو میدان جنگ میں عبرتناک شکست دینے اور ناقابل تعداد قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی) کا نشان (Symbol) تھا۔ ویت نامی عوام نے یہ برُی خبر شدید دُکھ، غم اور صدمے کی حالت میں سُنی اور انہیں یہ پریشانی بھی لاحق ہو گئی کہ مقدس کچھوے کی بے وقت وفات (اگرچہ مرنے والے کی عمر اسی اور سو سال کے درمیان تھی) ملک و قوم کے لئے برُا شگون ہے اور بہت جلد اُن پر کوئی بڑی مصیبت آئے گی، کوئی نیا قہر ٹوٹے گا۔ اس کچھوے کا تعلق جس نسل سے تھا اُسے سائنس کی زبان Swimities Soft Shell Turtle کہتے ہیں۔ ساری دُنیا میں صرف چار ایسے کچھوے ہیں جو اتنے اعلیٰ حسب نسب کا دعویٰ کر سکیں۔ ایک جہان فانی سے کوچ کر گیا تو باقی تین رہ گئے۔ یہ کالم نگار کافی جانچ پڑتال کے بعد یہ معلوم کرنے میں ناکام رہا کہ ہم پسماندگان دیکھنے کی سعادت کس طرح سے حاصل کر سکتے ہیں؟ مر جانے والا مقدس کچھوا (اس عہد کے سب سے بڑے ادیب جناب انتظار حسین زندہ ہوتے تو وہ ویت نامی کچھوے کے بارے میں یہ سُطور پڑھ کر اپنے مشہور افسانے کچھوے پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کرتے) ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی کے وسط میںHoan Kiem جھیل میں کم از کم آٹھ دہائیاں تیرتا رہا۔ یہ بری خبر عام نشریات روک کر سنائی گئی تو ساری قوم غم زدہ اور اشک بار ہو گئی۔ لوگ فکرمند ہو کر ایک دُوسرے سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اب ہم پر کون سی نئی آفت ٹوٹنے والی ہے؟
ویت نام کے عوام کو کچھ پروا نہیں کہ یہ کالم پڑھنے والے اُن کے غم میں شریک ہیں یا اُن کی توہم پرستی کا مذاق اُڑاتے ہیں، مگر اُن کا پختہ عقیدہ ہے کہ پندرہویں صدی میں Le Loi نامی جس مقامی ہیرو نے چینی حملہ آوروں کے دانت کھٹے کئے تھے اُس کی تلوار کی حفاظت مر جانے والے متبرک کچھوے کا فرض منصبی تھا۔ محافظ مر گیا تو اب اس تلوار کی (اور ویت نامی عوام کی) حفاظت کون کرے گا؟ اتفاق سے یہ سانحہ رُونما ہونے والے دنوں میں ویت نام کی کمیونسٹ پارٹی کا بڑا ہنگامی اجلاس ہوا تھا جس میں کئی بڑی تبدیلیاں زیر غور تھیں۔ قابل، دیانت دار اور نیک نام وزیر اعظم کو اُس کے عہدے میں توسیع نہ دی گئی۔ کئی اور معاملات بھی اُلٹ پلٹ ہوئے۔ کئی پرانے راہنمائوں کی چھٹی ہوئی۔ ویت نام کی نو کروڑ آبادی کا ماتھا ٹھنکا کہ ضرور کوئی نہ کوئی خرابی پردہ غیب سے اُبھر کر سامنے آنے والی ہے۔ ستارہ گردش میں ہے اور آسمان نامہربان۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں