جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان

یہ کالم نگار برطانیہ میں پہلے کالج لیکچرر اور پھر وکیل۔ باپ ڈاکٹر( ضلع سرگودھا کے پہلے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ) دادا انگریز ڈپٹی کمشنر کا کلرک‘ پڑدادا کسان ‘ عام کسان‘ اور اس سے پہلے سارے آبائو اجداد فل ٹائم کسان اور پارٹ ٹائم سپاہی ۔یہ ہے آپ کے کالم نگار کا شجرہ نسب۔ آج سے سو سال پہلے اُردو زبان میں کسان کے لئے دہقان کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا‘جو اب متروک ہو چکا ہے‘ دساور( وہ دساور جہاں پنجاب سے گندم بھیجی جاتی تھی) کی طرح۔ دساور لفظ زیر استعمال نہ رہا تو اُس کی جگہ لفظ ولایت نے لے لی۔ بولی جانے والی ہر زبان میں نئے لفظ پیدا ہوتے اور پُرانے الفاظ مرتے رہتے ہیں۔ اقبال نے بال جبریل میں پنجاب کے دہقان کو مخاطب کر کے کمال کی نظم لکھی۔ سات اشعار کی نظم ہے‘ آپ آدھی نظم یعنی تین اشعار پڑھ لیں۔
بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
ہزاروں برس سے ہے تو خاک باز
اس خاک میں دب گئی تیری آگ
سحر کی اذاں ہو گئی اب تو جاگ
بُتانِ شُعوبِ قبائل کو توڑ 
رسومِ کہن کے سلاسل کو توڑ
یہ نظم لکھے ہوئے تقریباً صدی گزر گئی۔ پنجاب کا دہقان بدستور خاموش ہے۔ اقبال کے اٹھائے ہوئے سوالوں کا جواب دے تو کیونکر؟ اُس نے اپنا نام ہی بدل لیا ہے۔ اب وہ کسان یا کاشتکار کہلاتا ہے۔ نام بدل گیا مگر اُس کے شب و روز نہیں بدلے۔ وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ اگر زندگی کے آثار نظر آتے ہیں تو صرف دو مقامات میں‘ ایک اوکاڑہ اور دوسرا ملتان۔ اوکاڑہ میں انجمن مزارعین سرگرم عمل ہے۔ انگریزی دور میں برطانوی فوج کی طرف سے لاکھوں ایکڑ زمین کاشتکاروں کوLong Lease یعنی مزارعت پر دی گئی۔ اِن زمینوں پر مزارعین (جن کی اکثریت مسیحی ہے) کو حق ملکیت دیئے جانے کے لئے سالہا سال سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اب ہم ملتان چلتے ہیں‘ جوکسان اتحاد کے راہنما چوہدری محمد انور کا صدر مقام ہے۔ وُہ کسانوں کی حالت زار کی بہتری کے لئے کبھی اسلام آباد میں کل پارٹی کانفرنس بلاتے ہیں کبھی لاہور پرہزاروں کسانوں کا ہلہ بولتے ہیں۔ کچھ دنوں کا دھرنا‘ پھر وزیروں کی جھوٹی طفل تسلیاں‘ پھر وعدئہ فروا‘ بقول اقبال ع
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدُور مات
اس مصرع میں اس شکست کی وجہ بتائی گئی ہے سرمایہ دار مکر کی چالوں سے ایک بار پھر جیت گیا۔ محنت کشوں کی شکست نئی چیز ہے اور نہ استحصال کرنے والوں کی فتح۔ اب محمد انور کی قیادت میں کسان اتحاد اپنے جائز مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ ہمارے لئے قابل صد ستائش ہوں گے اور قابل فخر بھی۔
آیئے اب سرحد کے اُس پار کا جائزہ لیتے ہیں۔ بھارت میں ماہ اپریل میں مون سون بارشیں معمول سے اتنی کم ہوئیں کہ وہاں سنگین بحران پیدا ہو گیا ہے۔ بھارت میں 85کروڑ لوگ دیہات میں رہتے ہیں اور اُن میں ساٹھ فی صد زراعت سے روزی کماتے ہیں۔ دُنیا کے کسی بھی ملک میں اتنے لوگ خطِ افلاس سے نیچے نہیں رہتے جتنے بھارت میں۔ کل تعداد26کروڑ اور اِن غریبوں کا 80 فیصد دیہاتی ہے۔ جن کی اوسط سالانہ آمدنی 19250 روپے ہے (یعنی 2900 ڈالر) ہے۔ بھارتی کسان چین کے مقابلہ میں 40 فیصد کم چاول اور 35 فی صد کم گندم پیدا کرتا ہے۔ بھات کی کل زرعی زمین جسے کسی نہ کسی شکل میں پانی ملتا ہے‘ نصف سے بھی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کی نصف تعداد مون سون کے رحم و کرم پر زندہ رہتی ہے۔ زرعی ماہرین کہتے ہیں کہ آبپاشی سے محروم زمین پر کیلے کے درخت اور مرچوں کے پودے اُگائے جائیں تو پیداواری آمدنی (چاول اور جوار کے مقابلے میں) چار گنا بڑھ جاتی ہے۔ مگر اس تبدیلی کے لئے کولڈ سٹوریج اور قرضہ کی سہولت درکار ہوگی جو اس وقت غریب کسانوں کی دسترس سے باہر ہے۔ بھارتی حکومت زراعت پر جو رقم خرچ کرتی ہے۔ اُس کامحض دسواں حصہ صرف اس استعمال میں آتا ہے جس سے پیدوار میں قابل ذکر اضافہ ہو سکے۔ زیادہ تر اربوں روپے قابل خوردنی خوراک (Staples ) کو پیدا کرنے والے کسانوں کو مالی اعانت دینے پر ضائع کر دی جاتی ہے۔ Subsidies دینے کے بدترین طریقہ کار کا دُوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مالی امداد دینے والے سرکاری افسروں کے لئے کروڑوں روپے غبن کرنے اور رشوت وصول کرنے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ یقین کریں کہ
بھارت میں عوام اور عقل کے دُشمن ماہرین معیشت کا ایک گروپ دُور کی وہ کوڑی لایا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے ع
اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سوجھی
اِس گروپ نے یہ تجویز پیش کی کہ دیہات میں رہنے والے غریبوں کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی فوج کو جلد از جلد شہروں میں منتقل کر دیا جائے۔ 1970 ء میں بھارت میں شہری آبادی کل آبادی کا 20 فیصد تھا‘ جو چین اور انڈونیشیا سے زیادہ تھا۔ اب ان دونوں ملکوں میں شہری آبادی کا تناسب 55 فی صد تک چلا گیا ہے اور بھارت کا 20 سے بڑھ کر 30 فیصد تک۔ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے امریکہ کے بتائے ہوئے معاشی نسخوں اور ٹوٹکوں کو حرزِ جان بنایا ۔ انہیں الہامی احکامات کی طرح مقدس سمجھا اور اُن پر اندھا دھند عمل کیا۔سرمایہ دارانہ نظام کا مائی باپ امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک نے من موہن سنگھ پر پھول نچھاور کئے‘ ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ اب پتہ چلا ہے کہ بھارت میں امیر و غریب کے درمیان خلیج‘ وسیع اور گہری ہو گئی ہے۔ کانگرس کی معاشی پالیسی برُی طرح ناکام ہوئی تو اُسی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکل میں ایک فسطائی قوت اُبھری جس طرح یورپ میں کساد بازاری اور معاشی بحران کے بعد جرمنی میں ہٹلر‘ اٹلی میں مسولینی‘سپین میں فرانکواور پرُتگال میں سالازار۔ ان دنوں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور خود ہمارے ملک میں بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیاء الحق ۔ بھٹو مرحوم کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنے دُور دورِ حکومت پر لکھی ہوئی کتاب کو اقتدار کے سراب کا عنوان دیا۔ آپ اس سے خود نتیجہ اخذ کر لیں کہ سراب کے پیچھے بھاگنے والوں کے ہاتھ کیا آیا ہوگا؟ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے بعد آنے والی دو نام نہاد جمہوری حکومتیں معاشی طور پر اتنی ناکام ہوئیں کہ اُن کی جگہ فسطائی فوجی آمریت نے لی اور یہ ثابت کر دکھایا کہ ہر فوجی دور (جنرل ''عیوب‘‘ سے لے کر جنرل مشرف تک) میں معاشی حالات بہتر ہوئے۔ پیداوار کا معاشی اشاریہ اُوپر کی طرف گیا۔ اشیائے ضرورت کی دستیابی اور آسان ہوئی‘ صنعتی
پیداوار بڑھی‘ متوسط طبقہ کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ کروڑ پتی لوگ دیکھتے ہی دیکھتے ارب اور کھرب پتی بن گئے۔ یہ بے چارے نو دولتیئے اپنی ''حق حلال‘‘ کی کمائی ایک غریب ملک میں سنبھال کر رکھنے کا خطرہ کس طرح مول لیتے؟ جن لوگوں کے پاس اُونٹ ہوتے ہیں وہ اتنی عقل تو رکھتے ہیں کہ حساب جوڑ لیں کہ دروازہ کتنا اُونچا رکھیں جس میں سے اُن کے مال بردار اُونٹ گزر سکیں۔ آپ کے کالم نگار جیسے مسکین شخص کے پانچ دس لاکھ روپوں کا معاملہ ہو تو وہ پاکستان کے کسی بھی بینک میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے لئے آتش نمرود میں عشق کو بے خطر کودنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ انسانی عقل بلند بام پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے میں محو ہو سکتی ہے۔ ہم لوگ کتنے سادہ لوح‘ بھولے اور درویش صفت ہیں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری زرعی اور صنعتی پیدوار کا حال کتنا برُا ہے‘ چشم زدن میں لکھ پتی افراد کے کروڑ پتی بن جانے اور اس پر بھی زیادہ تیز رفتاری سے کروڑ پتی افراد کا ارب پتی اور ارب سے کھرب پتی بن جانے پر ہم قطعاً حیران نہیں ہوتے۔ اسے کہتے ہیں دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کرنا۔ ہمارے ذہن میں یہ سوال کبھی نہیں اُٹھتا کہ یہ جادُو کی کرامات ہے یا معمول کے مطابق معاشی ترقی جو ایک روپیہ کو دو تو بنا سکتی ہے مگر راتوں رات ایک سو یا ایک ہزار نہیں بنا سکتی۔ جب یہ انکشاف ہوا کہ ارب اور کھرب پتی لوگوں نے ہر طرح کا چھپڑ پھاڑ کر حاصل کی جانے والی دولت کو پاناما میں کسی فرضی نام کے تحت جا چھپایا ہے۔ تو ہم غصہ کے مارے آتش زیرپا ہو گئے۔ سلیس زبان میں اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہمیں چوری کرنے پر اعتراض نہیں۔ صرف چوری کے مال کو ملک سے باہر چھپانے پر ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پاناما انکشافات کے بعد ہماری جیلوں میں جو چور محض اس لئے قید ہیں کہ اُن پر چوری کا جرم ثابت ہو گیا مگر پولیس مال مسروقہ برآمد نہیں کر سکی۔ اُنہیں فی الفور رہا کر دیا جائے۔ ضرب کلیم میں اقبال کی ایک نظم کا دوسرا مصرع آج کے کالم کا عنوان ہے۔ اُس کے پہلے مصرع میں اقبال نے تین اوصاف بیان کئے ہیں‘ اچھا موسم وافر پانی ‘ مٹی کی زرخیزی۔ اب نہ مٹی زرخیز رہی اور نہ پانی وافررہا‘ دہقان پاکستان کا ہو یا بھارت کا ‘پانی کا اس کے کھیت میں پہنچنا مشکل ہے۔ اب وہ اپنے کھیت کو اپنے خون سے‘ اپنے پسینہ سے اور اپنے آنسوئوں سے توسینچ سکتا ہے‘ پانی سے نہیں۔ اقبال کا سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے کہ وہ کیسا دہقان ہے۔نہ دہقان بتا سکتا ہے (حالانکہ جانتا ہے) اور نہ یہ کالم نگار جو بتا تو سکتا ہے (بشرطیکہ جانتا ہو) غالب بھی اسی مشکل میں پھنسے ہوں گے مگر اُنہوں نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی ع
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں