بھارت یاترا ۔۔۔۔ (حصہ اوّل)

19 اگست کی شام دہلی کے دل میں ایک مشہور انگریز ماہر تعمیرات سر ایڈورڈ لیٹن کے بنائے ہوئے کمال کے نقشہ کے مطابق ڈیڑھ سو سال قبل تعمیرکردہ کناٹ پلیس کی تاریخی عمارت کے ایک حصہ میں بنے ہوئے شاندار ہوٹل میں یہ سطور لکھی جا رہی ہیں۔ بھارت یاترا کا پہلا حصہ کل مکمل ہوگا، آج کا کالم سفر کے پہلے حصہ کے بارے میں ہے جس میں دہلی، راجستھان اور ہماچل پردیش کا تذکرہ ہوگا۔ کل میری بیوی لاہور پرواز کریںگی اورکالم نگار کلکتہ کی جانب۔ ہم یہاں 13اگست کی رات پہنچے۔ دس سال کے صبر آزما وقفہ کے بعد ہمیں ویزا ملا تو ہم بصد ذوق و شوق بھارت یاترا پر آئے۔ ارادہ ہے کہ آئندہ ہر سال ایک بار یہاں ضرور آتے رہیں گے۔ خیال تو یہی ہے کہ ایک بار برف پگھل جائے تو راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ ایک بوڑھے جوڑے کی خوش قسمتی ہے کہ اُسے دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت امیر خسرو ؒاور شاعروں کے شاعر غالبؔ اور دہلی سے قریباً ایک ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اجمیر شریف میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزارات پر حاضری دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہم نے اپنے بال بچوں اور عزیزو اقربا سے لے کر وطن عزیز اور اُس میں رہنے والے کروڑوں بہادر، باہمت، بلند حوصلہ اور طرح طرح کی مصیبتوںکا صدیوں سے مقابلہ کرنے والے افراد کی خیرخیریت کی دعا مانگی۔ دہلی میں دونوں مزاروں پر مسلمان زائرین اور اجمیر شریف میں ہندو زائرین کا ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ میرے لئے (محاورہ کے مطابق) اپنی دستار اور عملاً اپنی بڑھیا (قدرت اللہ شہاب یہی لفظ استعمال کرتے تھے) دونوں کو بیک وقت سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ خدا کا شکر ہے کہ میں اپنی دستار سنبھالنے اور اپنی بیوی کو بحفاظت دھکم پیل سے باہر لانے میں کامیاب رہا۔ 
بھارت اور پاکستان کے درمیان 1965ء اور 1971ء میں لڑی جانے والی دونوں جنگوں کا عرصہ تقریباً ایک ماہ بنتا ہے، بمشکل تیس دن۔ گویا 70 برس میں جنگیں صرف ایک ماہ لڑی گئیں،باقی69 سال گیارہ ماہ میں کیا ہوا؟ سرد جنگ، کشیدگی، شدید بدمزگی اور تنائو! پنجابی کی کلاسیکی فلم مولا جٹ کے کرداروں کی طرح بھبکیوں (جوگیڈرکی وجہ ٔشہرت بن گئی) اور بڑھکوں (جو سلطان راہی کا ٹریڈ مارک تھیں) کا نہ ختم ہونے والا تبادلہ۔ بچے بھی اس طرح آپس میں نہیں لڑتے۔ دُور سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ دو بڑے سمجھدار پڑوسی ممالک کشمیر پر اتنے سالوں سے اس طرح لڑ رہے ہیں جس طرح دو بے وقوف اور بدتمیز بچے ٹافیوں پر لڑتے ہیں۔ بچے یہ نہیں جانتے کہ ٹافی دونوں کے ہاتھ میں نہ آئے گی چونکہ تنازع کا تعلق قطعہ زمین سے نہیں بلکہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت سے ہے۔ یہ موروثی جائیداد کا روایتی جھگڑا نہیں۔ مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی فریق ہے اور وہ ہیں ناقابل بیان قربانیاں دینے والے کشمیری عوام۔ 
اس صورت حال میں دونوں ہمسایہ ممالک کے عوام کیا کریں؟ وہی کریں جو پاکستان میں عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر مبشر حسن، انصار برنی اور بھارت میں اُرون دھتی رائے، کلدیب نیئر اور (اپنی وفات تک) خشونت سنگھ کی طرح کے لوگ اُونچی سطح پر اور اس کالم نگار جیسے مسکین لوگ نچلی سطح پر کر رہے ہیں اور یہ کام ہے پڑوسی ملک کے عوام کا ایک دُوسرے سے براہ راست رابطہ۔ ایک ملک کے وکیل سرحد عبورکرکے ہمسایہ ملک کے وکیلوں سے ملیں۔ ڈاکٹر ڈاکٹروں سے، اساتذہ پڑوسی ملک کے اساتذہ سے، صحافی صحافیوں سے، کسان اور مزدُور راہنما سرحد کی دُوسری جانب کے کسان اور مزدُور راہنمائوں سے۔ یونیورسٹیاں پڑوسی ملک کے طلبا اور طالبات کے لیے نہ صرف داخلہ کے دروازے کھولیں بلکہ اُنہیں وظیفے بھی دیں۔ سماجی تنظیمیں بھی اس نیک کام میں پہل کریں اور پڑوسی ملک سے اپنے اپنے شعبہ میں سماجی کارکنوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیں۔ تبادلہ خیال کریں، ایک دُوسرے سے سیکھیں اور ایک دُوسرے کو سکھائیں۔ نہ ختم ہونے والی کشیدگی دونوں ملکوں میں پرامن بقائے باہم کے راستہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے۔ ماحول پُرامن اور خوشگوار ہوگا تو پھر وہ مسائل حل کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی جو اس وقت باعث اِختلاف اور موجب فساد ہیں۔ 
میری بیوی نے دہلی میں جس طرح دیدہ زیب کپڑوں کی خریداری کی اُس سے پڑوسی ممالک کے درمیان بہتر ماحول کی بجائے اور خراب ہوئے اور وہ یوں کہ ایک بظاہر خاموش، پابندِ صوم و صلوٰۃ بی بی میدان جنگ میں اُتری تو دہلی کے گھاگ دُکانداروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹی اور اُنہیں (محاورہ کے مطابق) ناکوں چنے چبوا دیئے۔ اُنہوں نے درجنوں بہت اچھے جوڑے اور شالیں اتنی''مناسب‘‘ (اُن کی نظر میں) قیمت پر خریدیں کہ دُکانداروں کی حالت زار دیکھ کر ہر شخص آبدیدہ ہو جاتا تھا۔ میں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ان ''لٹے پُٹے‘‘ دُْکانداروں کی کھلم کھلا حمایت کی۔ اس طرفداری پر جب میری بیوی نے مجھے غیر پسندیدہ فرد قرار دے دیا تو میں نے دہلی ہائی کورٹ کے وُکلا کی دوستانہ ملاقات کا موقع مل جانے کو غنیمت بلکہ نعمت خداوندی سمجھا۔
یہ کالم نگار رب العزت کے آگے سر بسجود ہے کہ اُسے علی گڑھ کے بعد بھارت میں مسلمانوں کی دُوسری بڑی یونیورسٹی (جامعہ ملیہ اسلامیہ) کے شعبہ قانون نے دعوت خطاب دی۔ سینکڑوں طلبا و طالبات اور اُن کے اساتذہ نے میرا لیکچر بڑی توجہ، دلچسپی اور انہماک سے سُنا۔ لیکچر کا موضوع تھا قانون کی حکمرانی۔ میرا موقف یہ تھا کہ برطانیہ، امریکہ اور یورپی ممالک اپنے ملک کے اندر تو قانون کی حکمرانی کا بے حد خیال رکھتے ہیں مگر اپنے ملک سے باہر عالمی سطح پر بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہیں جبکہ قانون کی حکمرانی ناقابل تقسیم ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوںگے کہ میرا اشارہ کس طرف تھا؟
شعبہ قانون کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر یزدانی اور سینئر اساتذہ خواتین نزہت اورکشاں صاحبہ اپنے مہمان کے دلی شکریہ کی مستحق ہیں جنہوں نے کالم نگارکو یہ اعزاز بخشا کہ وہ پہلا پاکستانی ہے جس نے جامعہ ملیہ میں پڑھایا۔ صرف قانون کی حکمرانی کے رموز نہیں سمجھائے بلکہ امن، دوستی اور اپنائیت کی باتیں بھی کیں۔ طلبا و طالبات اور ان کے بے حد شفیق اور قابل اساتذہ کی تالیوںکی آواز ساری عمر میرے کانوں میں گونجتی رہے گی۔ کسی بھی شخص کی یادوں کا اورکون سا حصہ اس سے زیادہ قیمتی ہو سکتا ہے؟
میرے قارئین جانتے ہوںگے کہ جامعہ ملیہ کے سربراہ ڈاکٹر ذاکر حسین آگے چل کر بھارت کے صدر بنے اور اُس کرسی پر بیٹھے جس پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھانے والے ڈاکٹر رادھا کرشن جلوہ افروز ہو چکے تھے۔ نہ صرف دہلی کی ایک بڑی شاہراہ کا نام ڈاکٹر حسین روڈ ہے بلکہ ہر شاہراہ جو علمیت، بزرگی اور اعلیٰ انسانی قدروں کی طرف جاتی ہے، اُس پر ڈاکٹر ذاکر حسن کا نام ضرور لکھا ہوگا۔ (پاکستان میں مرحوم حکیم سعید کی طرح) ڈاکٹر ذاکر حسین کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمود حسین نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا جہاں اُنہیں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے زیادہ بڑا عہدہ نہ ملا۔ اُن کا بیٹا پچاس کی دہائی میں میرا ہم عصر تھا، نام تھا انور حسین۔ مباحثوں میں میرا اتنا حریف ہوتا تھا کہ اُس سے ہار جانے میں زیادہ افسوس نہ ہوتا۔ کتنا اچھا ہوگا کہ وہ یہ سطور پڑھ کر ایک بھولے بسرے دوست کے ساتھ تجدید تعلق کرے اور میری دُعائیں لے۔ جس طرح کراچی میں رہنے والے دو دوستوں (عامر عزیز سیّد اور ارشد ملک) نے کیا۔ کسی ہمدم دیرینہ سے ملنا یقیناً مسیحا اور خضر سے ملاقات سے زیادہ بہتر تسلیم کیاگیا ہے۔
دہلی میں سہ روزہ مصروف قیام کے بعد ہم میاں بیوی کوہ ہمالیہ کے دامن میں ایک ایسی نیم خوابیدہ بستی (ہمیر پور) کی طرف روانہ ہوئے جہاں 79 سال سات ماہ اور چودہ دن پہلے یہ کالم نگار پیدا ہوا تھا (مقامی سول ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر کے گھر میں۔) دہلی سے چندی گڑھ کا سفر بذریعہ ٹرین کیا۔ ریلوے والوں نے مشروبات اورکھانوں کی صورت میں اپنے مسافروں کی اتنی خاطر مدارت کی کہ اکثر ذاتی میزبان بھی اس معیار پر پورا نہیں اُترتے۔ چندی گڑھ سے ہمیر پورکا سفر ایک بس میں پانچ گھنٹے میں مکمل کیا گیا۔ میاں بیوی نے اپنا دن ہسپتال کی بچی کھچی عمارت دیکھنے اور اُسے بڑی دیر حیرت سے تکنے سے شروع کیا مگر جب ہم بازارکی سیرکو نکلے تو لوگوں نے آنکھیں بچھا دیں۔ میں ہمیر پورکے بازار میں مندروں کی گھنٹیاں بجاتا ہوا وہاں کے ڈپٹی کمشنر (مدن چوہان صاحب) کو ملنے گیا تاکہ اُن کے سامنے وہ تجاویز رکھی جا سکیں جو ہمیر پور جیسے Hill Station پر زیادہ سیاحوں کو کھینچ لانے میں ممدو معاون ثابت ہو سکیں۔ 
اُن کے دفتر میں خواتین سماجی کارکنوں کا ایک وفد بھی آگیا، ڈپٹی کمشنر صاحب کی افسرانہ کلائی پر راکھی باندھنے کے ارادے سے۔ بھارت میں ہر سال ایک تہوار منایا جاتا ہے جب بہنیں اپنے بھائیوں کی کلائی پر سرُخ دھاگوں سے بنی ہوئی زرق برق راکھی باندھتی ہیں تاکہ وہ اُن کے محافظ بنے رہیں۔ چوہان صاحب نے میرا تعارف کرایا تو مجھے بھی بڑے اہتمام سے راکھی باندھی گئی اور ماتھے پر سیندور لگایا گیا اور اس حُلیہ اور ہیئت کذائی میں آپ کے کالم نگار کی دھڑا دھڑ تصویریں اُتاریں گئیں۔ مہمان نوازی یہاں پر ختم ہو جاتی تو کافی تھا، نکتہ معراج یہ ہے کہ بھارت میں ہندی زبان کے سب سے بڑے اخبارDainik Bhaskar نے19اگست کو صفحہ اوّل پر ہم میاں بیوی اور ہمارے میزبان وکیل آشوینی کمار اور اُن کی دھرم پتنی کی تصویر کی ساتھ میرا بیان بھی شائع کیا۔ میں نے کہاکہ ہندو خواتین اپنے بھائیوں کی کلائیوں پر راکھی باندھنے کی پرانی رسم ضرور منائیں مگر وہ اپنے بے زبان اور مظلوم شہر کو بھی راکھی باندھیں۔ اس کی حفاظت اور اس کی صفائی کا عہدکریں۔ ایک نیا حلف اُٹھائیں جو ایک نئے معاہدہ عمرانی کی ترجمانی کرے۔ بھارت میں میرے میزبان برہمن برا مانیں یا نہ مانیں مگر میرا فرض ہے کہ میں اُنہیں یاد دلائوں ع
تیرے صنم کدوں کے تخت ہو گئے پرانے!ْْْْ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں