بھارت یاترا (حصہ سوئم)

میرے قارئین میں سے جو لوگ بڑی عمر کے ہیں اُنہوں نے غالباً بمبئی میں بننے والی ایک پرُانی فلم کا نام سنا ہوگا: ''رام تیری گنگا میلی‘‘۔ مجھے اپنے کلکتہ میں سہ روزہ قیام کے دوران ایک بڑے مندر جانے کا موقع ملا تو میں نے رام جی کو مخاطب کر کے فریاد کی کہ نہ صرف اُن کی گنگا میلی ہو چکی ہے بلکہ اُس کے کنارے آباد تمام شہر اور خصوصاً کلکتہ، جہاں گنگا ندی خلیج بنگال میں ایک بڑے ڈیلٹا کی شکل میں داخل ہوتی ہے۔ سندر بن (جو شیروں کا مسکن ہے) اسی ڈیلٹا کے حدود اربعہ میں پھیلے ہوئے جنگلات اور وسیع و عریض دلدل کا نام ہے۔ بھارتی حکومت یوروپی سیاحوں کی بڑی تعداد کو سندربن کی جھلک دکھانے ہر سال لاتی رہتی ہے۔ مگر اس کالم نگار کے معاملہ میں سندر بن کا نسخہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ میں بھارت میں رہنے والے انسانوں سے ملنے آگیاہوں۔ شیروں کو(اور وہ بھی دُور سے)ڈرے دیکھنے کے لئے نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سندربن کے شیر بھوکے ہوں اور راشٹریہ سیوک سنگھ سے تعلق ہونے کی وجہ سے مسلمان دُشمن ہوں۔ جب میں اُن کے قریب جائوں تو وہ شربت دیدار کی بجائے ایک بوڑھے پاکستانی کاخون پینے میں زیادہ دلچسپی رکھیں۔
جب بھارت میں کانگرس نصف صدی تک حکومت کرنے کے بعد برُی طرح ناکام ہوئی (پاکستان میں پرُانی مسلم لیگ کی طرح) تو بھارتیہ جنتا پارٹی، جوہندو بنیاد پرست سیاسی جماعت ہے اور جس کا خمیر سیکولر کی بجائے فرقہ وارانہ (Sectarian)سیاست سے اُٹھا ہے،برسرِ اقتدار آئی۔ کتنی اچھی بات ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی برسر اقتدار آئی اور اُتر پردیش (جس کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے) میں سماج وادی پارٹی جو مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں کے اتحاد سے اُبھری۔ اُس کی عوام دوستی کی صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کروں گا۔ یہ ہندوستان کا واحد صوبہ (ریاست) ہے جہاں لاکھوں مسلم اور غیر مسلم طلبا اور طالبات کو سکول میں اُردو پڑھنے کی سہولت دی گئی ہے۔ بنگال میں کمیونسٹ پارٹی نے 30 سال حکومت کی اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکامی پرالیکشن برُی طرح ہار گئی۔ کمیونسٹ پارٹی کی جگہ ممتا بینر جی کی اپنی بنائی ہوئی ایک نئی کانگریس پارٹی نے اس کی جگہ لی۔ ان دنوں بہار اور بنگال (شدید بارشوں کی وجہ سے) سیلاب کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ بہار کے وزیراعلیٰ منیش کمار نے دریائوں (خصوصاً گنگا) میں پہاڑی مٹی ( Silt) کے لاکھوں ٹن ذخائر جمع ہو جانے کو پانی کی سطح کی بلندی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اُنہوں نے فرخا بیراج پر بنے ہوئے بھارتی ذخیرئہ آب ( DAM) کے وجود کو ختم کرنے کا جو مطالبہ کیا وہ بھارت میں میرے چند روزہ قیام کے درمیان آنے والے زلزلوں میں پہلا تھا۔دوسرا زلزلہ یہ آیا کہ بھارتی حکومت نے 23650 کروڑ روپے (آپ ان کے ارب بنائیں تو داد پائیں)خرچ کر کے فرانس سے جو چھ جدید ترین آبدوزیں خریدیںاُن کی ساری تفصیلات (جو 22400 صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں) ایک آسٹریلوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق غیروں (آپ خوداندازہ لگائیںکہ وہ کون ہوں گے؟) کے ہاتھ لگ چکی ہیں اور اس اعتبار سے اُن آبدوزوں کی جنگی افادیت صفر ہو گئی ہے۔ تیسرا (مقابلتاً کم) زلزلہ یہ آیا کہ بھارتی پارلیمنٹ کی کانگریسی رُکن Ramya (سابق اداکارہ ہونے کے باوجود اور بدستور حسین و جمیل ہیں) نے کہا کہ بھارتی وزیر دفاع کے بیان کے برعکس پاکستان قطعاً جہنم نہیں اور وہاں کے لوگ بالکل اپنے پڑوسیوں جیسے ہیں۔ اُن کا یہ کہنا تھا کہ اُن پر کرناٹک کی ایک عدالت میں بغاوت (Sedition ) کے الزام میں مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ سنگین جرم ثابت ہو جائے تو عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ چوتھا زلزلہ یہ آیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سوئی ہوئی قوم کو یاد دلایا کہ وہ کس منہ سے ترقی کی بات کرتی ہے جبکہ بھارتی عدالتوں میں زیر سماعت اور فیصلہ کے منتظر مقدمات (سرد خانہ میں پڑے ہوئے مقدمات) کی کل تعداد بڑھتے بڑھتے 21.3 ملین (دوکروڑ تیرہ لاکھ) تک جا پہنچی ہے اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ پانچواں زلزلہ یہ آیا کہ برازیل میں ہونے والے اولمپک کھیلیں ختم ہوئیں تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی کے ملک نے بمشکل دو تمغے (طلائی ایک بھی نہیں) جیتے اور وہ بھی ہریانہ اور پنجاب کی دو جاٹ لڑکیوں نے۔ چھٹا زلزلہ یہ آیا کہ پولیس نے حال ہی میں قتل کر دی جانے والی ایک لڑکی کی لاش اُس کے والدین کے سپرد کر دی۔ اُنہوں نے ساری مذہبی رسومات ادا کرکے اسے نذر آتش (Cremate) کر دیا۔ چند دن بعد کلکتہ پولیس اغوا ہو جانے والی ایک پندرہ سالہ لڑکی کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہوئی اور اُسے عدالت میں پیش کرنے کے بعد اُس کے والدین کے پاس پہنچایا گیاتو وہ والدین جو پہلے رنج و غم سے رو رہے تھے، اب خوشی کے مارے رونے لگے۔ اُنہیں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی تو زندہ سلامت ہے اور اُنہوں نے جس کی چتا جلائی وہ یقینا کوئی اور تھی۔ ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ وہ کون تھی؟ ساتواں زلزلہ یہ آیا کہ بمبئی ایئر پورٹ پر ایئر انڈیا کی بدنظمی کی بدترین مثال سامنے آئی۔ غلط وقت پر اور غلط جگہ پر کھڑے جیٹ ہوائی جہاز نے اپنے انجن چلائے تو ہوا ئی جہاز کے جیٹ انجن نے ایک بد نصیب انجینئر کو زندہ نگل لیا اور ایک قیمتی انسانی جان ہوائی کمپنی کی مجرمانہ غفلت سے ضائع ہو گئی۔ آٹھواں زلزلہ یہ آیا کہ نئی دہلی میںاینٹی کرپشن محکمہ کی ٹیم نے بھارت کے سابق وزیر خزانہ اور ممتاز سیاست دان Chidmbaram کی بیویNalini سے ایک بہت بڑے مالی سکینڈل میںملوث ہونے کے شُبہ میں تفتیش اور پوچھ گچھ کی۔ بھارتی اخباروں نے اس سیکنڈل کو Saradha Chit Fund Scam کا نام دیا ہے۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ سیکنڈل کے مرکزی کردار نے اُن پر الزام لگایا ہے کہ اُنہوں نے قانونی مشاورت کی آڑ میں اُس سے 20 کروڑ روپے بٹورے تاکہ وہ اپنے خاوند کے بڑے عہدہ کا فائدہ اُٹھا کر اُس کی غیر قانونی مدد کر سکیں۔ میرے قیام کے دوران چھوٹے بڑے زلزلے تو اور بھی کئی آئے مگر میں آپ کو جس آخری زلزلہ کے بارے میں بتائوں گا وہ خالصتاًزمینی تھا (جسے عرف عام میں بھونچال کہتے ہیں) یہ سال رواں میں کلکتہ میں آنے والا چوتھا بھونچال تھا۔ زیادہ شدید نہ تھا اس لئے کوئی جانی یا مالی نقصان نہ ہوا۔ عمارتیں ہلنے لگیں تو لاکھوں افراد گھبرا کر گھروں اور دفتروں سے باہر کھلی جگہ کی طرف بھاگے۔ صرف ایک راہ گزر لبِ سڑک مسجد سے وزنی اینٹ گرنے سے زخمی ہوا مگر بچ گیا۔ یہ بھونچال 24 اگست کی شام کو آیا۔ خوش قسمتی سے میں اس وقت ٹیکسی میں سفر کر رہا تھا ، جو ٹریفک کے غیر معمولی اژدھام میں پھنسی ہوئی تھی۔اور اس طرح چار سُو پھیلی ہوئی سراسیمگی سے بے خبر رہا۔ 
اصلی اور لفظاً بھونچال سے اگلے دن ہندوستان بھر میں عام تعطیل تھی۔ جنم اشٹمی تہوار اُسی عقیدت اور مذہبی جوش و خروش سے منایا گیا جو دُنیا بھر میں مذہبی تہواروں کی خصوصیت ہوتی ہے۔ (جنم اشٹمی کرشن مہاراج کا جنم دن تصور کیا جاتا ہے)۔ میں نے سڑکوں کے کنارے ان گنت افراد (مردوں، عورتوں اور بچوں) کو شدید بارش میں ننگے پائوں چلتے اور مندروں کی طرف جاتے دیکھا۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی مذہبی عقیدت کے مظاہرے پر نچلے متوسط طبقہ کی اجارہ داری ہے۔ بھارت کی خوش قسمتی ہے کہ وہاں سیالکوٹ میں پیدا ہونے اور ایف سی کالج لاہور میں پڑھنے والے کلدیپ نیّر جیسے روشن دماغ ایک بڑے معیاری اخبار The Statesman میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔ میں نے کلکتہ کے قیام کے تیسرے اور آخری دن اُن کا کالم پڑھا تو دل خوش ہو گیا۔ کالم کی محدود جگہ مجھے اُس کے اقتباسات کا ترجمہ شامل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر آپ Net پر پڑھ سکتے ہیں تو ضرور پڑھیں اور ہر ہفتہ پڑھیں۔ کلدیپ نیّر اُسی طرح بھارت کے انسان دوست دانشوروں کے اجتماعی ضمیر کی آواز ہیں جس طرح ایک عرصہ تک پاکستان میں (اپنی وفات تک) اردشیر کائوس جی، مظہر علی خان، آئی ایچ برنی، سبطِ حسن اورحمید نظامی تھے۔
میں نے بھارت میں دو ہفتوں کے قیام میں بہت کچھ سیکھا مگر لندن میں اپنے دفتر سے اور گھر میں اپنے بال بچوں سے اتنی دُور جانا اور وہاں دو ہفتے رہنا ذہنی بوجھ اور اعصابی تنائو کا باعث بنا۔ 
اپنے پیارے قارئین کا شکریہ جنہوں نے صبر و تحمل اور توجہ سے میرے بھارت کے سفر نامہ کی تین قسطیں پڑھیں۔ میں اُن بے چاروں کو اس عذاب میں نہ ہی ڈالتا تو اچھا ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں