باتیں میرے دُوسرے دیس کی۔3

یقینا آپ کے لئے یہ ایک باسی خبرہوگی۔ پاکستان سارک ممالک کی سربراہی کانفرنس کا میزبان بنا تو ہمارے پانچوں پڑوسی ممالک نے شرکت سے انکار کر دیا۔ اکتوبر کے آخری ہفتہ میں رُونما ہونے والا یہ فقید المثال واقعہ ہمارے دُشمنوں کو ہمارا مذاق اڑانے اور ہمارے چند دوستوں کو شرمندہ کرنے کا باعث بنا۔ بین الاقوامی قانون کے ایک عام سطح کے مگر بڑے پرُانے طالبعلم کی حیثیت سے میں اپنی یہ رائے ظاہر کروں گا کہ مذکرہ بالا بائیکاٹ نے سارک کے سارے معاہدے کی قانونی حیثیت اور سیاسی جواز کے سامنے اتنا بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ وہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی صاحبان جیسے چلے ہوئے کارتوسوں کو بھی دیکھنے اور سمجھنے میں دُشواری نہیں ہونی چاہئے۔ اگر وہ دونوں جدید سفارت کاری کے رُموز کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو اُنہیں حبیب جالب (جو بمشکل میٹرک پاس تھا) کا ایک آسان ترین شعر سنانے سے زیادہ اُن کے دماغوں پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے۔ ؎
دس کروڑ انسانو زندگی سے بیگانو
دوستوں کو پہچانو دُشمنوں کو پہچانو
جالب سے غالب کی طرف چلتے ہیں۔ غالب کا ایک مصرع ہے۔ ع
مجھے کیا برُا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
پاکستان کے خلاف صرف ایک (مذکورہ بالا) برُی خبر کو ہی برطانوی اخبارات میں نمایاں جگہ ملتی تو میرے جیسے لوگ خون کے آنسو پی کر صبر کر لیتے مگر تین اور برُی خبریں شائع ہوئیں تو کام سہ آتشہ سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گیا۔ پہلی خبر پاکستان میں پولیس کے مجرموں اور دہشت گردوں کے جعلی مقابلوں کے بارے میں تھی۔ اس میدان میں پاکستان کی پولیس دُنیا بھر میں سر فہرست تھی۔ کتنا اچھا ہوتا کہ جعلی پولیس مقابلوں کو بطور کھیل اولمپک مقابلوں میں شامل کر لیا جاتا کہ ہمارا ملک ایک طلائی تمغہ تو حاصل کر سکتا۔ دُوسری خبر فضائی آلودگی کے بارے میں تھی‘ چین‘ روس اور بھارت کے بعد ہمارا نام آتا ہے۔ پاکستان میں ہر دس ہزار مرجانے والے افراد میں سے 37 سانس کی بیماری سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے۔ تیسری خبر خراب خوراک کھانے کی وجہ سے بچوں کی نشوونما رُک جانے ((Stunted Growth کا شکار بن جانے میں دُنیا کے سب سے بدنصیب ممالک میں ہمارا نام پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ 
معروف صحافی جناب عبدالروف شکریہ کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے کافی عرصہ قبل اپنی یہ رائے ظاہر کی تھی کہ رقم خرچ کرتے وقت ترجیح کا خیال رکھا جاتا ہے۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین پر 230 ارب روپے خرچ کرنے سے زیادہ ضروری یہ تھا کہ پنجاب میں تعلیم اورصحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جاتا۔ لاہور کی ایک کروڑ کے قریب آبادی کے پینے کے لئے پانی اور سانس لینے والی ہوا کا صاف ہونا سفر کی سہولت سے زیادہ اہم ہے۔ عالمی ماہرین کی متفقہ رائے کے مطابق غربت اورناقص یا کم خوراکی کے باعث ہمارے ایک کروڑ سے زائد بچے جسمانی اور ذہنی طور پر پست رہ جائیں گے۔کیا ایسی ہر رپورٹ ہمارا ذہنی سکون برباد کرنے کے لئے کافی نہیں؟ اگر آپ پاکستان کا ایک بارقومی ترانہ گا نہیں سکتے تو بطور نثر پڑھ تو سکتے ہیں۔ برائے مہربانی پھر اسے پڑھیں۔ سایۂ خدائے ذوالجلال جیسے ولولہ انگیز الفاظ پھر دُہرائیں اور پھر ایک نظر ہماری قومی ابتری‘ بدامنی‘ قانون اور آئین کی پامالی‘ سرکاری نظام کے ہر شعبہ کی عوام دُشمنی‘ کروڑوں افراد کی بدحالی‘ یعنی زندگی کے ہر شعبے کی ابتری پر ڈالیں۔ ہمیں یا تو اپنے حالات بہتر بنانے ہوں گے یا قومی ترانہ کے الفاظ بدلنا ہوں گے۔
شمالی افریقہ کے مغربی ساحل پر مراکش سے جڑے ہوئے صحرائی ملک کا نام ہے ماریطانیہ ایک زمانے میں ہمارے پاس ریشماں کی صورت میں غیر تربیت یافتہ مگر کمال کی لوک گلوکارہ تھی‘ اُسی طرح ماریطانیہ کے پاس Noura Mint Sey Mali کی صورت میں ایسی صحرائی آواز ہے جو لندن کے ایک بڑے ہال میں گونجی تو سامعین نے دل تھام لئے۔ آواز کیا تھی؟ شعلہ ناہید کی لپک‘ بلبل کی چہک‘ ستاروں کی دمک اور آبشاروں کی کھنک کا مجموعہ تھی۔ وہ گانے کے ساتھ اپنے علاقائی گٹار بھی بجاتی ہیں اور سماں باندھ دیتی ہیں۔ نورا موسیقی کے پروگرام میں اپنا روایتی لباس (ڈھکا ہوا سر اور تہہ در تہہ عبائیں) پہن کر آئیں۔ اُنہوں نے گانے کا آغاز ایک دلوں کو موہ لینے والی خمیسہ نعت سے کیا اور اختتام پر جو گیت (مدھم سُروں میں) گایا اُس میں خواتین کو اپنا سالانہ طبی معائنہ کرانے کا دوستانہ مشورہ دیا۔ Cervical Cancer سے بچائو کے لئے۔ کسی بھی ملک میں کسی بھی عمر کی عورت ہونا خطرات سے خالی نہیں ہوتا۔ لندن میں موسمِ خزاں کی ایک شام کو نورا نے اپنی آواز کا جادو جگایا تو ایسے لگا کہ شاخوں پر سوئے ہوئے شگوفے جاگ پڑے ہیں او رپھول بن گئے ہیں۔ صحرا میں باد نسیم ہولے سے پھر چل پڑی ہے۔ بہار کی آمد آمد ہے۔ وہ واپس اپنے وطن چلی گئیں تو روشنی ‘ خوشبو اور اپنے مدھر سروں کو ساتھ لے گئیں۔ موسم خزاں پھر واپس آگیا۔ 
میں بیرون ملک جائوں تو سفر کے دوران برطانوی اخبارات پڑھنے سے وقتی طور پر محروم ہو جاتا ہوں۔ گھر واپس آئوں تو کئی شامیں پرانے اخبارات کے مطالعہ کے لئے وقف کر دیتا ہوں۔ اتفاق سے آٹھ اگست کا روزنامہ گارڈین کسی ایسی جگہ رکھ دیا کہ وہ آج یہ سطور لکھنے سے چند لمحات پہلے (اشاعت سے ڈیڑھ ماہ بعد) مل گیا۔ گیارہویں صفحہ پر جو خبر نمایاں طور پر شائع کی گئی وہ چھ برطانوی سپاہیوں کو بھارتی جیل میں قید کی سزا کی (آدھے صفحہ پر پھیلی ہوئی) تفصیلات بتاتی ہے۔ یہ سپاہی اب حاضر سروس نہ تھے اور ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد جہاز رانی کی ایک کمپنی میں بطور مسلح محافظ بھرتی ہو گئے۔ اُن کی ذمہ داری یہ تھی کہ جہازوں کو بحری قزاقوں سے بچائیں۔ جہازوں کو تو اُنہوں نے قزاقوں سے بچا لیا مگر خود بھاتی پولیس اور نیم فوجی دستوں کے چنگل سے نہ بچ سکے۔ وہ تین سال قبل لائسنس کے بغیر اسلحہ لئے پھرنے کے جرم میں گرفتار ہوئے اور انہیں پانچ پانچ سال قید کی سزا دی گئی۔ ایسی صورت حال کے بارے میں فیض صاحب نے لکھا تھا۔ ع
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
اصل شعر شیخ سعدی ؒ نے لکھا اور فیض صاحب نے اس کا اُردو ترجمہ کر کے اپنا کام چلایا۔ جس طرح اُنہوں نے وسطی ایشیا کی ایک ریاست (جہاں میری آنکھوں دیکھی کوہ قاف کی پریاں رہتی ہیں) داغستان کے ملک الشعراء رُسول حمزہ کے افکار کا اپنی نو نظموں میں شاعرانہ ترجمہ کیا۔ کسی بھی شاعری کا اشعار کی صورت میں ترجمہ کرنا سب سے مشکل ادبی کام ہے۔ 
فیض صاحب نے اس کا حق بھی اداکر دیا ۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ سیدہ نور کے گائے ہوئے غمناک اور المناک گیت (اے عشق مجھے برباد نہ کر) میں رو رو کر گائے ہوئے الفاظ کے برعکس عشق کوئی ایسی تخریبی قوت نہیں جو بربادی کا باعث بنے۔ فیض صاحب کی ساری زندگی دھڑا دھڑ عشق کرنے میں گزری اور اس مصروفیت نے ان کے ذہن کو جلا بخشی۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی ہر محبوب کو اُن سے پہلی سی محبت نہ مانگنے پر بھی رضا مند کرلیتے تھے۔ اُن کا سکہ بند بہانہ یہ ہوتا تھا کہ محبت کے سوا زمانہ میں اور بھی کئی دُکھ ہیں۔ یقینا ہیں مگر یہ آدھا سچ تھا۔ پوراسچ یہ تھا کہ خوبصورت خواتین بھی جن سے فیض صاحب یکے بعد دیگرے یا بیک وقت محبت کرتے تھے‘ اقبال کے اس شعر کی تفسیر بن جاتی تھیں۔؎ 
کون سی منزل پہ ہے کون سی وادی میں ہے
عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جان

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں