آیئے پھر تھائی لینڈ چلیں

13 نومبر کو (جب بادشاہBhumibol نے وفات پائی) قریباً ایک ماہ گزر چکا ہے مگر تھائی لینڈ کے غم زدہ لوگوں کی ماتمی کیفیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ہر قسم کی موسیقی معطل۔ رقص و سرور کی محفلیں ملتوی، عیش و عشرت کے اکھاڑے مقفل۔ ولی عہد Maha Vajikalong Korn کی تحت نشینی کی صرف تاریخ کا اعلان ہونا باقی ہے۔ وہ وفات پا جانے والے ہر دل عزیز بادشاہ کا اکلوتا بیٹا ہے اور عوامی سطح پر اُتنا ہی ناپسند کیا جاتا ہے، جتنا کہ اُس کا مرحوم والد عوام کی آنکھوں کا تارا تھا۔ ولی عہد اتنی خراب شہرت کما چکا ہے کہ اہل دربار کو سمجھ نہیں آتی کہ اُسے تخت پر بٹھائیں تو کیونکر؟ ولی عہد اُن تمام عیوب کے لئے بدنام ہے جنہیں ہم اپنی زبان میں شائستگی سے شرعی عیب کہتے ہیں (غالباًاُن کی تعداد پانچ ہے)۔ دُنیا بھر کی طوائفوں سے تعلق، ان گنت داشتائوں کی سرپرستی، فحاشی کے زمرہ میں آنے والی فضول خرچی، ملازمین تو ایک طرف رہے اپنے بچوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور وہ بھی اس حد تک کہ اُن میں سے کئی تھائی لینڈ کو چھوڑ کر غیر ممالک میں آباد ہونے پر مجبور ہو گئے۔ اُس نے اپنی بے حدبگڑی ہوئی بیوی کی خوشنودی کے لئے اُس کے پالتو کتے (Foo Foo)کو اپنے ملک کی فضائیہ میں ایئر چیف مارشل کا اعزازی عہدہ دیا تھا۔ (یہ میں اپنے پہلے کالم میں بھی لکھ چکا ہوں مگر آپ کو ابھی تک اعتبار نہیں آیا تو آپ قابل معافی ہیں۔) چند سال پہلے یہ کتا مر گیا تو بدھ مذہب کے رواج کے مطابق اُس کی آخری رسومات چار دن تک بڑے تزک و احتشام سے اداکی گئیں۔ نہ معلوم میں نے صدیوں پہلے بچپن میں کہاں ( اور کیوں) پڑھا تھا ع
جھینگر کا جنازہ ہے ذرا دُھوم سے نکلے
بے چارہ جھنیگر جتنے جتن بھی کر لے وہ شاہی کتے کی گردتک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ جس سطر سے آج کا کالم شروع ہوا تھا وہ پھر دُہراتا ہوں۔ وفات پا جانے والے بادشاہ کے جہانِ فانی سے ایک ماہ قبل چلے جانے کے باوجود اُس کا ملک شد ید غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ بہت بڑی تعداد میں ماتمی لوگ (مرحوم بادشاہ کے دل پسند رنگ کا) زرد لباس پہنے ہوئے سڑکوں کے کنارے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ 
جب اُ ن کے بہتے ہوئے آنسو رُکتے ہیں اور ہچکیاں تھمتی ہیں تو اُنہیں ولی عہد کا دھیان آتا ہے جو اتنا غیر مستحق ہونے کے باوجود اُن کے محبوب بادشاہ کے تخت پر آنے والے سال کے کسی منحوس دن ضرور بٹھا دیا جائے گا اور یہ سوچ کر وہ پھر رونے لگتے ہیں۔پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اپنی 88 سال کی عمر میں مرنے والے کی تخت نشینی کا کل عرصہ 70 سال کا تھا۔ ان 70 سالوں میں بادشاہ نے فوج کی طرف سے (بذریعہ درباری شب خون یعنیCoup ) اقتدار پر قبضہ کرنے کی تقریباً 20 کامیاب یا ناکام کوششوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ بادشاہ عزت و احترام کے اتنے بلند سنگھاسن پربیٹھا تھا کہ بڑے بڑے سرکاری افسران، وزرا اور جرنیل اُس کے حضور پیش ہوتے تو فرش پر لیٹ کر اُس کے تخت کی جانب رینگ کر اپنی وفاداری اور تابعداری کا عملی ثبوت دیتے۔ یہاں مجھے ایک نہ بھولنے والا واقعہ یاد آیا۔ میں1975ء میں برطانیہ سے لاہور گیا۔ اُس وقت کے وزیراعلیٰ محمد حنیف رامے کو اپنا ایک بھولا بسرا دوست یاد آیا تو اُنہوں نے اپنی سرکاری کار لاہوری دروازہ (جہاں میں اور میری بیوی اپنے گھر رہتے تھے) بھیجی تاکہ ہم اُن کے ساتھ ناشتہ کر کے پرانی خوشگوار یادوں کو تازہ کریں۔ میری بیوی نے تو اُس بنیاد پر میرے ساتھ جانے سے انکار کر دیا کہ رامے صاحب ہمارے ایک مشترکہ دوست (مختار رانا) کو بھٹو صاحب کے شاہی عتاب سے بچانے میں ناکام رہے تھے۔ افسوس کہ میں بادل نخواستہ چلا گیا۔چائے نوشی کے درمیان وزیراعظم (جناب بھٹو صاحب) نے اپنے وزیراعلیٰ کو یاد فرمایاتو رامے صاحب فون پر اپنے آقا کی آواز سنتے ہی احتراماً کھڑے ہو گئے۔ کھڑے ہونے کا انداز بھی بڑا مودبانہ بلکہ فدویانہ تھا۔ جب تک آقا نے بات ختم نہ کی اُن کا ایک حقیر غلام کھڑا رہا اور بھیگی بلی بنا رہا۔ بات ختم ہوتے ہی کئی منٹ بعد تک بھی رامے صاحب گم سم بیٹھے رہے۔ بزرگ و برتر آقا سے ہم کلامی کے روحانی تجربہ کی شدت نے اُن کی قوت گویائی کو سلب کر لیا تھا۔ جب مزید گفتگو کاسلسلہ جاری رکھنے کے امکانات معدوم ہو گئے تو میں نے اجازت لی اور گھر واپس آگیا۔ میری بیوی نے اپنی ناراضگی اور غصہ کے اظہار کے لئے چپ سادھ لی۔ بڑی مشکل سے بعد دوپہر معافی 
ملی۔ رامے صاحب اب اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔ جہاں وہ ہمہ وقت معافیاں مانگنے میں مصروف رہتے ہوں گے۔ (غالباً اُن کے دُنیاوی آقا کا بھی یہی حال ہوگا) ۔ یقینا ہم سب کا یہی حال ہوگا۔ ع
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
آپ جانتے ہیں کہ ہر سماجی اور معاشی نظام اپنے حساب کے رسم و رواج اور اقدار کو جنم دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم آج بھی جس دور میں زندہ ہیں۔ وہ شفق کی مانند ہے۔ایک نظام ڈوب رہا ہے مگر دُوسرا ابھی پوری طرح طلوع نہیں ہوا۔ نو آبادیاتی (یعنی Colonial ) نظام جسے صدیوں تلک غیر ملکی حکمرانوں (پٹھانوں۔ مغلوں اور آخر میں انگریزوں) نے پال پوس کر جوان کیا۔ مستحکم بنایا۔ اتنا مستحکم کہ اس کی جڑیں نہ صرف ہمارے سماج کے ہر شعبہ میں بلکہ ہمارے ذہنوں میں۔ ہمارے جسم کی ہڈیوں میں ہمارے خون کے ذرّات میں جذب اور پیوست ہو گئیں۔ میں نے شفق کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ یہ نظام ابھی تک ہمارے ہر اُفق پر زندہ و تابندہ ہے۔ رُوبہ زوال ہے مگر مکمل غروب ہر گز نہیں ہوا۔ اک جدید (Modern)شہری (Urban) ۔ صنعتی اور تجارتی نظام اُبھر رہا ہے۔ دوسری طرف صدیوں پرانا جاگیرداری نظام ہے ۔ یہ دونوں نظام اپنی اپنی اقدار کے ستونوں پر قائم ہیں۔ ان کی اقدار آپس میں متضاد ہیں۔ وہ ایک دُوسرے سے ٹکراتی ہیں اور ایک دُوسرے کی نفی کرتی ہیں۔ میں نے مذکورہ بالا سطور میں جس شخص کا ذکر کیا وہ پاکستان میں دُوسرے بڑے سیاسی عہدہ پر فائز تھا،چونکہ سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ تھا، مگر اُسے اس گدی پر بٹھانے والا شخص اُس کا محسن اور اُس کا آقا تھا۔ سیاہ و سفید کا مالک۔ رامے صاحب کو وزارت اعلیٰ اپنی سیاسی قوت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ بطور انعام ملی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انعام دینے والے کے طرف اُن کا رویہ حد درجہ کا خوشامدانہ تھا۔ اس طرح کا رویہ مجھے برطانیہ میں نصف صدی لمبے قیام کے دوران ایک بار بھی دکھائی نہیں دیا اور نہ سنائی دیا۔ چونکہ برطانیہ جس جدید دور میں کم از کم ایک صدی قبل داخل ہو چکا ہے، اُس میں خوشامد کی کوئی گنجائش نہیں۔ سماجی رویے تلقین اور تبلیغ سے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی سے خود بخود بدل جاتے ہیں۔ پاکستان میں اُن لوگوں (جن کی تعداد لاکھوں میں ہے) کی سادہ لوحی سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ وہ شاید میری طرح کے بوڑھے لوگوں کے لئے غم و غصہ کا باعث بھی بن جاتی ہے جو کہ موجودہ نظام کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتے ہیں یا دُوسرے الفاظ میں اس کی تبدیلی پر زیادہ اصرار نہیں کرتے مگر وہ مالی بدعنوانی، کرپشن، لوٹ مار، رشوت ستانی، استحصال اور ٹیکس چوری جیسی بڑی مہلک اور موذی برائیوں کے خلاف حالتِ جنگ میں رہتے ہیں۔ ایسے نیک دل مگر بے سمجھ لوگوں کا خواب کبھی پورا نہ ہوگا۔ اگر آپ برف پوش پہاڑوں پر رہتے ہیں تو تپتے ہوئے صحرائوں کا لباس کس طرح پہن سکتے ہیں؟ ایک نظام میں رہنے والوں کی انفرادی نیکی اجتماعی بدی پر کبھی غالب نہیں آسکتی۔ ہوتا یہ ہے کہ انفرادی نیکی کی برکت سے (جس طرح کا بے حد اچھاکام ڈاکٹر امجد ثاقب اور اُن جیسے دُوسرے فرشتہ صفت لوگ کر رہے ہیں) ''گراں خواب چینی‘‘ (اقبال کے الفاظ میں) سنبھلنے لگتے ہیں اور وہ سنبھل جائیں تو ہمالہ کے چشمے بھی آگے چل کر اُبلنے لگتے ہیں۔ یہ چشمے پھوٹ پڑیں تو اک نئی صبح طلوع ہوتی ہے۔ وہ طلوع ہو جائے تو پھر اقبال ہم سے مخاطب ہوکرکہتے ہیں۔ ع
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
آج کا کالم شروع ہوا تھا۔ دُنیا سے چلے جانے والے ایک بادشاہ کے تذکرہ سے۔ آگے چل کر رامے صاحب اور بھٹو صاحب کی فون پر گفتگو کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا گیا۔ چلتے چلتے ہم ڈاکٹر امجد ثاقب تک جا پہنچے جو ہمیں زندہ لوگوں کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے کمال کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہاں میں اُن کانام بطور استعارہ استعمال کر رہا ہوں۔ وہ تبدیلی کی علامت ہیں۔ وہ انفرادی نیکی کی چابی سے اجتماعی جمود کے زنگ آلودہ قفل کو کھولنا چاہتے ہیں۔ جدلیات کے مسلمہ اور مستند اُصول اُن کی حمایت کرتے ہیں۔ تاریخ کے سبق اُن کی تائید کرتے ہیں۔ کم نظر لوگوں کا ساری توجہ سیاسی نظام کے بالائی ڈھانچہ (Super Structure) پر مرکوز رہتی ہے۔ وہ اندرونی ڈھانچہ(Infra Structure) کے کلیدی مقام سے غافل رہتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اُن ستونوں اور سماجی روّیوں کو بدلنے کے لئے اتنا قابل تعریف اور زبردست کام کر رہے ہیں۔ جن کے اُوپر موجودہ گلا سڑا نظام کھڑا ہے ۔ آیئے ہم سب اُن کاساتھ دیں۔ اور گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں