کیاخوب قیامت کاہے کوئی دن اور

غالب نے اپنے جواں مرگ عزیز بھانجے عارف کا مرثیہ لکھا اور الطاف حسین حالی نے غالب کا۔ دونوں نے کمال کر دیا۔ آج کے کالم کا عنوان غالب کے لکھے ہوئے مرثیہ کے چوتھے شعر کا دُوسرا مصرع ہے۔ آج سے 32 سال پہلے 1984 ء میں وسطی بھارت کے مشہور شہر بھوپال (اقبال اُس کے فرماں روا نواب کے کئی بار مہمان بنے) میں صبح کی روشنی کیا پھیلی قیامت بھی ٹوٹ پڑی۔ آدھی رات کے بعد ایک امریکی کمپنی Union Carbide کی کیڑے مار دوائی بنانے والے کارخانہ سے گیس کے دھوئیں کا بادل موت بن کر نکلا۔ کارخانے کی مشینری کی نگہداشت کرنے والوں کی بدترین مجرمانہ غفلت اس حادثہ کی ذمہ دار تھی۔ مذکورہ بالا صنعتی ادارہ ایک بہت بڑی امریکی کمپنی Dow Chemical کی ملکیت ہے۔ زہریلی گیس نے سولہ مربع میل میں آباد شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آناً فاناً لاکھوں بوڑھوں۔ عورتوں اور بچوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ اتنے درد ناک عذاب میں مبتلا کر دیا کہ اُسے بیان کرنا اس کالم نگار کے بس کی بات نہیں۔ فیکٹری کی انتظامیہ نے مہلک زہریلی گیس کے شکار ہونے والوں کی کل تعداد گنی تو وہ 573,588 بنی۔ (یعنی پونے چھ لاکھ افراد)۔ ان میں 94% متاثرین کو صرف 500 ڈالر فی کس معاوضہ ادا کئے گئے۔ برونائی اور عرب ممالک کی ارب پتی لوگوں نے متاثرین کے طبی علاج کے اخراجات ادا کرنے کی اپیل سنی ان سنی کر دی اور اپنے ''باوضو‘‘کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ برطانیہ کے تمام اخباروں میں ایک خیراتی تنظیم (بھوپال میڈیکل اپیل) ہر سال اس حادثہ کی برسی پر بڑے بڑے اشتہار دے کر چندہ مانگتی ہے اور کروڑوں پائونڈ اکٹھے کر کے بھوپال کے اُن لوگوں کے بہترین علاج کا بندوبست کرتی ہے۔ جن سے اس کا مذہب‘ قومیت‘ زبان‘علاقہ اور تہذیب و معاشرت کا کوئی رشتہ نہیں۔ صرف ایک ہی رشتہ ہے‘ جسے 32 سال کا وقفہ اور6 ہزار میل کا فاصلہ بھی کمزور نہیں کر سکا اور وہ رشتہ ہے انسانیت کا۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ آج کی نوجوان نسل نے المیہ بھوپال کا نام بھی نہ سنا ہوگا۔ غالباً یہ صنعتی دور کا سب سے مہلک اور تباہ کن حادثہ تھا جو جانی نقصان کے اعتبار سے بے مثال تھا۔ براہ مہربانی آپ یہ نہ سوچیں کہ مندرجہ بالا سطور اس لئے لکھی گئیں کہ وُہ برطانیہ کے معیاری اخبار گارڈین میں شائع ہوئیں۔ برطا نیہ کے بہترین اخبار کا اس کالم میں اکثر حوالہ دیا جاتا ہے۔ اُس کی سات دسمبر کی اشاعت میں ادارتی صفحہ پر ایک عوام دوست اور انقلا بی ذہن رکھنے والے دانشورGeorge Monbiot کا جو تہلکہ مچا دینے والا مضمون شائع ہوا آپ اُس کا عنوان پڑھ کر ہی چونک جائیں گے اور وہ یہ تھا۔No country with a McDONALD's can remain a Decmocracy جس کا ترجمہ یہ ہے۔ ''کسی بھی ملک میں جس میں (برگر کھلانے والی کمپنی) میکڈانلڈ کاروبار کر رہی ہے‘ جمہوری نہیں رہ سکتا۔‘‘ بھوپال میں زہریلی گیس کے اخراج کے ذریعہ لاکھوں افراد کی تکلیف دہ موت کی ذمہ دارکمپنی Dow Chemical کا صدر مقام تو امریکہ میں ہے مگر وہ ایک بین الاقوامی کمپنی ہے‘ میکڈانلڈ کی طرح۔ وہ امریکہ جس کے لوگوں نے حال ہی میں ایک عوام دُشمن کو اپنا نیا صدر چنا ہے‘ اُس کی آبادی کے پندرہ فی صد لوگ برگر کلچر کا قابل رحم شکار بن کر ذہنی پسماندگی کی اتنی نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ امریکہ پر جرنیلوں کی حکومت کی حمایت میں آواز بلند کرنے میںشرمندگی محسوس نہیں کرتے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے لائق فائق کالم نگار Thomas Friedman نے ایک بار یہ دلچسپ بات لکھی کہ کوئی ایسے دو ملک جن میں میکڈانلڈ کی شاخیں کام کرتی ہیں‘ کبھی ایک دُوسرے کے خلاف میدان جنگ میں نہیں اُتریں گے۔ 
برونائی سے لے کر مشرق وسطیٰ تک اُن مسلمانوں کی تعداد ہزاروں میں ہوگی جو ارب پتی(روپوں میں نہیں ڈالروں میں ارب پتی) ہیں۔ وہ اتنے سنگ دل ‘ اندھے ‘ بہرے اور بے رحم ہیں کہ نہ اُنہیں بھوپال کے مسلمان ستم زدگان نظر آتے ہیں اور نہ برما کے۔ اگر آپ دُنیا کے سب سے معتبر ہفت روزہ اکانومسٹ اپنے اخبار فروش سے حاصل نہیں کر سکتے تو آپ اس کا 24 دسمبر کو شائع ہونے والے خصوصی کرسمس شمارہ کے 76/77 صفحات Web پر پڑھ لیں جن میں برما کے دس لاکھ روہنگیا نسل کے مسلمانوں کے بارے میں ایسی پریشان کر دینے والی رپورٹ شائع ہوئی ہے جو ہر اُس مسلمان کو جو دُنیا بھر کے مسلمانوں سے تھوڑا سا بھی رشتہ محسوس کرتا ہے‘ تڑپا دے گی۔ کیا حرمین شریفین کے محافظوں پر دُنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری لاگو نہیں ہوتی؟ کیا اسلامی ممالک کی کاغذی تنظیم ( OIC) نیم مردہ ہے یا بالکل مردہ؟ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی اقتدار کی جنگ میں اس قدر اُلجھی ہوئی ہیں کہ اُنہیں برما کے لاکھوں مسلمانوں کی حالت زار نظر نہیں آتی۔ یہ ان لوگوں کا کردارہے جن کے پاس اسلام کے قلعہ کے دروازوں کی چابیاں ہیں۔ کیا کل جماعتی وفد جلد از جلد رنگون نہیں جاسکتا تاکہ وہاں کی خاتون راہنما (جس کی انسان دوستی کا پول کھل گیا ہے) Aung San Sui Kyi کو مل سکیں اور اپنی فریاد ایک طرف اقوام متحدہ تک پہنچائیں اور دُوسری طرف انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے رابطہ کریں۔ مجھے خیال آتا ہے کہ جب میرے آبائی ملک میں اتنے بڑے بڑے اخبارات ‘ ٹیلی ویژن چینل‘ مذہبی اور سیاسی راہنما اور سکہ بند کالم نگار دن رات بولنے۔ لکھنے اور حالات حاضرہ کے پروگرام دکھانے میں مصروف ہیں تو آپ کے اس کالم نگار کا یہ منصب کسی لحاظ سے نہیں بنتا کہ وہ مذکورہ بالا افراد اور اداروں کے ضمیر کو جگائے اور اُن کی خدمت میں دست بستہ گزارش کرے کہ وہ اپنا اخلاقی فرض پورا کریں۔ کتنا اچھا ہو کہ اس نیک کام میں میرے قارئین کرام میرا ہاتھ بٹائیں ہفت روزہ اکنامسٹ کی جس دل ہلا دینے والی رپورٹ کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اُس کا عنوان ہے۔ The Lady Failed to speak out (خاتون راہنما‘ جو (روہنگیا مسلمانوں کی حمایت میں) بولنے میں ناکام رہی)۔ اس جریدہ کے مدیر کی مروّت اور آنکھ کی شرم نے اسلامی ممالک کے راہنمائوں پر لاٹھی چارج (جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے) کی اجازت نہ دی۔ اس کالم میں زیر زبر کی چھوٹی سی غلطی ہو جائے‘ شاعر کا نام ذوق کی بجائے داغ لکھ دُوں‘ ساحر لدھیانوی کا تعلق اُن کے آبائی وطن (لدھیانہ) سے توڑ کر جالندھر پور سے جوڑ دوں‘تو میں اس غلطی پر معافی مانگتا ہوں اور نشاندہی کرنے والے کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مگر یہ سب غلطیاں اتنی معمولی ہیں کہ انسانی زندگی پر ہر گز اثر انداز نہیں ہوتیں۔ کالم نگار تلخ نوائی کی معافی چاہتا ہے کہ وہ اپنے قارئین تک یہ شکایت ان سطور کے توسط سے پہنچانا چاہتا ہے کہ وہ اپنا سارا وقت فـضول اور فروعی مسائل پر بے کار بحث کرنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ جو لوگ اپنی ساری توجہ ہاتھی کی دُم پر مرکوز رکھتے ہیں‘ اُنہیں ہاتھی نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں کروڑوں افراد رہتے ہیں۔ محنت کشوں سے لے کر پروفیسر‘ وکلا‘ کالم نگار صحافیوں اور دانشوروں تک۔ وہ رائے عامہ کو منظم کیوں نہیں کرتے؟ وہ زبان خلق کیوں نہیں بن جاتے؟ ایسی زبان خلق جو نقارّہ خدا ہوتی ہے۔ اس کالم کی کئی چھوٹی غلطیاں (جو کسی صورت نہیں ہونی چاہئیں)قارئین کے عتاب کو دعوت دیتی ہیں۔ (میں خوش ہوں کہ یہ ضرور ہونا چاہئے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ پہاڑ کھود کر مردہ چوہا برآمد کرنے والوں اور اس کارنامہ پر اپنے آپ کو شاباش دینے والوں کو پہاڑ نظر نہیں آتا‘کیوں نہیں آتا؟ کیا اُس وقت نظر آئے گا جب بقول غالب ؔ ع
خاک ہو جائیں ہم تم کو خبر ہونے تک
آپ ذرا سوچئے گا کیا آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہمارے راہنما (جب عادت اور حسب معمول) ایک دُوسرے کو للکارتے رہیں‘ آستینوںکو چڑھائے رکھیں‘ اپنے مخالفین کے پرخچے اُڑاتے رہیں۔ کیا میری یہ دُعاقبول نہیں ہو سکتی کہ وہ ساری لڑائیاں جنہوں نے خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ ایک ہفتہ کیلئے معطل کرتے ہوئے برما جائیں۔ ایران‘ سعودی عرب‘ یمن اور ترکی بھی جائیں اور اُن کے حکمرانوں کے سامنے (برما کے مسلمانوں کے حوالے سے) اپنی عرضداشت پیش کریں۔ ا گر وہ برما اور مشرقی وسطیٰ جانے سے قاصر ہوں تو پھر اسلام آباد میں ان کے سفیروں کو ہی مل لیں۔ اگر وہ یہ زحمت بھی نہ اُٹھا سکے (جس کا زیادہ امکان ہے) تو تاریخ اُن کے بارے میں وہ لکھے گی۔ جو غالب نے اپنے بارے میں لکھا تھا ع
اے رُوسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں