کُھل جا سِم سِم

اگر آپ نے میری طرح اپنے بچپن میں حیرت کے سمندر میں ڈوب کر ایک الف لیلوی کہانی پڑھی ہے، جس کا نام علی بابا اور چالیس چور تھا تو آپ جانتے ہوںگے کہ خزانوں سے بھری ہوئی غار کا بند دروازہ کھولنے کے لئے جو خفیہ کوڈ بیان کیا گیا تھا وہ ان چار الفاظ پر مشتمل تھا۔۔۔ ''کھل جا سِم سِم‘‘۔ میں ساری عمر اسی کوڈ کو یاد رکھنے کے لئے بار بار دُہراتا رہا کہ ایسا نہ ہو کہ خزانہ سامنے ہو اور مجھے دروازہ کھولنے کے لئے مذکورہ کوڈ نہ آتا ہو اور مجھے ساری عمر غربت میں گزارنی پڑے اور کفِ افسوس ملتے ملتے مرے ہاتھوں کا اتنا ہی برُا حال ہو جائے جو اُردو شاعری میں ہمارے بدنصیب عشاق کی پیشانی کا سر سنگدل محبوب کی اتنی ہی پتھریلی دہلیز پر بار بار رگڑنے سے ہوجاتا ہے۔ 
لطیفہ یہ ہے کہ مجھے کوڈ تو بخوبی یاد رہا مگر خزانہ نظر نہ آیا۔ لگتا ہے کہ اُس وقت نظر آئے گا جب میں بڑھاپے کے باعث کوڈ بھول چکا ہوںگا۔ آکسفورڈ اُردو انگریزی لغات کے صفحہ 1565 کے مطابق Sesame کا لفظی معنی تِل ہے۔ یہ وہ تِل نہیں جو محبوب کے چہرہ پر نظر آجائے تو حافظ جیسا غیر ذمہ دار شاعر اُس کے بدلے آدھی سلطنت سے ہاتھ دھونے پر تیار ہو جاتا ہے۔ یہ وہ تِل ہے جو اہل لاہور اپنے کمال کے کُلچوں کو لگا کر کھاتے ہیں اور یہ بھی نہیں پوچھتے کہ ان تِلوں میں تیل ہے یا نہیں؟ ہو نہ ہو کھانے والوں کی بلا سے۔
برطانیہ سے شائع ہونے والے ایک مستند اور معتبر ہفت روزہ اکانومسٹ کے کالم میں بار ہا اس کا ذکر آیا ہے اور آتا رہے گا۔ آج اس کا پھر ذکر کرنا اور حوالہ دینا اس لئے ضروری ہے کہ اس کے 24 دسمبر کی شمارہ کے صفحہ 108(آپ Web پر خود بھی پڑھ لیں) پر جو چونکا دینے والا مضمون شائع ہوا، اُس کا عنوان ہے Open Sesame (کھل جا سِم سِم) یہ نام ہے اُس سائنسی تجربہ گاہ کا جو اُردن کے دارالحکومت عمان کے شمال مغرب میں 30 میل کے فاصلے پر 79 ملین ڈالر کی لاگت سے بنائی گئی ہے۔ منصوبہ مکمل ہونے میں 20 سال لگے۔ اگر میں آپ کو بتا دُوں کہ کون سے نو ممالک کو اس منصوبے کی ولادت کا شرف حاصل ہے تو آپ کو 20 سال لگ جانے کی وجہ سمجھ آجائے گی۔ وہ نام یہ ہیں: اسرائیل، پاکستان (دوبارہ لکھتا ہوں پاکستان)، فلسطین، ترکی، قبرص (حالانکہ ترکی اسے تسلیم نہیں کرتا)، ایران، بحرین، مصر اور میزبان ملک اُردن۔ اس تجربہ گاہ میں جو معجزاتی مشین نصب کی گئی ہے اُسے Synchroton کہتے ہیں۔ اس مشین کا ایک بڑا بھائی بھی ہے جو کئی گنا مہنگا ہے اور اُس نے جنیوا کے قریب ایک زیر زمین غار کو اپنا مسکن بنایا ہے۔ (اسم شریف ہےLarge Hadron Collider) اکانومسٹ نے Sesame کا جس مشکل زبان میں تعارف کرایا ہے وہ اس کالم نگار (جو ایف ایس سی کا مرحلہ طبیعات کے مضمون میں فیل ہو جانے کی وجہ سے طے نہ کر سکا) کو اچھی طرح سمجھ میں نہیں آیا۔ اب میں اپنے قارئین کو کس طرح سمجھائوں؟ سادہ اور عام فہم الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ بڑے بڑے مقناطیسوں کے درمیان Electrons ، 133 میٹر کے دائرہ میں اتنی تیزی سے گھومیں گے کہ اُن سے Infrared سے لے کر ایکس رے تک ریڈیائی شعائیں نکلیں گی جو ہر شے کے اندر جھانکنے (یعنی اس کی اصلیت پہچاننے ) کے کام آئیں گی۔ برطانیہ میں بھی اس طرح کی ایک تجربہ گاہ کئی سالوں سے کام کر رہی ہے جس کے بنانے پر کئی گنا زیادہ یعنی 530 ملین ڈالر خرچ ہوئے۔ 
مذکورہ تجربہ گاہ کے بارے میں تین باتیں قابل ذکر ہیں جن کا اکانومسٹ نے خصوصی طور پر ذکر کیا۔ اوّل، یہ منصوبہ پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم کے ذہن کی پیداوار ہے۔ دوئم، دو بڑے جرمن سائنس دانوں Harman Winice اور Gust Adulf Vus نے اس تجربہ گاہ کو جرمنی کے دارالحکومت برلن سے مشرق وسطیٰ منتقل کرنے کا مشکل کارنامہ سرانجام دیا۔ سوئم، اس تجربہ گاہ کے موجودہ انگریز سربراہ Sir Christopher Smith نے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اٹلی سے استعمال شدہ پرزے خرید کر اُنہیں قابل استعمال بنایا، جس سے اخراجات میں چار ملین ڈالر کی بچت ہوئی۔ 
یہ کالم نگار جانتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک معاصر اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ دُوسرے بڑے سائنس دان جناب ثمر مبارک مند ہیں جو نہ کالم لکھتے ہیں اور نہ اپنے رشتہ داروںکو لاہور کے میانی صاحب میں میرے سسرالی قبرستان کے ایک حصے پر قابض ہونے سے ر وکتے ہیں۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے بعد ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی ساری توجہ سندھ میں زیر زمین کوئلے کے اربوں ٹن ذخائر پر مرکوز ہے۔ میں ان سطور کے ذریعے ان دونوں عالمی شہرت کے سائنس دانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ جب پاکستان مذکورہ منصوبے کے نو بانی ممالک میں ایک بنا تو اسرائیل سے اتنی قربت کے نامناسب ہونے پر ریڈیائی شعاعوں کی دریافت کا جنون کیوں غالب آیا؟ پاکستان کے چوٹی کے کالم نگاروں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وُہ ازرہ کرم دریافت کریں کہ اس منصوبے میں پاکستان کی شرکت کا فیصلہ کس حکومت نے کیا اورکیوں کیا؟ چودھراہٹ تو کبھی مفت نہیں ملتی۔ پاکستان نے یقیناً تجربہ گاہ کے بنانے میں کروڑوں ڈالر بھی دیے ہوںگے۔ وہ کس بجٹ میں دکھائے گئے اور حکومت نے کن سائنس دانوں سے مشورہ کیا اور اُنہوں نے کیا مشورہ دیا؟ اور ہمیں اس تجربہ گاہ سے کیا فائدہ ہوا؟ 
اس کالم کو معلوماتی کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہونا چاہیے چونکہ یہ پڑھنے والوں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر سردیوں کی شام کو دہکتی آگ کے آتش دان کے سامنے بیٹھ کر اس طرح لکھا جاتا ہے جیسے میں آپ کے ساتھ لاہور کے اندرون شہر کے کسی تھڑے پر بیٹھا ہوں یا سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے ایک گائوں (تلونڈی عنایت خان) میں سردیوں کی دھوپ (بشرطیکہ دھند نہ ہو) میں چارپائی پر بیٹھ کر اپنے گرائیوں سے باتیں کر رہا ہوں۔
برطانیہ میں کرسمس کی تعطیلات ہوں تو میرے لئے پڑھنے لکھنے کا اس سے سنہری موقع اور کون سا ہو سکتاہے؟ صرف ایک بات کا دل پر بوجھ رہتا ہے کہ کالم لکھنے اور پڑھنے کے درمیان ایک ماہ کا وقفہ آجاتا ہے۔ 24 دسمبر کو لکھی گئی سطور 24 جنوری کو پڑھی جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سطور اُس تازگی سے محروم رہتی ہیں جو پاکستان میں رہنے والے کالم نگاروں کی تحریروں کی نمایاں خوبی ہوتی ہے۔ میں اپنے قارئین کا احسان مند ہوںکہ وہ ان باسی تحریروں کی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اُس جذبہ کی قدر کرتے ہیں جو ایک بوڑھے اور مصروف وکیل سے یہ سطور ہر سال 52 دفعہ لکھواتا ہے اور (بشرطِ زندگی) سالہا سال لکھواتا رہے گا۔ سیانے کہتے ہیں کہ پہلے تولو اور پھر بولو۔ ''پینڈو‘‘ کالم نگار پہلے لکھتا ہے، جو دل میں آئے بے ساختہ لکھ دیتا ہے اور جب چھپ کر سامنے آجائے تو پھر تولتا ہے۔ اب بتائیں کہ اُس مرحلے پر تولنے کا کیا فائدہ؟ پھر بھی میں سرخ سیاہی کا قلم ہاتھ میں لے کر اس طرح پڑھتا ہوں جیسے کسی اور کی تحریر ہو اور اُس پر سرخ لکیروں کی وہ بھرمار کر دیتا ہوں کہ وہ کالم سے زیادہ لالہ موسیٰ کا ریلوے اسٹیشن نظر آتا ہے۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ چڑیاں تو کھیت سے دانہ دُنکا چن کر اُڑ گئیں۔ اب پچھتانا دُوسری بڑی غلطی ہوگی۔
قریب تھا کہ اپنے قارئین کو خدا خافظ کہہ کر اجازت لیتا کہ ایک ایسی خبر پر نظر پڑی کہ جم کر رہ گئی۔ میں اپنے قارئین کو بھی اپنی حیرت کے نہ ختم ہونے والے دائرے میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی خبر ایک برطانوی مقبولِ عام ( POP) گلو کارہ Adele کے ہونے والے کنسرٹ کے بارے میں ہے، جس کے ایک لاکھ ٹکٹ ایک سال پہلے فروخت ہو چکے ہیں اور اب اتنے ناپید ہیں کہ بلیک مارکیٹ میں نو ہزار پائونڈ (گیارہ لاکھ 88 ہزار روپے) فی ٹکٹ کے حساب سے فروخت ہو رہے ہیں۔ دُوسری خبر کا تعلق برطانیہ کی ایک گیس کمپنیWPP کے افسر اعلیٰSir Martin Sorrel کی تنخواہ سے ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے اس کمپنی کے ڈائریکٹر گواہی دینے کے لئے پیش ہوئے تو اُس کے سربراہ نے یہ انکشاف کیا کہ وہ موصوف کو 70 ملین پائونڈ سالانہ یعنی قریباً ساڑھے پانچ ملین پائونڈ ماہانہ (آپ اس رقم کو روپے میں خود تبدیل کر لیں) تنخواہ دیتے ہیں تاکہ وہ اس کمپنی کو چھوڑ کر کسی اور سرسبز چراگاہ کی طرف نہ چلے جائیں۔ تیسری اور آخری خبر پڑھنے کے لئے آپ ایسے درخت پر چڑھنے کے لئے اپنے جوتے اُتارنے، آستین چڑھانے اور نعرہ لگانے کے لئے تیار ہو جائیں، جس کی بلندی 83 میٹر ہے (یعنی 27 منزلہ عمارت کے برابر) نام ہے Sequoia اور گھر کا پتہ ہے امریکہ کےSirea Nevada نامی علاقہ کا Calaverm Big Trees Staff Park ۔ جب تک آپ یہ سطور پڑھیں گے، امریکہ کی صدارت کی کرسی پر وہ شخص برا جمان ہو چکا ہوگا جو کسی مسلمان کو امریکی ویزا دینے کے حق میں نہیں ہے، چاہے امریکی ویزا لینے کے خواہش مند مسلمان سیاح کے دل میں صرف ایک معصوم خواہش ہو اور وہ ہے دُنیا کے سب سے اُونچے درخت پر چڑھنا اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اُس کے 100 فٹ موٹے تنے کو صرف ہاتھ لگانا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں