یہ داغ داغ اُجالا

آج کے کالم کا عنوان فیض صاحب کے اُس مصرع کے پہلے چار الفاظ ہیں۔ جس کے باقی چار الفاظ ہیں۔ ''شب گزیدہ سحر‘‘ یعنی وہ صبح جسے رات نے سانپ بن کر ڈس لیا ہو اور اب وہ زہر آلود ہو چکی ہے۔ وہ اُجالا جو داغدار ہواس کے الفاظ کسی وضاحت کے محتاج نہیں۔ غالباً فیض صاحب نے یہ مصرع پاکستان کے بارے میں لکھا تھا مگر فروری 2017ء میں جو معلومات ہمارے سامنے آئی ہیں۔ فیض صاحب کے مذکورہ بالا تصویر کھینچ دینے والے مصرع کے آٹھ کے آٹھ الفاظ کا پاکستان سے بھی زیادہ اطلاق بھارت پر ہوتا ہے۔ اگر اطلاق کے لفظ کا استعمال درست نہیں تو پھر یوں لکھنا چاہئے کہ وہ بھارت پر صادق آتے ہیں۔ یعنی وہ بھارت کے سیاسی منظر نامہ کی بہتر عکاسی کرتے ہیں۔
امریکہ کی ایک یونیورسٹیYale کا شمار دُنیا کی دس بہترین درسگاہوں میں ہوتا ہے۔ آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ کی طرح اس یونیورسٹی کا اپنا اشاعت گھر ہے جو نہایت اعلیٰ درجہ کی کتابیں شائع کرتا ہے۔ Yale کے یونیورسٹی پریس سے کتاب کی اشاعت ہی بذات خود اُس کے بلند علمی درجہ کی گواہی دیتی ہے۔ سال نو میں اس اشاعت گھر نے Milan Vaishnav کی 410 صفحات پر مشتمل جو کتاب شائع کی آپ کو اُس کا نام پڑھ کر ہی اُس کے مندرجات کا اُسی طرح بخوبی علم ہو جائے گا جس طرح غالب کو قاصد کی واپسی سے پہلے ہی یہ پتہ چل جاتا تھا کہ اُن کا محبوب اُن کے خط کے جواب میں کیا لکھے گا اس لئے وہ انتظار کے لمحات کو اپنا دوسرا خط لکھنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ When crime pays: Money and muscle in Indian politics یہ کالم نگار دور حاضر کی جن تین بڑی نعمتوں سے محروم ہے (اور محروم رہنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے) وہ ہیں، ٹیلی ویژن، سنیما گھر میں دکھائی جانے والی فلمیں (خصوصاً بھارتی فلمیں) اور کمپیوٹر کی کرامات۔ میرے خیال میں میرے قارئین اس کالم نگار جتنے بدذوق نہیں غالباً وہ بھارتی فلموں سے اس حد تک واقفیت ضرور رکھتے ہیں کہ وہ مذکورہ بالا کتاب کے بیانیہ کو بہت سی بھارتی فلموں کے پلاٹ کی صورت میں کئی بار دیکھ چکے ہوں گے۔ ہمارے ہاں بننے والی فلمیں عام طور پر حقیقت سے اس حد تک دُور ہوتی ہیں اور اتنی مبالغہ آرائی۔ عقل سلیم کی پامالی۔ انہونی کو ہونی بنا کر پیش کرنے کے فن پر مبنی ہوتی ہیں کہ دیکھنے والے کو ہر گز پتہ نہیں چلتا کہ سچ کہاں ختم ہوا اور جھوٹ کی سرحد کہاں سے شروع ہوئی؟ اس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ کو یہ مان لینے میں کوئی دُشواری یا ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے کہ جن بھارتی فلموں میں ایک بڑے امیر آدمی کو دولت کے بل بوتے پر کئی جرائم کا ارتکاب کرنے اور پھر غنڈہ گردی کرنے اور آگے چل کر ان خوبیوں کی بدولت سیاسی کامیابی حاصل کرنے اور قانون کی شکنجہ سے نکل جانے کے جو مناظر دکھائے جاتے ہیں وہ سو فیصدی نہیں تو کم از کم 60/70 فیصدمذکورہ سچائی کے اتنے قریب ہیں کہ آپ Yale یونیورسٹی کی شائع کردہ کتاب کے خریدنے پر 60 ڈالر (یا25 پائونڈ) خرچ کرنے کے صدمہ سے بآسانی بچ سکتے ہیں۔
اب آیئے اس کتاب پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ مصنف کی تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو سزا یافتہ ہیں یا جن پر سنگین جرائم کے ارتکاب کا الزام لگ چکا ہے۔ بھارتی انتخابات میں اُن کی کامیابی کے امکانات اچھے کردار کے مالک لوگوں سے تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ مصنف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ عالمی شہرت کے تحقیقی ادارے Carnegie Endowment for International Peace سے وابستہ ہے۔ اُس نے جن بدکردار افراد کے عیوب کی فہرست گنائی ہے وہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی یا معمولی قانون شکنی کی بجائے قتل، بلیک میل، ڈاکہ دہی اور اغواء کرنے والوں کی اعانت جیسے سنگین جرائم پر مشتمل ہے۔ مصنف نے اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ کے نچلے ایوان (لوک سبھا) کے ایک تہائی اراکین کے خلاف سنگین فوجداری جرائم کے ارتکاب کا استغاثہ دائر کیا چکا ہے۔ ان ملزموں پر عدالت میں مقدمہ چلنے کی نوبت اس لئے نہیں آئی کہ بھارتی عدالتوں میں کل تین کروڑ دس لاکھ مقدمات سرد خانہ میں پڑے ہیں اس لئے ایک نئے فوجداری مقدمہ کی سماعت میں کم از کم دس سال لگ جاتے ہیں۔ اگر مغربی بھارت کے شہربمبئی سے بھارت کے شہر کلکتہ تک کا سفر پیدل کیا جائے تو ہم کسی ایک ایسے حلقہ انتخاب سے نہیں گزر سکتے جس کے رُکن پارلیمنٹ کو کسی نہ کسی سنگین جرم میں عدالتی کارروائی کا ایک نہ ایک دن سامنا نہ کرنا پڑے گا۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ برطانوی راج کے خاتمہ کے بعد بھارت میں جرائم پیشہ لوگ سیاست دانوں کو رشوت دے کر یا اُن کی انتخابی سیاست میں سرمایہ کاری کر کے اپنی آپ کو قانون کے لمبے ہاتھوں سے محفوظ کر لیتے تھے۔1947 ء سے لے کر 1980 ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب کانگریس کی مقبولیت ختم ہونے لگی تو جرائم پیشہ افراد کسی سیاست دان کو الیکشن میں کامیاب کرانے کی بجائے خود سیاسی میدان میں اُتر کر کامیابی حاصل کرنے لگے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جس شخص پر عائد کردہ فوجداری استغاثہ جتنے زیادہ سنگین جرم کا ہوگا اُس کی سیاسی کامیابی کا امکان اُسی تناسب سے بڑھ جاتا ہے۔ بھارت کا انتظامی ڈھانچہ اس حد تک گل سڑ چکا ہے کہ ووٹروں کی رائے میں (اور یہی انتخابات نے بار بار ثابت کیا ہے) جو شخص جتنا زیادہ بڑا بدمعاش ہوگا وہ اُنہیں (خصوصاً غریب لوگوں کو) سرکاری افسروں کی لوٹ مار اور مار دھاڑ سے اُسی تناسب سے بچا سکے گا اور اُنہیں مقامی سطح پر ہونے والی ہر قسم کے غنڈہ گردی سے محفوظ رکھ سکے گا۔ یہ ہے ووٹ ڈالنے والوں کی اجتماعی دانش کا مظاہرہ جو ہم بھارت کے طول و عرض میں ہونے والے یکے بعد دیگرے تمام انتخابات میں دیکھتے چلے آئے ہیں اور نہ جانے کب تک دیکھنے کا صدمہ اُٹھاتے رہیں گے؟
برطانوی راج میں جس صوبہ کا نام United Province (U.P) رکھا گیا وہ بھارت کو نام نہاد آزادی مل جانے کے بعد اُتر پردیش بن گیا مگر نام کے اعتبار سے U.P ہی رہا۔ اگر وہ ایک آزاد ملک ہوتا تو آبادی میں برازیل سے بڑا۔ رقبہ میں برطانیہ کے برابر اور غربت میں افریقہ کے غالباً سب سے غریب ملک Lesotho کی ہمسری کرتا۔ وہاں کے سیاسی بندوبست کا جس طرح آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے وہ سارے بھارت میں بے مثال ہے۔ اس صوبہ (ریاست) کے چودہ کروڑ ووٹر لوک سبھا کے کل اراکین کا چھٹا حصہ منتخب کرتے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں یوپی کی کل 80 نشستوں میں 73 نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملیں۔ یعنی قریباً ساری کی ساری۔ آنے والے چند ہفتوں میں بھارت کی پانچ ریاستوں میں صوبائی انتخابات ہوں گے۔ (اُتر پردیش، گوا، منی پور، پنجاب اور اُتر کھنڈ) مگر ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ دلچسپی اور توجہ کا مرکز اُتر پردیش ہے۔ جہاں BJP کا مقابلہ تین سیاسی جماعتوں سے ہے۔ کانگریس، مایا دتی کی بہوجن سماج پارٹی اور Yadav گھرانہ کی سماج داری پارٹی۔ اُتر پردیش کی آبادی میں Dalits (نچلی ذات کے ہندئو) کا تناسب 21% اور مسلمانوں کا تناسب 19% ہے۔ Dalits کی مذکورہ دونوں سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو اپنا اتحادی بنا کر انتخابات میں حصہ لیتی اور باری باری اقتدار کو حاصل کرتی رہی ہیں۔ ملائم سنگھ یا دیو رٹیائر ہوئے تو ان کی گدی اُن کے نوجوان بیٹے Alkhilesit نے سنبھالی۔ وہ کانگریس کے ساتھ انتخابی اتحاد بنا کر BJP کے خلاف میدان میں اُترا ہے۔ وہ راہول گاندھی کا ذاتی سطح پر بھی دوست ہے۔ اس کے باوجود کہ اُس کا دادا یا نانا سماجی اعتبارسے جواہر لال نہرو کی گرد کے برابر بھی نہیں تھا۔ یقینا نہرو گھرانہ کے خواب وخیال میں بھی یہ نہ ہوگا کہ ساٹھ سترسال گزر جانے کے بعد وہ اپنی جنم بھومی میں الیکشن جیتنے کے لئے ایک ایسے شخص کے تعاون کے طلبگار ہوں گے جن کے آباو اجداد نہ اُن کے برابر بیٹھ سکتے اور نہ اُن سے ہاتھ ملانے کا خواب دیکھ سکتے تھے۔ اسے کہتے ہیں سماجی انقلاب۔ تین چوتھائی صدی کے اندر برصغیر ہندو پاک کی کایا پلٹ گئی، بقول اقبال : 
توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب
بھارت میں جاگیر داری کے خاتمہ کی وجہ سے بندوں کو آقائوں کے خیموں کی طنابیں کاٹنے میں وہ مشکل پیش نہ آئی جو پاکستان کے کروڑوں دیہاتیوں کے لئے ہاتھ کی زنجیر اور پائوں کی بیڑی بن گئی ہے۔ اُتر پردیش میں ہونے والے انتخابات کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہاں کی ایک سابق ریاست رام پور کے سابق شہزادے کا ظم علی خان نچلی ذات کی اس سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں جنہیں برہمن اُچھوت سمجھتے ہیں۔ اُن کا مقابلہ عبداللہ اعظم خان سے ہے جن کے بزرگ اسی ریاست کے نواب کے اصطبل کے کارندے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ آسمان کتنے رنگ بدلتا ہے؟
یہ کالم نگار پاکستانی سیاست دانوں میں سے کسی ایک کا مداح نہیں کہ ہر وقت اُس کے گن گاتا رہے اور زندہ باد کے نعرے لگاتا رہے۔ میں سبھی راہنمائوں سے قریباً ایک جیسا ناراض اور برگشتہ ہوں مگر مجھے اخلاقی دیانت کا ثبوت دیتے یہ مان لینا چاہئے کہ ہماری وفاقی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین چاہے لاکھ بددیانت اور نالائق ہوں۔ وہ یقینا بھارتی پارلیمنٹ کے اراکین سے بطور انسان بدرجہا بہتر ہیں۔ آیئے ہم دُعا مانگیں کہ خدا اُنہیں اور بہتر بنائے میرا ایمان ہے کہ ایک دن ہمارے ہاں جو اُجالا ہوگا، وہ داغ داغ نہ ہوگا۔ اور جو سحر طلوع ہوگی وہ شب گزیدہ نہ ہوگی اور یہ ہے وہ دن جو (بقول فیض) 
ہم دیکھیں گے، ہم سب دیکھیںگے،آپ اور آپ کا کالم نگار بھی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں