برطانوی راج کی برکتیں … (قسط اول)

میرے قارئین کو شاید یاد نہ ہو کہ اوپر لکھے ہوئے عنوان کے تحت میں ماضی قریب میں ایک کالم پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ اسی عنوان کو دوبارہ استعمال کرنے کا میرے پاس صرف ایک ہی جواز ہے اور وہ ہے مندرجہ ذیل نئی سطور کی تحریر۔ جو لوگ میرے ہم عصر ہیں اُنہیں ضرور یاد ہوگا کہ آزادیء ہند سے پہلے آپ چاہے برصغیر (ہندوستان) کے کسی بھی سکول میں پڑھتے ہوں‘ پشاور سے کلکتہ اور آسام سے لے کر مدراس (آج کا تامل ناڈو) تک ایک ہی نصاب تعلیم ہوتا تھا اور برطانوی راج کے کسی گمنام مورخ کا لکھا ہوا یہ ایک مضمون اُس نصاب کا لازمی حصہ ہوتا تھا جس میں برطانوی راج کی برکتوں کی تفصیل گن گن کر بتائی جاتی تھی۔ وُہی غیر ملکی تسلط دیرپا اور مستحکم ہوتا ہے جس میں محکوم نہ صرف اپنی غلامی کو دل و جان سے تسلیم کر لیں بلکہ اس بات کا ہر مناسب موقع پر شکر ادا کریں کہ اُن کے آبائواجداد نے یقینا جو نیک کارنامے سرانجام دیئے ہوں گے اُس کے عوض اور بطور انعام مشیت ایزدی نے اُنہیں اتنے اچھے آقائوں کی حکومت کے سایہ تلے زندہ رہنے کی سعادت بخشی ہے۔ یہ تھا مذکورہ بالا مضمون لکھنے اور کروڑوں طالب علموں اور طالبات کے اسے بار بار پڑھ کر یاد کر لینے کی توقع کا جواز۔ میں دُوسرے لوگوں کے بارے میں تو وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر اپنے والدِ مرحوم اور اپنے بارے میں یہ مان لینا دیانتداری کے کم از کم ایک تقاضے کو ضرور پورا کرے گا۔ جنگ عظیم اوّل سے پہلے سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے ایک پسماندہ گائوں تلونڈی عنایت خان اور جنگ عظیم اوّل کے خاتمہ پر گھوڑی پال مُربعوںکے حصول کی خاطر سرگودھا کے چک 47 شمالی منتقل ہو جانے والے گھرانے کا ایک فرد‘ جو ایک عام غریب کسان کا پوتا تھا اور انگریز ڈپٹی کمشنر کے واحد دیسی معاون کا بیٹا‘ ضلع سرگودھا کی تاریخ میں پہلا ڈاکٹر بنا۔ 1933ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے والے پانچ خوش نصیب طلبا میں سے ایک۔ سرگودھا ڈسٹرکٹ بورڈ نے پانچ سال پانچ روپے ماہوار وظیفہ دیا‘ جو اس طالب علم کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے کافی ثابت ہوا۔ ظاہر ہے کہ والدِ مرحوم نے برطانوی راج کے طفیل بہترین اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اُن کے ساتھ انگریز افسروں کا برتائو بھی بڑا دوستانہ تھا۔ وہ برطانوی راج کے خلاف ایک لفظ بھی کہتے تو کیونکر؟ اب آئیے کالم نگار کی طرف۔ برطانوی راج میں اُس نے سرکاری سکولوں میں بہترین تعلیم حاصل کی اور وہ بھی مفت۔ اگست 1947ء تک موجودہ ہندوستان اور پاکستان میں سارے کے سارے ہسپتال اور سکول سرکاری ہوتے تھے جو مفت علاج کرتے تھے اور مفت تعلیم دیتے تھے۔ پرائیویٹ (فیس لے کر علاج کرنے والے یا پڑھانے والے) ہسپتالوں اور سکولوں کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا تھا۔ مسیحی مشنری انجمنوں نے بڑے شہروں میں Convent School بنائے جو برائے نام فیس لے کر اعلیٰ درجہ کی تعلیم دیتے تھے۔ یہی حال لاہور کے ایف سی کالج‘ سیالکوٹ کے مرے کالج‘ راولپنڈی کے گورڈن کالج‘ پشاور کے ایڈورڈ کالج اور دہلی کے سینٹ سٹیفن کالج کا تھا۔ (جنرل ضیاء الحق وہاں کے فارغ التحصیل تھے) یہ سب اعلیٰ درجہ کی تعلیم دیتے تھے اور وہ بھی بہت تھوڑی فیس لے کر۔ انجیل مقدس کا ہر ہفتہ میں ایک لیکچر ہوتا تھا‘ جس میں حاضری لازمی نہ تھی۔ یہ کالم نگار پچاس کی دہائی میں مرے (Murray) کالج سیالکوٹ میں دو سال پڑھا۔ سکاٹ لینڈ چرچ اس کالج کو چلاتا تھا۔ میں انجیل مقدس کے کسی لیکچر سے غیر حاضر نہ ہوتا تھا کیونکہ ہم جماعت طالبات سے متعارف ہونے کا وہاں بہترین موقع مل جاتا تھا۔
جناب حامد سعید اختر صاحب (ریٹائرڈ بریگیڈیئر اور سابق وزیر) نے ایک غیر رواجی کام یہ کیا کہ 12 مارچ کو اپنی اہلیہ محترمہ پر ایک بہت اچھا تعزیتی مضمون لکھا اور وہ اپنے سب نئے اور پرُانے دوستوں کو ای میل کرکے اپنی فوت ہو جانے والی رفیقہء حیات سے متعارف کرایا۔ حامد صاحب نے پانچ صفحات لکھے مگر کیا مجال جو کہیں بھی مرحومہ کا نام لکھا ہو۔ تیزی سے گزر جانے والے دور کی وضع داری کی اس سے بہتر مثال نہیں دی جا سکتی۔ صد افسوس کہ میری جناب حامد سعید سے دوستی کی ابتدا تب ہوئی‘ جب اُن کا 49 سالہ طویل ازدواجی رشتہ ختم ہوا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ مجھے اُن کی اتنی خوبیوں کی مالک اور کمال کی خاتون سے ملنے اور اُن کے ہاتھ کی پکائی ہوئی دال روٹی کھانے کا اعزاز حاصل ہوتا۔ آج کے کالم کا عنوان ہے: برطانوی راج کی برکتیں۔ اگر میرا حساب زیادہ غلط نہیں تو میں وثوق سے لکھ سکتا ہوں کہ برطانوی راج کے دو سو سالوں میں ہندوستان کی کل آبادی کا 90 فیصد حصہ راج کا وفادار تھا اور اس کی برکتوں پر پختہ یقین رکھتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ دس فی صد لوگ غیرملکی تسلط کے مخالف تھے۔ کتنے فخر کی بات ہے کہ حامد سعید کی مرحومہ بیوی کے دادا اُن مخالفین کی صف اوّل میں شامل تھے۔ اُن کا اسم گرامی فضل الٰہی تھا۔ احتراماً ''مولانا‘‘ کا لفظ اُن کے ساتھ اُسی طرح لگا دیا گیا جس طرح اُس دور میں ظفر علی خان اور علی براداران (محمد علی اور شوکت علی) کے ناموں کے ساتھ۔ مولانا فضل الٰہی کے ہم عصر اُنہیں بجا طور پر امیرالمجاہدین کے لقب سے پکارتے تھے۔ وہ سید احمد شہید کی تحریک جہاد اور اس حوالے سے تحریک ریشمی رومال کے وارث تھے۔ اُنہوں نے ساری عمر قبائلی علاقوں میں جلا وطنی کی کیفیت میں بسر کی اور فرنگی راج کی ایک بھی برکت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کے خلاف لڑتے رہے۔ برطانوی راج نے 1910ء میں اُن کے سر کی قیمت ایک لاکھ (آج کے دس کروڑ) روپے مقرر کر رکھی تھی۔ موصوف اُردو اور انگریزی کے علاوہ ترکی‘ فارسی‘ عربی‘ فرانسیسی‘ پشتو اور دری زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اُن کا درجہ اتنا بلند تھا کہ وہ امیر افغانستان غازی امان اللہ اور ترکی کے انور کمال پاشا جیسے لوگوں کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ آپ مولانا غلام رسول مہر کی کتاب (جماعتِ مجاہدین) میں اُن کا مزید تذکرہ پڑھ سکتے ہیں۔ برطانوی راج کے خاتمہ کے بعد آزاد پاکستان میں کروڑوں اربوں کی لوٹ مار کے شرمناک دور شروع ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اس صدمہ سے بچا لیا۔ مئی 1951ء میں وفات پا کر وہ اپنی وصیت کے مطابق بالا کوٹ میں سید احمد شہید کے ہمراہی شہدا کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ ہم ہر سال کئی قسم کے دن مناتے ہیں۔ اپنے بچوں کے جنم دن پر موم بتیاں جلاتے ہیں۔ انگریزوں کی دیکھا دیکھی بصد شوق کیک بھی کھاتے ہیں‘ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم انگریز دور کی دیکھا دیکھی اپنے قابل صد احترام آبائواجداد کو اور اپنے Heroes کو ہرگز یاد نہیں کرتے۔ کیا سارے سال میں ہم ایک بار بھی بالا کوٹ کے قبرستان میں دفن شہدا کو یاد کرنے کی زحمت نہیں کر سکتے؟ اگر ہم نے سید احمد شہید جیسی عظیم ہستی کو بھلا دیا تو ہم اُن کے روشن نقش قدم پر چلنے والے مولانا فضل الٰہی کو یاد رکھیں تو کیونکر؟ سارے ملک کو چھوڑیں‘ وزیر آباد (جہاں سے اُن کا آبائی تعلق تھا) کے لوگ بھی اُنہیں نہ جانتے ہیں اور نہ پہچانتے ہیں۔ کیا یہ وہاں کے غیرت مند شہریوں کا اخلاقی فرض نہیں؟ جناب عطاالحق قاسمی جیسے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ وزیر آباد میں اُن کی یادگار بنوائیں۔ ایک اچھی درس گاہ یا معیاری ہسپتال یا لائبریری۔ اگر جناب حامد سعید کی تحریر میری نظر سے نہ گزرتی تو میں بھی (باقی جاہلوں کی طرح) مولانا فضل الٰہی کے بلند مقام سے ناواقف رہتا۔ بالکل اُسی طرح‘ جیسے وسطی پنجاب کے قصبہ جڑانوالہ میں بڑی ہونے والی نئی نسل دستگیر باری کے جلیل القدر والد میاں عبدالباری جیسے بہادر‘ باضمیر اور اُصول پسند شخصیت سے بالکل ناواقف ہے۔ میاں عبدالباری مرحوم کو بڑے سے بڑا خزانہ دے کر نہ خریدا جا سکتا تھا‘ اور نہ کوئی طاقت اُن کا سر جھکا سکتی تھی۔ ہمارے پہلے فوجی آمر نے اس کی پوری کوشش کی اور برُی طرح ناکام رہا۔ اُسے مزید ایک ووٹ کی ضرورت تھی۔ آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت درکار تھی اور ایک لائل پور (موجودہ فیصل آباد) سے میاں عبدالباری کی مدد سے قومی اسمبلی کا رُکن بن جانے والے رُکن چوہدری محمد افضل چیمہ نے اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے کر ایوب خان کی حکومت کو مزید طور دیا‘ اور اُس کا پورا معاوضہ وصول کیا۔ یہ لوگ ہماری سیاسی زندگی کے اُفق سے خواب و خیال ہوئے تو ہمارے سول اور فوجی راہنمائوں اور نام نہاد اشرافیہ نے ایک طرف ملکی خزانہ کی چوری سے دبئی آباد کیا اور دوسری طرف جنیوا اور پانامہ کے بنکوں میں اربوں ڈالروں کی ریل پیل کا بازار گرم کیا (اور بھی بہت کچھ کیا جو کالم کی محدود جگہ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔) بات شروع ہوئی تھی برطانوی راج کی برکتوں سے‘ وہ تو راستہ میں رہ گئی۔ اب آپ اس کالم نگار کی بات مکمل ہونے کے لئے ایک ہفتہ کا انتظار فرمائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں