جنوبی یورپ میں پانچ دن

اگر آپ کی عمر کم ہے تو آپ نے غالباً وہ فلمی گیت سنا ہوگا جس کے بول یوں ہیں کہ 'دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے (جو یقینا مبالغہ آرائی ہے) کوئی یہاں گرا‘ کوئی وہاں گرا‘۔ دل ٹوٹنے کا یہ منظر بمباری سے ملتا جلتا ہے۔ یہ تو تھا جملہ معترضہ۔ آپ اس کو نظر انداز کر دیں اور ایک یورپی ملک (یوگو سلاویہ) کے عبرتناک انجام کو دیکھیں۔ وہ اٹھارہ سال پہلے ٹوٹا (مارشل Tito کی طویل اور بظاہر مستحکم آمریت کے بعد) تو اُس کے سات حصے ہوئے۔ دو حصوں کو میں نے دو سال پہلے دیکھا تھا اور مزید دو کو وسط مئی میں۔ 13 مئی کی صبح کو لندن کے پانچویں ایئر پورٹ Luton سے اس کالم نگار کا جہاز اُڑا اور سمندروں‘ دریائوں‘ پہاڑوں پر پرواز کرتا ہوا تین گھنٹے بعد Maekdonia (جسے اُردو میں مقدونیہ لکھا جاتا ہے) کے دارالحکومت Skopje کے ہوائی اڈا پر اُترا۔ میں برطانیہ سے اُس ملک کا سرکاری دورہ کرنے والے 25 رُکنی وفد میں شامل تھا۔ صرف مقدونیہ نہیں بلکہ پڑوسی ملک Kosova کا بھی۔ ان دونوں ممالک کی آبادی صرف بیس بیس لاکھ ہے۔ البانیہ کی طرح Kosova کی آبادی کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مگر میں نے جا کر یہ دیکھا کہ وہ لوگ نہ بنیاد پرست ہیں اور نہ فرقہ پرست۔ سیدھے سادے رُوشن دماغ۔ یورپی ذہن رکھنے والے۔ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ۔ ڈرتے ڈرتے اور جان کی امان مانگتے ہوئے لکھتا ہوں کہ یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے لبرل کا اسم صفت لکھا جا سکتا ہے۔ ہماری زبان دانی اور عالمیت کا یہ عالم ہے کہ نہ ہم لبرل کا اُردو ترجمہ کر سکتے ہیں اور نہ سیکولر کا۔ جب کسی لفظ کا ترجمہ ہی غلط کیا جائے تو ہمیں نہ اُس کی حمایت کرنے کا حق حاصل ہے اور نہ مخالفت کا۔ مقدونیہ کی آبادی کا دو تہائی حصہ مسیحی ہے اور وہ بھی Green Orthodot۔ مسلمان صرف ایک تہائی ہیں۔ میں جہاں بھی گیا‘ لائوڈ سپیکر پر دل گرما دینے والی اذانیں سنیں‘ مگر مجال ہے جو مقامی آبادی کے کسی بھی غیر مسلم کی پیشانی پر بل پڑا ہو۔ مسلمان خواتین حجاب کی وجہ سے نمایاں لگتی تھیں مگر کوئی شخص بھی اُنہیں غیر دوستانہ طریقے سے نہیں دیکھتا‘ بلکہ سرے سے دیکھتا ہی نہیں۔ نظر انداز کر دیتا ہے۔ یہ ہوئی ایک مغرب ملک کی سب سے بڑی نشانی۔ وہ اپنی آبادی کے مختلف حصوں کو اپنی اپنی ثقافت (کلچر) اپنانے اور اس کا برسرِ عام اظہار کا حق دیتا ہے۔ وہ صدق دل سے اور خوش دلی سے تسلیم کرتا ہے کہ اُس کے باغ میں ہر رنگ کے پھولوں کو اُگنے اور اپنے اپنے حسن کا مظاہرہ کرنے کا مساوی موقع ملنا چاہئے۔ اجازت دیجئے کہ میں اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لکھوں کہ مذکورہ بالا خوبی کا فقدان ہماری سب سے بڑی خامی ہے۔ میرے خیال میں مراکش سے انڈونیشا تک ہمارا معاشرہ جامد اور ساکت‘ دقیانوس اور ماضی پرست اور Monolithic ہے۔ اس انگریزی لفظ کے سکہ بند ترجمہ کے لئے کالم نگار نے آکسفورڈ پریس کی شائع کردہ اور شان الحق حقی کی مرتب کردہ لغات سے رُجوع کیا۔ صفحہ نمبر1036 کے بائیں کالم میں اس لفظ کا نمبر نو تھا‘ جس کے معنی ہیں ''چٹان کا ایک ٹکڑا (جو خصوصی طور پر تراشا گیا ہو) لاٹھ کی صورت میں کھڑا ہوا۔ ''تراشیدہ بھاری پتھر‘‘۔ آپ نے غور فرمایا کہ مندرجہ بالا اسم صفت کا تمام پسماندہ قوموں پر اور اُن میں خصوصاً مسلمانوں پر اور پھر اُن میں خاص طور پر پاکستانی مسلمانوں پر ہوتا ہے تو کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں؟ جب مقدونیہ میں ہمارے میزبانوں نے ہماری خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو برطانوی سفیر کیوں پیچھے رہتا؟ اُس نے بھی بڑی اپنائیت سے ہمارے وفد کو اپنا مہمان بنایا۔ ہم نے مقدونیہ میں کیا دیکھا؟ سرسبز درختوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ تند و تیز دریا اور پرُ سکون جھیلیں ۔ سیر و تفریح اپنی جگہ مگر مجھے بہت کچھ سیکھنے اور اپنے آبائی وطن (پاکستان) کا تعریف آمیز تعارف کرانے کا ایک اچھا موقع مل گیا۔ Kosovo کے برعکس مقدونیہ کی آبادی کی اکثریت مسیحی مذہب کی پیروکار ہے۔ مگر مذہبی رواداری کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف ہر شہر کے ہر حصہ میں ایک مینار والی مسجد نظر آتی ہے‘ بلکہ اس مینار سے لائوڈ سپیکر پر دی جانے والی اذان کی مبارک آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ جس شخص کو بھی پتہ چلتا تھا (دُکانداروں کی گاہکوں کا حُدود اربعہ جان لینے کی خوبی کا اعتراف کرنا پڑے گا) کہ کالم نگار اور اُس کے وفد میں شامل چند اور لوگ مسلمان ہیں‘ تو وہ بہت خوش ہوتا اور ہمارے ہاتھ چومتا ہوا الحمدللہ کی گردان کرتا تھا۔ اسلامی بھائی چارے کے اظہار کے ان جذباتی واقعات کے لئے جو لفظ مجھے موزوں ترین لگتا ہے وہ ہے رُوح پرور۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ میرے قارئین کی بڑی تعداد مقدونیہ کو سکندر اعظم کے آبائی وطن کے حوالے سے جانتی ہے۔ اہلِ مقدونیہ نے اپنے شہروں میں سکندر کے بڑے بڑے بت نصب کر کے بیرونی دُنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اُن کا Local Boy یعنی مقامی ہیرو تھا۔ دُوسری طرف اہلِ یونان اس دعویٰ کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے باآواز بلند اعلان کرتے ہیں کہ سکندر کی جنم بھومی آج کے مقدونیہ میں نہیں بلکہ قبل از مسیح دور کے مقدونیہ میں ہے اور وہ بستی ماضی قریب میں نہیں بلکہ کئی صدیوں سے یونان کا حصہ ہے۔ سکندر ایک اور دعوے دار دو۔ اب آپ بتائیں کہ کالم نگار جیسے سیاح کریں تو کیا کریں؟ ہماری زبان کا ایک محاورہ ہے‘ دو ملائوں میں مرغی حرام۔ لڑنے والے ملاّ ہوں اور وجہ تنازعہ مسکین مرُغی ہو تو غالباً وہ ان دونوں میں کسی ایک کے ہاتھ بھی نہ آئے گی۔ دُوسری طرف اگر دو ممالک ہوں (یونان اور مقدونیہ) اور جھگڑے کی بنیاد یہ ہو کہ ان دو میں سے سکندر اعظم کو کس ملک کا ہیرو تسلیم کیا جانا چاہئے تو جواب سیدھا سادا ہے اور وہ ہے کہ وہ ان دونوں کا ہے۔ ایک مُلک کا نام وُہی ہے جس میں وہ پیدا ہوا اور بڑا ہو کر وہاں کا بادشاہ بنا۔ دُوسرے کے دعوے میں صداقت کی وجہ جغرافیائی ہے‘ جس سے انکار ممکن نہیں۔ 
ہمارے وفد کی مقدونیہ میں پہلی رات تھی اور ہم سب گہری نیند سو رہے تھے کہ ہمیں زلزلہ کے جھٹکوں نے جگایا۔ ہوٹل کی بلند و بالا عمارت ڈولتی ہوئی نظر آنے لگی۔ شکر ہے‘ زلزلہ اتنا بڑا نہ تھا کہ جانی یا مالی نقصان ہوتا۔ صبح اُٹھ کر پتہ چلا کہ بڑا زلزلہ وہ تھا جو ایک ماہ پہلے آیا تھا مگر وہ جغرافیائی نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کا تھا۔ ماہ اپریل میں یہ راز کھلا کہ کئی ہفتوں سے مقدونیہ کا آئینی نظام مفلوج ہے۔ اس بحران اور تعطل کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ارکان پارلیمان میں سپیکر کے انتخاب پر جو اختلاف ہے‘ وہ اتنا بڑا ہے کہ سمجھوتے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حزب اختلاف کے راہنما Zoran Zaev نے یہ تجویز پیش کی کہ معمول کے آئینی تقاضوں کو ایک طرف رکھ کر سپیکر چن لیا جانا چاہئے۔ تعطل (Deadlock) کو ختم کرنے کا واحد قابل عمل حل۔ آخر میں اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے جس سپیکر کو چن لیا گیا‘ اُس کا پہلا نام طلعت ہے اور نام کا دوسرا حصہ مقامی ہے‘ XHaferi۔ جونہی یہ خبر لوگوں تک پہنچی وہ اتنے ناراض ہوئے کہ چند سو مظاہرین کے ہجوم نے پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا اور سکیورٹی ارکان سمیت کئی اراکین پارلیمنٹ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایک عرصہ سے پرُامن ملک میں امن و امان کا سارا ماحول تشدد کی اس کارروائی نے درہم برہم کر دیا۔ ہمارے وفد کی آمد تک ماحول پرسکون ہو چکا تھا مگر ایک طرح کی کشیدگی بدستور قائم و دائم تھی جو محسوس کی جا سکتی تھی۔ مقدونیہ کے ایک دوست اور خیر خواہ کی حیثیت میں آپ کے کالم نگار کی یہی دعا ہے کہ مقدونیہ کو کسی ہنگامہ آرائی کا صدمہ نہ برداشت کرنا پڑے۔ وہ اعتدال، توازن اور بقائے باہم کے اُصولوں پر کاربند رہے۔ اپنے اختلافات کا پرامن اور مہذب طریقہ سے حل ڈھونڈے۔ میری برطانیہ واپسی سے پہلے ایک سرکاری ڈنر پر مقدونیہ کے سرکردہ راہنمائوں سے ملاقات ہوئی تو میں نے اشارتاً مذکورہ بالا ہنگامے کا ذکر کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ مقدونیہ کی تاریخ کا پہلا ناخوشگوار واقع ہے اور اتنے چھوٹے پیمانہ کا تھا کہ اسے چائے کی پیالی میں طوفان کہا جا سکتا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ ہم وطن عزیز میں بپا ہونے والے ہنگاموں کے بارے میں بھی یہی کہہ سکیں۔ مجھے ہزاروں میل سے وطن عزیز میں بپا ہونے والی یورشوں کی جب خبر آتی ہے تو اقبال کا ایک مصرع میرے کان میں گونجتا ہے۔ ؎
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
آپ میرے ساتھ اتفاق کریں کہ اس مصرع کا مطلب اور مقصد طوفان کی شدت بیان کرنا تھا۔ دریائوں کے دل طوفان سے دہل جاتے ہیں یا نہیں مجھے اس کی رتی بھر فکر نہیں۔ مجھے فکر ہے تو وطن عزیز میں رہنے والے 20 کروڑ انسانوں کی جن کے بے حد مضبوط دل طرح طرح کی پریشانیوں سے 70 سال سے دہل رہے ہیں‘ مگر بدستور دھڑک رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان دنوں نہ ملک کے اندر سے خیر کی خبر آتی ہے اور نہ باہر سے۔ ہزاروں میل کے فاصلہ کے باوجود یہ کالم نگار پاکستان میں کروڑوں اُفتادگانِ خاک کا رازدان‘ ہمدرد‘ غمگسار ہے‘ اور اُس کی رائے میں جب ہم جانتے ہیں کہ ہمیں دوسرا قائد اعظم مل جانے کا کوئی امکان نہیں تو ہم دیانت دار‘ عالم فاضل اور محب وطن افراد کی ایک جماعت (جو سیاسی جماعتوں سے بالاتر ہو) کی اجتماعی دانش کو اپنا راہنما اور راہبر کیوں نہیں بنا لیتے؟ ہماری امامت صرف وہ کریں جو صداقت‘ دیانت اور عدالت کا سبق پڑھ چکے ہوں۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں