الف سے ایماندار۔ ب سے بددیانت

اس کالم نگار نے 75 سال پہلے نارووال کے ایک پرائمری سکول میں پھٹے ہوئے گرد آلود ٹاٹ پر بیٹھ کر شمس العلما محمد حسین آزاد کا لکھا ہوا باتصویر اُردو کا پہلا قائدہ کھولا تو پہلے صفحہ پر لکھا ہوا تھا۔ الف انار۔ ب بلی۔ یہاں سے اُردو کے حروف تہجی کی تعلیم شروع ہوتی تھی۔ اب نہ ایک انار اور سو بیمار والا معاملہ رہا چونکہ اب انار سو ہیں اور بیمارایک اور نہ کسی کی گود میں بلی دیکھ کر نظم لکھنے والے اقبال رہے۔ اب ہم جس زمانہ میں سانس لے رہے ہیں وہاں چاردانگ عالم میں کرپشن اور اُس کے خلاف چلنے والی تحریکوں اور مزاحمتی کارروائیوں کی دھول اُڑ رہی ہے۔ چور اتنا بے خوف اور نڈرہو چکا ہے کہ گھپ اندھیرے میں اپنے ہاتھ پر چراغ رکھ کر نکلتا ہے۔ چور کو چوری کا مال آسانی سے نظر آجاتاہے مگر جن کی عمر بھر کی کمائی چرائی جاتی ہے اُنہیں چور دکھائی نہیں دیتا ۔ہے نا کمال کی بات!
ماہ جون میں کرپشن (یہ لفظ اب اُردو زبان کا حصہ بن گیا ہے) کے موضوع پر بہت اچھی کتابیں شائع ہوئیں۔ تین امریکہ میں اور دو برطانیہ میں۔
Wegenir اور Cockcroff کی کتاب نام ہے۔ Unmasked - Corruption in the west / R.I Rotberg کی How Citizens and Leaders can Combat Graft ۔ C.A Brioschi / کی Corruption - A A Short History۔ S.Sim کی The Rise and Rise of the Greedocracy اور عائشہ وڑائچ کی(ہو نہ ہو اس بی بی کا تھانہ ہمارے محترم صحافی سہیل وڑائچ صاحب سے ضرور مشترکہ ہوگا) Making Sense of Corruption ۔ مجھے یہ سچ ضرور لکھ دینا چاہئے کہ میں نے پانچوں کتابوں کی صرف ورق گردانی کی ہے۔ پڑھی ایک بھی نہیں۔ اگر ہمت کروں اور گپ شپ میں زیادہ وقت ضائع نہ کروں تو اگلی گرمیوں تک انہیں پڑھنے کا بھاری پتھر اُٹھا سکتا ہوں۔ ماہ اگست کے آخر میں پاکستان کا سفر کرنے اور وہاں ایک ہفتہ گزارنے سے پہلے امریکی جاسوس اور دو بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی لکھی ہوئی کتاب (The Contractor) پڑھ لینا چاہتا ہوں۔
مناسب ہوگا کہ مذکورہ بالا کتابوں میں سے آخری کی مصنفہ (عائشہ) کا آپ سے مختصر تعارف کرا دوں۔ وہ تین سال سے سویڈن کی سب سے اچھی یونیورسٹی(وہاں کی سب یونیورسٹیاں اچھی ہیں) کے جس شعبہ میں ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے لئے تحقیق کر رہی ہیں اُس کا نام ہے۔ Quality of Government instituteکتنا اچھا ہوتا کہ یہ علمی ادارہ سویڈن کی بجائے پاکستان میں ہوتا جسے سب سے زیادہ اچھی حکمرانی، اچھے نظام حکومت اور اُس کے چلانے والے اچھے حکمرانوں کی ضرورت ہے۔ عائشہ اس سے پہلے اس یونیورسٹی سے ایم۔ اے اور لندن کی ایک یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کر چکی ہیں۔ صرف یہی نہیں اُنہیں سُرخاب کا ایک اور پر بھی لگا ہوا ہے اور وہ ہے واشنگٹن میں اقوام متحدہ کے قانونی مشاورت کے شعبہ میں تحقیقی ذمہ داری ۔ ساری دُنیا ان دنوں بیک وقت دو عذابوں کے پیدا کردہ بحرانوں کا شکار ہے اور ساری توجہ ان کے تدارک پر مرکوز ہے اور وہ دو عذاب ہیں۔ کرپشن اور دہشت گردی۔ برازیل کو دیکھ لیجئے ۔ ایک صدر (خاتون کا نام Dilmo Rursseff ہے) کو کرپشن کا مرتکب ہونے پر برطرف کیا جاچکا ہے۔ اب لگتاہے کہ ان کے جانشین ( Michel Teamer ) کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔ طویل فوجی آمریت کے بعد جمہوری قوتوں اور محنت کشوں کی آنکھ کا تارا ( Lula) صدر بنا تو لوگوں نے خوشی کے مارے گھی کے چراغ جلائے۔ اب عوام کا وہی محبوب راہنما کرپشن کے جرم میں جیل میں قید ہے۔ جنوبی افریقہ سے لے کر جنوبی کوریا تک جمہوری مملکتوں میںکرپشن اور اس کے خلاف ردعمل وہاں کی سیاست کا معمول بن گیا ہے۔ تیسری دُنیا کا تو کیا ذکر فرانس کے سابق صدر سار کوزی بھی پاکستان کو فروخت کی جانے والی آبدوزوں میں سے کمیشن وصول کرنے کے جرم میں گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ اُن پر عدالت میں مقدمہ چلے گا۔ جرم ثابت ہو گیا تو سابق صدر مملکت کو کوئی طاقت جیل جانے سے نہیں بچا سکتی۔ اگر فرانس کے حالیہ صدارتی
انتخابات میں سب سے مقبول سیاسی راہنما Francois کرپشن کا الزام لگ جانے کی وجہ سے برُی طرح بدنام نہ ہوتا تو انتخابات میں وہی کامیاب ہوتا۔ اٹلی میں پانچ ستاروں کی تحریک کی بنیاد کرپشن کے خلاف جہاد ہے۔ یہی حال یونان۔ پرتگال اور سپین کا ہے۔ چین کے موجودہ صدر XI Jinping نے ہزاروں بد عنوان سرکاری افسروں کوجس طرح برطرف کیا ہے، وہ مائوزئے ننگ کے بعد سرکاری ایوانوں میں جھاڑو پھیرنے اور لٹیروں کو کوڑے دان میں پھینک دینے کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔ کرپشن کو بے نقاب کرنے کا سہرا جن اداروں کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ وہ ہے تفتیشی صحافیوں کی عالمی تنظیم اور ورلڈ بینک جس نے اس ضمن میں بڑا موثر اور قابل تعریف کردار ادا کیا ہے۔ اور یقینا وقت گزرنے کے ساتھ اس کی کاوش بڑھتی چلے جائے گی۔ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ : ؎ 
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
اس کے جواب میں بدنصیب ملکوں کے بددیانت حکمران کہتے ہیں۔ ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
مذکورہ بالا حکمران صرف بددیانت نہیں، عاقبت نا اندیش اور پرلے درجہ کے بے وقوف بھی ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ (بقول اقبال) ستاروں پر کمند ڈالنے والے ستاروں سے اگلے جہانوں میں چھپائی ہوئی چوری کی دولت بھی ڈھونڈ نکالیں گے۔ یہ مرحلہ طے ہوا تو چوری کا مال اصل مالکوں (عوام) کو بھی واپس کرنا پڑے گا۔ جو رُسوائی ہوگی وہ الگ۔ جو جگ ہنسائی ہوگی ۔ وہ میں آپ کے زرخیز تخیل پر چھوڑتا ہوں۔ کچھ کام آپ بھی کریں۔
کالم کے شروع میں جن پانچ کتابوں کا تعارف کرایا گیا اُن میں دُوسری کتاب (کرپشن کا علاج) خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔ فاضل مصنف کے 14 نکاتی موقف کے مطابق ہر بدعنوان ملک اور معاشرہ کو ڈنمارک کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔ سترہویں صدی کے آخر میں ڈنمارک نے جنگ کے میدان میں شکست کھائی تو پتہ چلا کہ چار سُو پھیلی بددیانتی اور کرپشن شکست کی ذمہ دار ہے۔ ڈنمارک کے بادشاہ نے تمام بڑے عہدوں پر اُن لوگوں کو تعینات کیا جو اس منصب کے لئے سب سے زیادہ اہل اور موزوں تھے۔ ابتدا بہترین سول سروس کی تشکیل سے ہوئی۔ پھر درمیانے درجہ کے افسروں کی صرف میرٹ کی بنیاد پر تقرری کا مرحلہ طے پایا۔ دیانت داری کی روشنی بلندی سے چلتے چلتے نیچے تک آئی اور سارے ڈنمارک سے کرپشن کا اندھیرا دُور ہو گیا ۔ Tom Tyler امریکہ کی ایک چوٹی کی یونیورسٹی Yaleمیں پڑھاتے ہیں۔ عائشہ وڑائچ نے اس نظریہ کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے کہ جس ملک میں سرکاری افسر عوام کے ساتھ مکمل غیر جانبداری اور عزت و احترام سے پیش آتے ہیں وہاں عوام قوانین کا زیادہ احترام کرتے ہیںاور اپنے حصے کا ٹیکس بخوشی ادا کرتے ہیں۔
چین کی مثال قابلِ تقلید ہے۔ وہاں کے ڈیڑھ ارب شہری اپنی حکومت اور اُس کے افسروں پر اعتبار کرتے ہیں اور اُن کی عزت بھی۔ جس نظام میں عوام کو رعایا سمجھا جائے وہاں عوام کی کمائی کی لوٹ کھسوٹ پر کوئی اخلاقی قدغن نہیں ہوتی۔ عائشہ وڑائچ نے اٹلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ شمالی اٹلی سے بڑھ کر کوئی اور جگہ رشوت اور کرپشن سے پاک صاف نہیں ہو سکتی۔ جبکہ جنوبی اٹلی اس کے بالکل متضاد ہے۔ تاریخی وجوہات کی بنا پر ایک ہی ملک کے شمال اور جنوب میں بعد المشرقین ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ پاکستان میں کوئی اچھا اشاعتی ادارہ ان پانچوں کتابوں کے خلاصہ اور ترجمہ شائع کرے تاکہ پاناما زدہ ملک کے لاکھوں باشندوں کی شعوری سطح بلند کی جائے۔ باہمی سر پھٹول۔ گالیوں کا تبادلہ۔ الزام تراشی۔ ایک دُوسرے پر کیچڑ اور ایک دُوسرے کی پگڑی اُچھالنا۔ یہ سب کچھ بہت ہو چکا۔ اب ضرورت ہے غور و فکرکی۔ سوچ وبچار کی۔ اور اس سچائی پر ایمان لانے کی۔ کہ ہمارے حروف ابجد الف سے شروع ہوتے ہیں۔ اور الف سے ایماندار کا خوشبو دار لفظ لکھا جاتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں