تذکرہ ایک قابلِ فخر خاتون کا

پہلا نام تھا Irina اور دُوسرا (یعنی خاندانی) نام تھا Rako Bolskaova ۔ اگر آپ نے یہ نام پڑھ کر یہ اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو اس بی بی کا تعلق رُوس سے ہو گا تو آپ کا اندازہ بالکل درست نکلا۔ اُس نے 96 سال کی عمر میں ایک سال پہلے 22 ستمبر 2016ء کو وفات پائی‘ مگر میں رُوسی زبان نہ جاننے کی وجہ سے ان کے بارے میں رُوسی اخبار میں کچھ نہ پڑھ سکا۔ بھلا ہو برطانوی اخبار گارڈین کا جس نے (ایک سال کی تاخیرکے بعد) میرا اس کمال کی خاتون سے تعارف کرایا تو میں اس افسانوی کردار کے بارے میں پڑھ کر دنگ رہ گیا۔ اس حوالے سے مجھے غالب کا ایک بھولا بسرا شعر یاد آیا۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے
مذکورہ بالا شعر کے دُوسرے حصہ کے تینوں درمیانی الفاظ (گنج ہائے گراں مایہ) رشید احمد صدیقی کی بے مثال خاکوں کی کتاب کا عنوان بنے تو اُنہیں اور شہرت ملی۔ دُوسری جنگ عظیم کے دوران سوویت یونین کی فوج (Red Army ) نے جرمنی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے خواتین ہوا بازوں پر مشتمل بمباری کرنے والا یونٹ بنایا‘ جس کا سرکاری نام تھا All Femalk. Guards Night Bomber Aviation Regiment۔ اس فوجی رجمنٹ کا کام بڑا سیدھا سادا تھا۔ ہر رات بلا ناغہ جرمنی پر اتنے بم گرانا کہ اسے لگے کہ موسلادھار بارش ہو رہی ہے۔ یہ تو تھا کام۔ اب ہم اِن کے نام کی طرف آتے ہیں۔ آپ کا حافظہ جتنا بھی اچھا ہو آپ اسے اچھی طرح یاد کرکے اور اگلے برس دُہرانے (اور مجھے سنانے) کا کارنامہ کر کے دکھائیں تو روزانہ باقاعدگی سے بادام کھانے والا کالم نگار آپ کو اپنا اُستاد مان لے گا۔ Irina اس رجمنٹ کی نمایاں رُکن تھی۔ عمر صرف 21 برس اور ماسکو یونیورسٹی میں طبیعات کی طالبہ۔ اس نے اپنی تعلیم چھوڑ کر اور اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر جرمنی کی فضائیہ (Wiehrmacht) سے نبرد آزما ہونے اور جرمنی کے فوجی ٹھکانوں پر بدست خود (بقلم خود کے وزن پر) بم گرانے کے جس مشن میں رضا کارانہ شامل ہوئی وہ سر پر کفن باندھنے سے بھی ایک قدم آگے تھا۔ زیادہ امکان یہی تھا کہ رات کو بمباری کرنے والی خواتین جرمن فضائیہ یا طیارہ شکن توپوں کا نشانہ بن جائیں گی اور زندہ سلامت اپنے گھر واپس نہ آسکیں گی۔ وقت گزرنے کی ساتھ Irina کو اس رجمنٹ کی سربراہی کا اعزاز ملا اور بہادری کے اتنے زیادہ تمغے کہ وہ سارے کے سارے اپنی وردی پر نہ لگا سکتی تھی۔ (خدا کا شکر ہے کہ نازی اور فسطائی اور عوام دُشمن جرمنی کو شکست ہوئی)۔
سوویت یونین کے قائد جوزف سٹالن کے اکتوبر 1941ء میں دیئے گئے احکامات پر عمل کرتے ہوئے جب خواتین ہوا بازوں کا یہ یونٹ بنایا گیا تھا تو کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ دُشمن پر کتنی کاری ضرب لگائے گا؟ جرمنی میں بمباری کا نشانہ بننے والوں نے اپنے اوپر بم گرانے والی خواتین کا نام رات کی چڑیلیں (Nightwitches) رکھا اور دُوسرے کئی ایسے نام بھی جو ناقابل اشاعت ہیں۔ اپنے غصہ اور نفرت کے اظہار کے لئے گالیاں دینا قابل تعریف تو ہرگز نہیں‘ مگر قابل فہم ضرورہے۔ جنگ ختم ہوئی تو Irina یونیورسٹی میں دوبارہ داخل ہوئی۔ درمیان میں چھوڑی ہوئی تعلیم مکمل کی۔ طبیعات میں ڈاکٹریٹ (PhD) کی ڈگری حاصل کی‘ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا اور پروفیسر کے درجہ تک پہنچی۔ آئیے ہم Irina کے فضائی یونٹ پر ایک نظر ڈالیں۔ چھوٹے چھوٹے ہوائی جہازوں کو اُڑاتے ہوئے اس یونٹ نے جرمنی پر کل 24000 حملے کئے۔ یہ ہوائی جہاز (اپنی مختصر
جسامت کی وجہ سے) اتنی کم بلندی پر اُڑائے جا سکتے تھے کہ وہ دُشمن کے ریڈار پر نظر نہ آتے تھے اور جرمن فضائیہ کی جوابی کارروائی شروع ہونے سے پہلے وہ واپس رُوس کی محفوظ فضائی حدود میں آ جاتے تھے۔ ان حملوں میں اس فضائی یونٹ کی 32 اراکین نے اپنی جان کی قربانی دی۔ Irina نے ان جانفروش خواتین پر باتصویر کتاب لکھ کر اُنہیں زندہ جاوید بنا دیا۔ Irina نے یونیورسٹی میں Cosmic Rays کا خصوصی مطالعہ کیا۔ یہ وہ خاص شعائیں ہیں جو High Energy Particles (معافی چاہتا ہوں کہ میں ان الفاظ کا ترجمہ نہ کر سکا) کی صورت میں روشنی کی رفتار پر ساری کائنات میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ اس خاتون نے 300 اعلیٰ معیار کے تحقیقی مقالے اور چھ کمال کی کتابیں لکھیں۔ اُنہیں ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات میں 1977ء میں پروفیسر کا ممتاز درجہ دیا گیا اور 1994 میں اُن کے سر پر وہ دستار فضیلت باندھی گئی جس نے مرتے دم تک اُنہیں سارے ملک کے علمی حلقوں میں ممتاز ترین درجہ دلوایا۔ اُنہوں نے اپنی زندگی کے آخری گیارہ برس بیوگی میں گزارے۔ جب اُن کا جسدِ خاکی تدفین کے لئے لے جایا گیا تو سینکڑوں پروفیسر اور طبیعات کے ماہرین اور ہزاروں طلبا و طالبات اور رُوس کے قائدین کے ساتھ اُن کے دو بیٹے اُن کے تابوت کے پیچھے چلے۔ نہ صرف رُوس کے طول و عرض بلکہ سارے یورپ میں اُن کے اعزاز میں ماتمی تقاریب منعقد کی گئیں۔ Irina کا ایک مقولہ پاکستانی خواتین کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ دُنیا میں کوئی کام اتنا مشکل نہیں کہ وہ ایک خاتون نہ کر سکے۔ اُنہوں نے اپنی قابلیت اور بہادری سے ثابت کر دیا کہ انسانوں کو بنانے والے نے عورتوں کو اُنہی خوبیوں سے نوازا ہے جو مردوں کو دی گئیں۔ نہ صرف علمی قابلیت بلکہ میدان جنگ میں درکار بہادری بھی۔ جرات اور بے خوفی جیسی خوبیوں کا مالک‘ جن کے لئے چہرے پر مونچھوں کی موجودگی (یعنی مرد ہونا ہرگز ضروری نہیں) اشتراکی انقلاب کی برکت سے زار کا رُوس سوویت یونین بنا تو نہ صرف اس کا پرچم بدلا (نئے پرچم پر درانتی اور ہتھوڑے کا نشان اُسی طرح جگمگایا جس طرح ہمارے پرچم پر چاند ستارہ) بلکہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق ملے اور آگے بڑھنے کے سارے مواقع بھی۔ 
قائد اعظم ہم سے ستمبر 1948ء میں جدا ہوئے تو اُن کی بہن (فاطمہ) مادرِ ملت بن کر ہمارا سب سے قیمتی قومی سرمایہ بن کر 1965ء تک زندہ رہیں۔ ہمارے بد نصیب سروں سے اپنی ماں کا مبارک سایہ اُٹھا تو چند سالوں کے اندر اُن کے بھائی کا بنایا ہوا ملک ٹوٹ گیا۔ ملک کا جو حصہ بچ گیا۔ اُسے کرپشن کا سرطان اور نالائقی کا فالج لے ڈوبا۔ اب تو 'نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘۔ ہم بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں ایک خطرناک اور ہلاک کر دینے والے گرداب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک آزاد ملک کو صرف جمہوری نظام ہی زندہ و تابندہ رکھ سکتا ہے‘ مگر جمہوری نظام کو صرف قابل اور دیانتدار لوگ چلا سکتے ہیں۔ کروڑوں بہادر‘ محنتی‘ جفاکش‘ ذہین اور بڑی سے بڑی قربانی دینے والے پاکستانیوں کی امامت صرف وُہی قائدین کر سکتے ہیں‘ جنہوں نے صداقت‘ عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھا ہو۔ سرسری طور پر نہیں بلکہ اچھی طرح پڑھا ہو۔
ایک ضرب المثل کے مطابق شیروں کی قیادت گدھوں کے ہاتھ آ جائے تو ایک بڑی مصیبت اور ایک بڑا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ آج یہی ہماری مصیبت ہے اور یہی ہمارا بحران۔ اب آپ بتائیں کہ ہم اس پر قابو پائیں تو کس طرح؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں