جادو اور جادو نگری… (3)

آج میرا ارادہ اُس موضوع پر ایک اور کالم لکھنے کا ہرگز نہ تھا‘ جس پر میں دو کالم لکھ چکا ہوں‘ لیکن لکھنا پڑ رہا ہے۔ آج میں نے عدالت سے جلد فارغ ہو کر مقدمہ ہار جانے کے بعد غم غلط کرنے کے لئے وسطی لندن میں پیدل سیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ جونہی کتابوں کی دُکان دیکھی‘ بے اختیار اُس کی طرف لپکا۔ شومئی قسمت‘ میری نظر جس کتاب پر جم گئی‘ اُس کا نام تھا: Witchcraft in Exeter 1558-1660 برطانیہ کی ایک کائونٹی Devon کے دارالحکومت کا نام Exeter ہے۔ مصنفین کو کئی سالوں کی تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ Exeter میں برطانیہ میں پہلی بار ایک خاتون کو چڑیل (یا ڈائن) قرار دے کر موت کی سزا دی گئی۔ Exeter کا برطانوی تاریخ میں نام اس لئے دوبارہ لکھا گیا کہ آخری بار ایک خاتون کو جادوگرنی ہونے کے الزام میں سزائے موت بھی اسی Exeter میں دی گئی۔ آپ کو شاید اعتبار نہ آئے کہ آج کے برطانیہ میں سینکڑوں عورتیں اپنے آپ کو انوکھے پن کے شوق میں یا عملی مذاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے چڑیل کہلواتی ہیں‘ اور اس کا برسرِ عام اعلان کرتی ہیں۔ اوٹ پٹانگ حرکتوں کی مرتکب ہوتی ہیں۔ بڑے اہتمام سے بچوں کا ڈرانے والا حلیہ بناتی ہیں۔ بال بکھیر کر۔ منہ پر سیاہی مل کر۔ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر غیر انسانی آوازیں نکالتی ہیں اور اس سارے عمل سے نہ صرف خود بڑی لطف اندوز ہوتی ہیں بلکہ توقع رکھتی ہیں کہ اُنہیں دیکھنے والے بھی بڑے محظوظ ہوں گے۔ تین سال پہلے کا ذکر ہے‘ ایسی سینکڑوں ماڈرن اور خود ساختہ چڑیلیں Exeter کے شہر میں وارد ہوئیں۔ اُنہوں نے شہر کے بارونق اور مصروف علاقوں میں بڑا اُودھم مچایا اور کائونٹی ہال کے باہر زبردست مظاہرہ کیا۔ اُن کا مطالبہ یہ تھا کہ 1682ء میں تین عمر رسیدہ خواتین اور 1685ء میں ایک نوجوان لڑکی کو جادوگرنی ہونے کا الزام ثابت ہو جانے پر سزائے موت دیئے جانے کے فیصلے کو منسوخ کرکے انہیں سرکاری طور پر بے گناہ اور بری الذمہ قرار دیا جائے۔ 1563ء میں جادوگروں (عملاً جادوگرنیوں) کو سزائے موت دینے کا قانون تیار ہوا‘ جو تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد 1735ء میں منسوخ کیا گیا۔ ایک بوڑھی خاتون کو چڑیل یا (ڈائن) ثابت کرنے کے لئے استغاثہ نے یہ ثبوت بھی پیش کئے کہ وہ ہر وقت نہ سمجھ آنے والے الفاظ بڑبڑاتی رہی ہے اور ایک بڑا مینڈک ہمیشہ اُس کے لباس میں چھپا ہوا اپنی موجودگی کا اعلان کرتا رہتا ہے‘ جو یقینا کسی بدرُوح کی آواز کی بازگشت لگتی ہے۔ 1585ء چڑیلوں کے خلاف قانون کی منظوری کے 22 سال بعد اسی قدیم شہر Exeter میں ایک عورت کو چڑیل کے الزام میں پھانسی پر لٹکا کر سزائے موت دی گئی‘ جس پر ایک مقامی دستکار (جولاہے) اور اُس کے سارے بال بچے کو سفلی علم سے ہلاک کرنے کا الزام ثابت ہو گیا تھا۔ اس المیہ سے 28 برس بعد 1610ء میںRichard Wilkyns نامی شخص پر اپنے پڑوسیوں کو اور اُن کے پالتو جانوروں کو جادو کے ذریعہ ایک پُراسرار بیانیہ کو بار بار پڑھ کر (اور پھر پھونک مارکر) ہلاک کر دینے کا مقدمہ چلا۔ ملزم کا مجرم بن جانا اُسے تختہ دار تک لے گیا۔ صدیاں گزر گئیں تو پتہ چلا بلکہ ثابت ہو گیا کہ سارے ملزم بے گناہ تھے۔ وہ جادو کے حروف ابجد سے بھی ناواقف تھے مگر وہ سزا سنانے والے جرگہ کو اپنی بے گناہی کا یقین نہ دلا سکے۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میں کتب خانے میں اس شعبہ کو ایک نظر نہ دیکھوں‘ جس کا تعلق مافوق الفطرت عقائد سے تھا۔ پروفیسرMarion Gibson کائونٹی Devon کی مقامی یونیورسٹی (Exeter) انگریزی ادب میں جادو کے مقام اور طلسماتی کہانیوں کا مضمون پڑھاتی ہیں۔ اُنہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اٹھارہویں صدی میں مغربی برطانیہ کے دیہی علاقوں میں ضعیف العقیدہ لوگ گھر کی کھڑکیوں میں پرُانے جوتے احتیاط سے رکھتے تھے تاکہ جب کھڑکی کھولی جائے تو بد رُوحیں پرواز کرتی گھر کے اندر داخل نہ ہو جائیں۔ انیسویں صدی کے Victorian era میں سارا عتاب کالے رنگ کی بلی پر گرا۔ انسانی سوچ میں بلی (اور وہ بھی کالے رنگ کی) نے بڑا عروج و زوال دیکھا ہے۔ قبل از مسیح کے فرعونی دور کے مصر میں بلی کو مقدس جانور سمجھا جاتا تھا اور اُس کی پوجا کی جاتی تھی۔ اُنیسویں صدی کے برطانیہ میں اسے منحوس سمجھا گیا۔ وہ نحوست سے ایک قدم آگے بڑھ کر خوف کی علامت بن گئی چونکہ عامیانہ عقیدہ کے مطابق شیطانی رُوحیں سب سے زیادہ بلی کا روپ دھارنے کو پسند کرتی تھیں۔ وجہ؟ نہ کسی نے پوچھی اور نہ کسی نے بتائی۔ میں نے اپنے گھر میں بہت سے انسائیکلوپیڈیا اکٹھے کر رکھے ہیں۔ سب سے پہلے مشہور اشاعتی ادارہLongman کا شائع کردہ بڑے سائز کے 1200 صفحات کے انسائیکلوپیڈیا کی طرف رجوع کیا۔ صفحہ نمبر645 کے بائیں کالم میں آخری پیراگراف جادو کے بارے میں تھا۔ آٹھ سطور کا خلاصہ یہ تھا کہ ماضی قریب میں سائنس کے ظہور سے پہلے انسان کو دنیا میں ہونے والے واقعات صرف جادو کے حوالے سے سمجھ آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک ہر قبیلہ کی سرداری اُس شخص کو دی جاتی تھی جو (اپنی اور دُوسروں کی نظر میں) جادو کا علم جانتا تھا۔ انسانی ذہن کتنی بھی ترقی کر جائے وہ صدیوں پرُانے نقوش کا نام و نشان نہیں مٹا سکتا۔ آپ کو پڑھ کر شاید حیرت ہوگی کہ آج بھی یورپ میں بہت سے لوگ اچھے اور برُے شگون پر اعتقاد رکھتے ہیں۔
آج کے دور کے ادب میں جادو اور سحر۔ جادوگر اور ساحر کے الفاظ محاورتاً استعمال کئے جاتے ہیں۔ شاعرِ مشرق و مغرب اقبال نے لکھا کہ جب محکوم خواب سے جاگنے لگیں تو اُنہیں حکمران کی ساحری (جادوگری) پھر سُلا دیتی ہے۔ اقبال نے ساحری کا لفظ جن معانی میں استعمال کیا وہ تھے: شعبدہ بازی‘ عیاری‘ پُرکشش دلچسپی (طرح طرح کے فلمیں یا کھیل تماشے) مشاغل‘ فروعی مسائل کی دلدل میں گرفتاری‘ مذہب/ عقائد یا زبان کے اختلاف سے پیدا ہونے والے مسائل کی فسادات میں تبدیلی۔ یہ وہ حربے ہیں جس سے حکمران طبقہ عوام کو آنکھیں کھول کر اپنا اصل دُشمن دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا اور اُن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کر دیتا ہے۔ جب سے دُنیا بنی ہے۔ روشنی اور اندھیرے۔ عقل اور اندھے اعتقاد۔ دانش اور تعصب۔ فہم اور وہم کے درمیان جنگ جاری ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہر دور میں ظالم اور مظلوم‘ انصاف اور بے انصافی‘ مساوات اور عدم مساوات‘ سچ اور جھوٹ کے درمیان۔ پانچ ہزار سال کی انسانی تاریخ اس کشمکش سے مرتب ہوتی ہے اور ہو رہی ہے۔ جب دور جدید میں علم اور عقل اور سائنس کا سورج طلوع ہوا تو جہالت توہمات اور جادو کا زور ٹوٹنے لگا۔ صد افسوس کہ پوری طرح ابھی تک نہیں ٹوٹا۔ اس کی ایک وجہ انسان کا بنیادی طور پر کمزور ہونا بھی ہے۔ یہ کمزور انسان کو ایسی چیزوں (مثلاً بدرُوحوں) سے بھی ڈراتی ہے جن کا وجود تک نہیں ہوتا۔ آج بدقسمتی سے وطن عزیز میں تعصب تنگ نظری اور توہمات کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں لاہور کے پاک ٹی ہائوس میں مجھے کمال کے ایک شاعر منیر نیازی نے اپنی ایک نظم سنائی جو مجھے بھول گئی ہے مگر ایک مصرعہ 55 برس کے بعد بھی یاد ہے:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
وطن عزیز میں چاروں طرف ابتری اور افراتفری دیکھ کر مجھے یہی لگتا ہے کہ ہم پر واقعی آسیب کا سایہ کر دیا گیا ہے۔ عوام کی اکثریت آج بھی توقع رکھتی ہے کہ جادونگری سے کوئی جادوگر برآمد ہو گا اور وہ ایک پھونک مار کر ہمارے سارے مسائل ختم کر دے گا۔ وُہ نہیں جانتے کہ ایسا کبھی نہ ہوگا۔ ہمارے سارے مسائل سارے عذاب‘ ساری مصیبتیں صرف ایک جادوگر ختم کر سکتا ہے اور اُس کا نام ہے عوام۔ صد افسوس کہ یہ جادوگر صدیوں سے گہری نیند سویا پڑا ہے‘ اور خود جادوگر کے خواب دیکھتا ہے۔ اصلی اور حقیقی جادوگر جاگے گا تو سویرا ہوگا۔کاش کہ مجھے کم از کم اتنا جادو تو آتا کہ میں چھ ہزار میل کے فاصلہ سے سوئے ہوئے جادوگر کو جگا سکتا۔ اگر آپ کو آتا ہے تو آپ برائے مہربانی یہ کارنامہ سرانجام دیں اور میری دعائیں لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں