یہ تو شمسہ بھی جانتی ہے

ایک گھریلو خاتون جو مغربی لندن کے مضافات میں رہتی ہے‘دوسری بار بیوگی کے بعد اُس نے برطانوی حکومت سے سرکاری وظیفہ لینے کی بجائے (جو اُس کا قانونی حق تھا) محنت مزدوری کی اور خود کفیل ہو گئی۔ تعلیم صرف ایف اے تک۔ دو شادی شدہ بچیوں کی ماں۔ آسمان سے جو بھی مصیبت اُترتی ہے وہ سب سے پہلے شمسہ کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے مگر اُس پُر عزم اور بہادر خاتون کے نہ پائوں ڈگمگائے اور نہ دن کا چین خراب ہوا اور نہ رات کا آرام۔ عمر پچاس سال سے زیادہ مگر چہرے کی دلکشی برقرار۔ سدا بہار مسکراہٹ۔ صاف دل۔ ذہین۔ مخلص اور ہمدرد۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے دوستوں کی فہرست بنائوں تو اُس کا نام بہت اوپر لکھتا ہوں۔ وقت نکال کر مجھے ہر روز فون کرتی ہے۔ (جو میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے زیادہ تر سُن نہیں سکتا۔)تاکہ میرے ساتھ دُکھ سکھ کی باتیں کر سکے۔ دُکھ زیادہ اور سُکھ کم۔ بہت ہی کم۔ کسی نامور مورخ(افسوس کہ نام یاد نہیں رہا) نے لکھا تھا کہ امن دو جنگوں کے درمیان مختصر وقفہ کو کہتے ہیں۔ اسی طرح دو دُکھوں کے درمیان آنے والے وقفہ کو سُکھ کہا جاسکتا ہے۔ دُوسری کروڑوں گھریلو خواتین کی طرح شمسہ میں عام فہم (Common Sense) کی خوبی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں جو لوگ جتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں، اُسی تناسب سے اس خوبی سے محروم ہوتے جاتے ہیں۔ نوبت یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ اقبال کو بڑے دُکھ کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے۔ ع
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
جب صورت حال اتنی خراب ہو جائے تو اقبال نے اس کا جو علاج تجویز کیا وہ یہ تھا۔ ع 
اپنی خودی پہچان او غافل افغان
ایک صدی گزر گئی۔ تمام اسلامی ممالک (خصوصاً پاکستان ) میں متاع غرور کا سودا کرنے والی کی تعداد بڑھتی رہی۔ تعداد میں اضافہ سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ نرخ گرتا رہا۔
قوم فروختند چہ ارزاں فروختند
(قوم کو بیچ ڈالا اور وہ بھی کتنے سستے داموں) پچاس کی دہائی میں ہم نے امریکہ کی حاشیہ برداری اور غلامی شروع کی۔ آغاز یوں ہوا کہ ہم دوسوویت یونین دُشمنی معاہدوں Cento اور Seaato کے رُکن بن گئے۔ ساٹھ کی دہائی میں (امریکی دبائو کے تحت) اپنے تین دریا (ستلج ۔ بیاس اور راوی) ہندوستان کے ہاتھ اونے پونے داموں بیچ ڈالے۔ پشاور کے قریب (بڑا بیر کے مقام پر) امریکی فضائیہ کو اڈہ دیا جہاں سے روس پر اڑنے والے امریکہ کے جاسوسی طیارے پرواز کیا کرتے تھے۔ 1947 سے لے کر 1962 ء تک ان پندرہ سالوں میں پاکستان نے کس طرح بصد خوشی و بصد رغبت اپنے گلے میں امریکہ کا طوق غلامی لٹکایا۔ اُس پر ایک کالم نہیں بلکہ سینکڑوں کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ میرے ایک بیٹے فاروق نے اسی موضوع پر لندن یونیورسٹی سے پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ تحقیقی مقالہ اتنے اچھے معیار کا تھا کہ پاکستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے Pakistan and the West کے عنوان سے اُسے کتابی صورت میں شائع کیا۔ جو بڑی طاقت اربوں ڈالر کی مالی امداد (بطور خیرات دے کر) ہمارے قومی بجٹ کو متوازن بناتی ہے۔ وہ جو ہمیں اربوں ڈالروں کی فوجی امداد دیتی ہے۔ یہی بڑی طاقت ہمارے ملک میں سیاہ و سفید کی مالک ہے۔ اس کے احسانات کی تعداد اور وزن اتنا زیادہ ہے کہ ہم اپنا احسان مندی اور تشکر سے جھکا ہوا سرنہیں اٹھا سکتے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی جنگ شروع ہوئی تو امریکہ سے کرایہ لے کر لڑنے والے مجاہدین کی فوجی تربیت سے لے کر ان کی قیادت کرنے اور اُنہیں کرایہ ادا کرنے کی ذمہ داری جس فوجی آمر نے سنبھالی وہ اپنے آپ کو مرد حق کہلانا پسند کرتا تھا۔ اپنے نام کے برعکس (جو ضیاء یعنی روشنی سے شروع ہوتا تھا) وہ پاکستان کو اندھیروں میں اس طرح دھکیل گیا کہ اب ہمیں باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر
ً نہیں آتی۔ جنرل ضیاء الحق نے یہ کار خیر جہاں چھوڑا، جنرل پرویز مشرف نے وہاں سے شروع کیا۔ اپنے قریبی اتحادی (افغانستان) پر امریکہ کی غیر قانونی اور بے جواز جارحیت میں اُس کی بھر پورمدد کی۔ (جو ہم آج تک کرتے آرہے ہیں۔) پاکستان میں افغان سفیر (ملاّ ضعیف) کو اسلام آباد میں سی آئی اے کے درندوں کے حوالہ کر دیا جنہوں نے ہمارے معزز مہمان پر میزبان کی چاردیواری کے اندر ہی اُس پر ناقابل بیان تشدد شروع کر دیا۔ پاکستان کی ایک بے گناہ بیٹی (ڈاکٹر عافیہ صدیقی) کو گھر سے کراچی ایئر پورٹ تک کے سفر کے دوران اغواء کرکے امریکہ کے حوالہ کر دیا۔ (عامل کانسی اور رمزی یوسف کی طرح)۔ اتنے سال گزر گئے۔ عافیہ آج بھی امریکی قید میں اُس جرم کی سزا (عمر قید) بھگت رہی ہے جو اُس نے کیا ہی نہیں۔ آپ جنرل مشرف کی کتاب میں امریکی نظر میں ناپسندیدہ افراد کو امریکہ کے حوالے کرنے اور اس کے عوض ڈالر وصول کرنے کا فخریہ اعتراف پڑھ چکے ہوں گے۔ پاکستان کی سرزمین پر امریکی فضائیہ نے سینکڑوں ڈرون حملے کئے۔ آج بھی افغان سرحد پر واقع سلالہ چوکی پر ہمارے قابل صد فخر بہادر سپاہیوں کے خون کے نشان مدہم نہیں ہوئے اور وہ ہمیں اُن کی امریکی فضائیہ کے ہاتھوں شہادت کی یاد دلاتے ہیں۔ اُسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لئے امریکی فضائیہ نے ہماری قومی خود مختاری اور ہماری Air Space پر ہماری Sovereignty کی دھجیاں اڑا دی۔ میں اتنی سطور لکھ چکا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ میں نے آج کے کالم میں ایک بھی ایسی بات نہیں لکھی جو میرے قارئین کو پتہ نہ ہو۔ وہ حقائق جو آپ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں۔ اُنہیں دہرانے کا کیا فائدہ؟ اجازت دیجئے کہ کالم کے آخر میں اس بیانیہ کو سمیٹوں اور آپ کے سامنے اپنا یہ موقف پیش کروں کہ ہم نے 60 سال پہلے جو فصل بوئی تھی اب وہ پک کر تیار ہو چکی ہے اور اُسے کاٹنے کا وقت آگیاہے۔ یہ نہ افسوس کا مقام ہے اور نہ حیرت کا۔ صرف اور صرف عبرت کا۔ وہ جو امریکی ڈالروں اور امریکی اسلحہ کی بدولت زندہ سلامت ہے اُس کی قوت کھوکھلی، مصنوعی، نمائشی اور مانگے تانگے کی ہے۔ آج یہ سچائی آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کی طرح روشن ہے اور اتنی عام فہم سچائی کہ شمسہ بھی جانتی ہے کہ 2018 میں پاکستان کے قومی مفاد اور امریکی مفاد کے درمیان تضاد نے ہمارے وجود کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ۔ یہ کالم نگار اقبالؔ کا قلندر ہوتا تو اُمید کی جا سکتی تھی کہ اُس کی یہ بات ہمارے قائدین کو پانی پانی کر دیتی۔
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
اقبالؔ نے ہمیں بار بار سمجھایا کہ ہم شیشہ گران فرنگ کے احسان نہ اُٹھائیں اور سفالِ پاک یعنی اپنے وطن کی مٹی سے مینا وجام بنائیں۔ مذکورہ بالا فرموداتِ اقبال اِن کالموں میں کئی بار پہلے بھی لکھے جا چکے ہیں۔ تکرار پر معذرت خواہ ہوں۔ شمسہ نہ لیڈر ہے۔ نہ کسی کابینہ کی رُکن اور نہ گریڈ22 کی افسر اور نہ پانچ ستاروں والی جرنیل۔ ایک سیدھی سادی خاتون جو جسٹس ثاقب نثارصاحب کے بابا رحمت سے ملتی جلتی ہے اور بار بار کہتی ہے کہ جس امریکہ نے پہلے پاکستان کو استعمال کر کے افغانستان پر حملہ کیا اب وہ افغانستان میں اپنے فوجی اڈوں کواستعمال کر کے پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ (اور غالباً کرے گا)۔ امریکہ کی بندہ پروری میں ہمارے 60 سال گزرے۔ یہ تو شمسہ بھی جانتی ہے کہ انگریزی محاوروں کے مطابقThere are no free Lunches ۔ امریکہ نے جماندرُو (پیدائشی) گداگروں کو جو خیرات دی اُس کے عوض اُسے غنڈہ گردی اور اپنی من مانی کرنے اور اپنے غلط احکامات کی تکمیل پر اصرار کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر امریکہ کو یہ حق ہم نے دیا۔ یہ تو شمسہ بھی جانتی ہے کہ شمالی کوریا اور ایران نے اُسے یہ حق ہر گز نہیں دیا۔ شمسہ کی طرح پاکستان کے عوام (وُکلا۔ اساتذہ۔ کسان۔ مزدور۔ صحافی اور دانشور) بخوبی جانتے ہیں کہ سچائی کیا ہے؟ذاتی مفاد نے ہمارے قائدین کی آنکھوں پر پٹی باندھی دی ہے اور کانوں میں روئی ٹھونس دی ہے۔ وہ نہ خطرے کی سرخ بتی دیکھ سکتے ہیں اور نہ خطرے کی گھنٹی سن سکتے ہیں مگر یہ کوئی راز نہیںکہ یہ تو شمسہ بھی جانتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں