درویش کا سبز پتہ

آج کے کالم کا عنوان ایک فارسی کہاوت سے لیا گیا ہے۔ جو میں نے کم از کم 65 سال پہلے پڑھی تھی اور اس طرح پڑھی کہ ذہن پر نقش ہوگئی۔ ''برگ سبز است تحفہ درویش‘‘۔ آپ پڑھ کر یہ ضرور سوچیں گے کہ اس کہاوت میں فارسی کے الفاظ کی تعداد صرف دو ہے۔ برگ کا مطلب ہے پتہ اور است کا ترجمہ: ''ہے‘‘۔ اب زمانہ بدلا‘ جنگل ختم ہوئے تو درویش کہاں جائیں؟ کیا صحرائوں کا رُخ کریں۔ مگر وہاں بھی نہروں کا اور نئی آبادیوں کا جال بچھا دیا گیا ہے کیا پہاڑوں پر چڑھ جائیں مگر وُہ بھی اب ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے کوہ پیمائوں کی زد میں ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ بھولے بسرے زمانہ میں جب درویش ہوتے تھے اُور اُنہیں عید‘ تہوار یا خوشی کے کسی اور مناسب موقع پر اپنے عزیز و اقربا کو تحفہ دینا ہوتا تھا تو وہ یہ رسم ضرور پوری کرتے تھے مگر ان بے چاروں کے پاس دینے کو درخت کی ہری بھری ٹہنی کا صرف ایک سبز پتہ ہوتا تھا اور لینے والا مروتاً شکریہ ادا کرتا تھا کہ بذات خود تحفہ میں دی جانے والی چیز کی نہیں بلکہ اُس جذبہ کی اہمیت ہے‘ جس کے تحت تحفہ دیا گیا۔ ایک صدی قبل زمانہ اتنا بدل چکا تھا کہ اقبال نے عیاری کے معاملہ میں درویشوں کو سلطانوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔ اور پھر پوچھا کہ یاخدا! تیرے سادہ دل بندے جائیںتو جائیں کہاں؟ میرا علم تو صرف ایک سادہ دل بندہ تک محدود ہے جو روزنامہ دُنیا کا ایک مسکین کالم نگار ہے اور ہر ہفتہ ایک بار اپنے قارئین سے چھ ہزار میل کے فاصلہ سے لگی لپٹی رکھے بغیر اس طرح مخاطب ہوتا ہے‘ جس طرح وہ اس کے سامنے بیٹھے ہیں اور اس سے باتیں کر رہے ہیں۔ مشروب کیا ہوگا؟ دن ہو تو لسی اور شام ہو تو چائے۔ پاک سر زمین پر کوئی اور مشروب پینے کے لئے ایک فیصد مراعات یافتہ طبقہ کا فرد ہونا ضروری ہے‘ جو نہ خود کالم نگار ہے اور نہ اُس کے قارئین۔
اِدھر اُدھر کی باتیں بہت ہو چکیں اب آج کے موضوع کی طرف واپس چلتے ہیں اور موضوع ہے (آپ کو شاید اعتبار نہ آئے) تحائف کے تبادلہ کی مختصر تاریخ۔ قصہ یہ ہے کہ یورپ کے ثقافتی سرمایہ میں قرونِ وسطیٰ (Middle Ages) کی ایک بوسیدہ اور پھٹی پرانی چادر کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ مذکورہ بالا چادر پر کشیدہ کاری سے منظر کشی کی گئی ہے۔ اس طرح کی چادر کو Tapestry کہتے ہیں اور اسے دیواروں پر آویزاں کیا جاتا ہے۔ میں جنوب مشرقی لندن کے ایک قدیم گھر میں رہتا ہوں۔ گھر خریدا گیا تو میری سگھڑ بیوی اور سلیقہ مند بچوں نے اولین فرصت میں ایک Tapestry خرید کر ایک دیوار پر سجا دی اور اب میری ساری شام اُس کے سایہ میں گزرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اُس کی قیمت بمشکل چند سو پائونڈ ہو گی۔ فرانس میں جو قدیم ترین Tapestry ہے اُس کا نام Bayeux ہے۔ پچھلے دنوں فرانس کے صدر Macron برطانیہ کے سرکاری دورہ پر آئے تو اہل برطانیہ کے دل جیتنے کیلئے (جن کے صدیوں سے فرانس سے تعلقات زیادہ خراب یا بہت خراب رہے ہیں) باکمال مہربانی‘ یہ پیشکش کی کہ مذکورہ بالا Tapestry کو‘ فرانس کی تاریخ میں پہلی بار‘ فرانس سے باہر نمائش کیلئے سال رواں برطانیہ بھیجیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ آج تک کوئی بھی بڑی انشورنس کمپنی اس کا بیمہ کرنے اور نقصان کی صورت میں اس کا معاوضہ ادا کرنے پر تیار نہیں ہوئی۔ مذکورہ بالا چادر کو مروجہ معانی میں Tapestry بھی نہیں کہا جا سکتا، وہ Bayeux نامی فرانسیسی شہر کی بجائے کسی گمنام برطانوی قصبہ میں تیار کی گئی۔ ایک بات پکی اور طے شدہ ہے کہ اس کی عمر ساڑھے نو سو سال ہے‘ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس چادر نے کس کے توسط سے برطانیہ سے فرانس کا سفر کیا اور نئے وطن میں اس کا جی اتنا کیوں لگا کہ وہ نو سو پچاس سالوں میں پہلی بار اپنے آبائی وطن آئے گی اور وہ بھی صرف چند ماہ کے لیے۔ بہرحال قابل ذکر بات یہ ہے کہ فرانسیسی صدر کا اعلان اس تیر کی طرح تھا جو ٹھیک نشانے پر بیٹھے۔
اہل برطانیہ کے دل آناً فاناً موم ہو گئے اور اب وہ بے تابی سے گھڑیاں گن رہے ہیں۔ جب وہ اس چادر کو بار بار دیکھ کر شربت دیدار پئیں گے۔ برطانیہ آنے سے پہلے فرانس کے صدر چین گئے تو اپنے ساتھ اعلیٰ نسل کا ایک گھوڑا لے گئے جو انہوں نے اپنے میزبانوں کو بطور تحفہ دیا۔ گھوڑے کی عمر آٹھ برس تھی اور نام تھا Vesuvius۔ کالم نگار کی طرح پرانے وقتوں کے لوگوں کو شاید یاد ہو کہ ساٹھ کی دہائی شروع میں امریکی صدر جان ایف کینڈی کی بیگم پاکستان آئیں تو ایوب خان نے انہیں اتنا ہی شاندار گھوڑا بطور تحفہ دیا تھا۔ مہمان خاتون شہسواری کا فن جانتی تھیں۔ ان کا بس چلتا تو کراچی سے واشنگٹن تک کا سفر اپنے سفید طیارے کے بجائے کالے گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر طے کرتیں۔ 
امریکی صدر براک اوباما برطانیہ کے دورے پر آئے تو وزیراعظم گورڈن براؤن نے انہیں ونسٹن چرچل کی سوانح عمری کا ایک سیٹ بطور تحفہ دیا جس کی چمڑے سے جلد بندی مراکش میں‘ دنیا کے سب سے بڑے ہنر مندوں نے اس کمال سے کی کہ دنیا میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ امریکی صدر نے اپنے میزبان کو ڈی وی ڈی کا ایک سیٹ دیا‘ بعد میں پتا چلا کہ انہوں نے وہ ایئر پورٹ کی ڈیوٹی فری دکان سے خریدے تھے۔ امریکی اور برطانوی سربراہان مملکت سعودی عرب جائیں تو میزبان انہیں ہیرے جواہرات سے مزین تحائف دیتے ہیں اور مہمان انہیں اپنی فریم شدہ تصاویر۔ فریقین کے تحائف میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے‘ جو ان کے باہمی تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں۔
تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ جانوروں کا تحفہ دینے میںاہل چین دُنیا میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ہاتھی، Rhino، ریچھ اور نادر پرندے۔ پندرہویں صدی میں ایک افریقی ملک نے چینی بادشاہ کی طرف دوستی کا ہاتھ اس طرح بڑھایا کہ اُسے زرافہ بطور تحفہ بھیجا اور پکی دوستی کر لی۔ گیارہویں صدی میں مذکورہ بالا جانور بطور تحفہ استعمال کیا گیا جو تیر بہدف ثابت ہوا۔ بازنطینی بادشاہ کیلئے مصر سے ایک زرافے کے سفر کا ذکر بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ سال تھا 1820ء۔ جہاز فرانسیسی بندرگاہ Marseilles پہ لنگر انداز ہوا اور بے چارے زرافے کو وہاں سے پیرس تک کا لمبا سفر چل کر طے کرنا پڑا تاکہ راستہ میں زیادہ سے زیادہ لوگ اس جانور کو دیکھ سکیں۔ پھر وہی ہوا جس کی اُمید تھی‘ لوگوںکے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔ بچت یہ ہوئی کہ زرافے کے ساتھ چلنے میں اس کے دیرینہ دوست (بارہ سنگھے) نے اس کا ساتھ دیا۔ دونوں دوست حیرت زدہ آنکھوں سے اہلِ فرانس کو دیکھتے‘ اور اہلِ فرانس ان کو۔
مارسے کی بندر گاہ سے پیرس تک کا سفر اتنا لمبا ہر گز نہ تھا جو نویں صدی میں عباس نامی ہاتھی کو بغداد سے یورپ کے سب سے طاقتور حکمرانCharlemagne کے دربار تک کرنا پڑا۔ تحائف کی تاریخ کے اٹھارہویں صدی کے شروع میں ہونے والے ایک واقعہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ مغل بادشاہ کا دربارہ اور وہ بھی لاہور میں۔ ولنذیری وفد تجارتی مراعات حاصل کرنا چاہتا تھا‘ اس نے مغل بادشاہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے مشرق و مغرب کے تحائف کے انبار لگا دیئے۔ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اول نے سلطنت عثمانیہ کے سلطان کو اپنا دوست بنانے کے لیے موسیقی کا ایک بہترین Organ بھیجا۔ سلطان اتنا خوش ہوا کہ یہ تحفہ لانے والے کو اپنے حرم سے دو خواتین کی پیشکش کی‘ جو سفیر نے ملکہ برطانیہ کی ناراضی کے ڈر سے قبول نہ کی اور ساری عمر کف افسوس ملتا رہا۔
قرون وسطیٰ کا ہندوستان ہو یا یورپ‘ ہر دو ریاستوں یا ہر دو ممالک کے حکمران ایک دوسرے کے گھرانے میں شادی کرکے اپنے تعلقات کو اعلیٰ ترین سطح پر لے آتے تھے۔ پاکستان میں برسر اقتدار اور مراعات یافتہ اشرفیہ کی عمارت چار ستونوں پر کھڑی ہے۔ بڑے فوجی افسر‘ بڑے سرکاری افسران، سرمایہ دار اور جاگیر دار۔ یہ بھی آپس میں رشتہ ازدواج کے ذریعے اپنی قوت اور اثر و رسوخ کو بڑھاتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو تحفہ دیں تو وہ یقینا اس سبز پتہ سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے جو درویش کی کل کائنات ہوتی ہے۔ جب قدرت انسانوں پر مہر بان ہو تو انہیں وہ تحفہ دیتی ہے جس کے وہ اہل نہیں ہوتے۔ 1947ء میں ہمیں پاکستان کی صورت میں دنیا کا سب سے اعلیٰ تحفہ ملا۔ کیا ہم نے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیا؟ آپ جواب دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں