جہاں گرد کی واپسی

آپ مجھ سے بلا توقف اتفاق کریں گے کہ مبالغہ آرائی کی بھی حد ہوتی ہے۔ اس کالم نگار نے آج کے کالم کے موضوع کے انتخاب میں وہ حد بھی یقینا عبور کر لی۔ محمد سلیم الرحمن جیسے بلند پایہ ادیب نے ہومر (Homer) کے شہرہ آفاق رزمیہ کا اُردو ترجمہ کیا اور کمال کا کیا تو انہوں نے کتاب کا وُہی نام رکھا جو کالم نگار نے آج کے کالم کا، مگر کہاں مذکورہ بالا رزمیہ کا زندہ جاوید ہیروUlysses/Odysseus اور کہاں یہ مسکین کالم نگار‘ جو 4 فروری کو پاکستان گیا اور 17 فروری کو واپس آ گیا۔ غالباً بہادری کا واحد کارنامہ پی آئی اے سے سفر کرنا تھا۔ روایتی اُونٹ کی طرح اُس کی کوئی کل سیدھی نہ تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ پی آئی اے کا طیارہ (تمام بے آرامیوں اور طرح طرح کی خامیوں کے باوجود) مقررہ وقت پر اُڑا اور مقررہ وقت پر بحفاظت منزل مقصود پر پہنچا۔ کالم نگار کے دماغ میں اقبال کا یہ شعر سارا وقت گونجتا رہا ؎
صحرا است کہ دریا است
تہہ بال و پر ما است
غالباً پاکستان کی فضائیہ نے اس شعر کو سرکاری طور پر اپنا لیا ہے۔ محمد بن قاسم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں نے اپنا سفر کراچی سے شروع کیا۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی، جناب سعد امان اللہ خان، ڈاکٹر شاہدہ وزارت، جناب خلیل احمد نینی تال والا اور سندھ کے عوام کو زہر ملا پانی پلانے والوں کے خلاف جہاد کرنے والے وکیل جناب شہاب اوستو سے ملاقات نے کالم نگار کا حوصلہ (جو اکثر پست رہتا ہے) بڑھایا۔ افسوس کہ نہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد سے ملاقات ہوئی اور نہ میر ظفر اللہ جمالی صاحب سے۔ پیر پگاڑا صاحب سے ملاقات کی خواہش پوری ہونے میں اُن کا وہ سیکرٹری حسبِ سابق حائل رہا‘ جو غالبؔ کے دربان سے بھی سنگدلی میں کئی قدم آگے ہے۔ لاہور میں جناب خرم نواز گنڈا پور، ڈاکٹر صفدر محمود، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، راجہ منور احمد، ڈاکٹر اکرام الحق، جناب انیق ناجی اور میرے مرحوم دوست جناب مظفر قادر کی بیٹی کومل نے جس محبت سے مہمان نوازی کی وہ برسوں میرے بوڑھے دل کو گرماتی رہے گی۔ اسلام آباد میں جسٹس علی نواز چوہان، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، جناب ممتاز احمد تارڑ اور بین الاقوامی شہرت کا تحقیقی ادارہ SDPI (بالخصوص ڈاکٹر عابد سلہری) میرے میزبان بنے۔ فیصل آباد گیا تو اپنی مادر علمی (گورنمنٹ کالج یونیورسٹی) میں ذہین اور زندہ دل طلبا اور طالبات کو برطانوی آئین (جو ابھی تک غیر تحریر شدہ ہے) پر لیکچر دیا۔ وہاں سے جوہر آباد جانا ضروری تھا تاکہ میں اپنی والدہ مرحومہ اور مرحوم بھائی کی قبروں پر فاتحہ پڑھ سکوں۔ نیظم صاحب اور جناب محمد غضنفر صاحب نے ایک فکری نشست کا اہتمام کیا‘ جو خوشگوار حیرت کا موجب بنی۔ میں نے لاہور میں اُردو اور پنجابی کی بہت سی کتابیں خریدیں۔ ثمینہ سہیل کے گھر گلابی رنگ کی کشمیری چائے تین بار پی اور ڈاکٹر سرفرازصاحب کے گھر (پراٹھوں کے ساتھ) لسی۔
مذکورہ بالا ملاقاتیں اور دعوتیں کتنی بھی کمال کی ہوں‘ وہ رواجی ہیں۔ جو بات سب سے نمایاں‘ سب سے زیادہ قابل ذکر اور سب سے زیادہ ناقابل فراموش تھی‘ وہ اپنے مرحوم کرم فرما ملک غلام جیلانی مرحوم کی بیٹی عاصمہ جہانگیر کے جنازہ اور پھر اگلے دن ان کے گھر رسم قل میں شرکت تھی۔ ہمارے ملک کی آئینی تاریخ میں ایک بہادر باپ کی بہادر بیٹی کے نام روشنی کے مینار ہیں اور سنگ میل بھی۔ عاصمہ نے دُنیا بھر میں اپنی حق گوئی‘ بے باکی‘ بے خوفی‘ اُصول پسندی اور انسان دوستی جیسی خوبیوں کی بدولت پاکستان کا نام روشن کیا۔ برطانیہ اور یورپ کے تمام اچھے اخباروں میں‘ اُن پر لکھے گئے تعزیت نامے شائع ہوئے اور مرحومہ پر تعریف و توصیف کے پھول برسائے گئے۔ جنازہ میں شرکا کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ عاصمہ کے ورثا قذافی سٹیڈیم کا اہتمام نہ کرتے تو ہزاروں لوگ پاکستان کی ایک قابل فخر بیٹی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے سے محروم رہ جاتے۔ جنازہ پڑھنے والوں کی بڑی تعداد اپنی جگہ مگر دو باتوں نے اس نماز کو غیر معمولی بنا دیا۔ اوّل: سینکڑوں خواتین کی شرکت‘ (جو غالباً پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا) دوم: مسیحی برادری کے راہنمائوں کی مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ‘ صفوں میں موجودگی۔ ایک غیر معمولی خاتون کا جنازہ بھی غیر معمولی‘ تاریخی اور بے مثال تھا۔ جب تک انصاف‘ مساوات اور قانون کی حکمرانی کی جنگ جاری رہے گی، عاصمہ کی یاد‘ نہ نظر آنے والے اُفق پر کہکشاں بن کر چمکتی رہے گی اور ہمارے دلوںمیں اُس مبارک دن کے طلوع ہونے کی اُمید کو یقین میں تبدیل کرتی رہے گی جب پاکستان میں (فی الحال) چھائے ہوئے گھٹا ٹوپ اندھیرے روشنی میں بدل جائیں گے۔ 
اقبال نے میرِ کارواں کے رخت سفر میں تین چیزیں گنوائیں: نگہ بلند‘ سخن دلنواز اور جاں پُرسوز۔ جہاں تک ہم سے جدا ہو جانے والی میرِ کارواں کا تعلق ہے‘ وہ بلاشبہ ان تینوں خوبیوں کی مالک تھی۔ بہت سے لوگوں کو اُن کی سخن کھردری لگتی تھی۔ وہ اپنی رائے کا اظہار اس بلا کی تُندی سے اور لگی لپٹی رکھے بغیر کر دیتی تھیں کہ زبانی لاٹھی چارج کا وہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے اُبھر آتا تھا‘ جس میں شائستگی کا دامن تھامے ہوئے وہ نہ کسی بڑی سے بڑی طاقت کا لحاظ کرتی تھیں اور نہ کوئی رعایت دیتی تھیں۔ عاصمہ سے اُس کے اپنے (مثلاً یہ کالم نگار) اکثر خفا رہتے تھے اور بیگانوں کی ناخوشی اور ناراضی کا تو کوئی حساب نہ تھا مگر وہ (بقول اقبالؔ) زہر ہلاہل کو قند کہتیں تو کیونکر؟ یہی وجہ ہے کہ اُن کو الوداع کہنے کے لئے جناب علی احمد کرد کوئٹہ سے آئے اور جناب افراسیاب خٹک اسلام آباد سے۔ اہل وطن نے اپنی قابل صد احترام بیٹی کو جس شان سے رخصت کیا وہ عاصمہ کی روح کے لیے باعثِ طمانیت ہو گا۔ 
عاصمہ (بہت سے Heroes کی طرح) بوڑھی ہوئے بغیر ہم سے اور اپنے اہل خانہ سے دور چلی گئیں مگر صرف جسمانی معنوں میں۔ جسدِ خاکی تو سپرد خاک ہوا مگر اُن کی قائم کردہ روایات سدا بہار رہیں گی۔ کتنا اچھا ہوتا کہ لاہور سے میری پرواز میں دو دن کی تاخیر ہوتی اور میں 18 فروری کو باغ جناح لاہور میں منعقد ہونے والے فیض میلہ میں شرکت کی خوشی اور اعزاز حاصل کر لیتا۔ خود ساختہ جہاں گرد کی مجبوری یہ تھی کہ اُسے لندن واپس آکر یورپ اور وسطِ ایشیا کے کئی ممالک کے سفر کی منصوبہ بندی کرنا تھی۔ شاعر مشرق اقبالؔ نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو اُنہوں نے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک وہ جو ''سازد‘‘ (یعنی بنا کر رکھنے والے اور ہوا کے رُخ پر چلنے والے) کے اُصول پر کاربند تھے اور دُوسرے وہ جو ''ستیز‘‘ (یعنی لڑنے والے‘ مزاحمت کرنے والے‘ ہر بُرائی کے خلاف آواز اُٹھانے والے) تھے۔ عاصمہ کا تعلق موخر الذکر سے تھا۔ ایک پرچم اُٹھائے ہوئے‘ جو نہ صرف خون آلودتھا بلکہ منو بھائی کے کالم پر نظر آنے والے گریبان کی طرح پھٹا ہوا اور تارتار۔ دُنیا کی تاریخ موخر الذکر (ستیز پارٹی کے افراد) نے بدلی ہے۔
یونانی اساطیری داستانوں کی طرح‘ Hero ناکامی کے باوجود Hero تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں برسر اقتدارطبقوں کی طاقت کو ایک نظر دیکھیں اور پھر اُن کے مدمقابل کلمۂ حق بلند کرنے والی ایک دھان پان سی خاتون‘ اس کے پاس کون سے ہتھیار تھے؟ پاک دل‘ آہنی عزم‘ صاف ضمیر اور کالا کوٹ۔ ان چار عناصر نے عاصمہ جہانگیر کی شخصیت مرتب کی۔ برسوںقبل جب میں نے ملک غلام جیلانی کے گھر ایک چھوٹی بچی کو دیکھا تو میرے وہم و گمان میں نہ تھا کہ میں ایک دن اُس کی نماز جنازہ پڑھنے والوں میں شامل ہوں گا اور اُس کے غم زدہ شوہر (جہانگیر صاحب)، بہن (حنا جیلانی) اور اُس کے بچوں اور پس ماندگان سے تعزیت کروں گا۔ جہاں گرد نے گھر واپس آکر‘ مڑ کر دیکھا تو اُسے عاصمہ کے وجود کی جگہ ایک روشن چراغ نظر آیا۔ وہی ہمارا سرمایہ ہے‘ سب سے قیمتی سرمایہ۔ آئیے! ہم سب مل کر اس کی حفاظت کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں