کتابیں نئی اور پرانی

29 مارچ کا روزنامہ گارڈین (برطانیہ کے چار سنجیدہ اور معتبر اخباروں میں سے ایک) کے صفحہ نمبر 39 پر شائع ہونے والا مضمون اسلام آباد میں پرانی (سیکنڈ ہینڈ) اور استعمال شدہ کتابوں کی دُکانوں کے بارے میں تھا۔ ایک چھوٹی تصویر میں اسلام آباد کا ایک بازار (جس میں تین بچے‘ اُن کے ماں باپ اور دو رکشے نظر آرہے تھے) اور بڑی تصویر میں پرانی کتابوں کی دکان کا منظر (سائن بورڈ پر لکھا ہوا تھا Old Books Collections) دکان کے مالک کا نام ہے‘ ندیم احمد صدیقی۔ مالکِ دُکان اپنے دوستوں کی چائے سے خاطر تواضع اور اُن سے گپ شپ کے وقفہ کے درمیان گاہکوں کو اُن کی مطلوبہ کتابوں کی تلاش میں مدد دیتا رہا۔ کھانے پینے اور مہنگے ملبوسات کی دُکانوں کے درمیان استعمال شدہ کتابوں کی یہ دُکان اسلام آباد میں خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ اس میدان میں سب سے پرانی دُکان ہونے کی وجہ سے‘ گارڈین کے رپورٹر (عثمان احمد) نے بڑی درد مندی اور رنج و غم کے ساتھ لکھا کہ اب اسلام آباد کا حُلیہ اتنا بدل (یعنی بگڑ) چکا ہے کہ وہاں استعمال شدہ کتابوں کی دُکانیں مٹتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ 20 سالوں کے اندر اسلام آباد کے تجارتی مراکز میں اتنی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں کہ عثمان احمد نے اُن کیلئے Seismic (زلزلہ انگیز) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جب سے اسلام آباد میں رہنے والے غیر ملکی لوگ (دہشت گردی کے ڈر سے) وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے‘ سیکنڈ ہینڈ کتابوں کے گاہکوں میں نمایاں کمی آ گئی۔
اسلام آباد میں دُکانوں کے کرائے اتنے بڑھ گئے کہ کتابوں کی دُکان کیلئے ان کی ادائیگی ناممکن ہو گئی۔ ندیم احمد صدیقی کے والد نے یہ دُکان 1974ء میں کھولی۔ وہ ایک زمانہ میں راولپنڈی کی سڑکوں کے فٹ پاتھ پر پرانی کتابیں فروخت کرتے تھے۔ 1987ء میں وہ اپنی پہلی دُکان کھولنے میں کامیاب ہوئے۔ اب کتابوں کی دُکانوں پر زیادہ تر نئی درسی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ گارڈین کا مضمون کتابوں کی جس دُکان کے بارے میں ہے‘ وہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں ہے۔ پچھلے سال اس کے مالک (ملک اعجاز) فوت ہو گئے مگر اُن کی بہادر اور علم دوست بیوہ نے ہر حال میں دُکان کو چلانے اور بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ چھ سالوں میں اس کالم نگار کی پاکستان میں صرف دو کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ دو کتابوں کے مسودے سالہا سال دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور اب برطانیہ واپس منگوا لئے گئے ہیں جہاں اُن کی اشاعت کی ابتدائی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ ہر سال دو تین دفعہ پاکستان جاتا ہوں تو واپسی پر میرے سامان کا بڑا حصہ اُردو اور پنجابی کتابوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس بہانہ میں کتب فروشوں اور ناشرین کتب سے باقاعدگی سے ملتا رہتا ہوں۔ وہ سب ایک ہی رونا روتے رہتے ہیں کہ آبادی کا بے حد چھوٹا حصہ کتابیں خریدتا ہے۔ زیادہ تر کتابوں کا پہلا ایڈیشن‘ صرف ایک ہزار شائع کیا جاتا ہے۔ آج سے 70 سال پہلے (1947ء میں) بھی یہی صورت حال تھی۔ اب ہمارے ملک کی آبادی اور شرح خواندگی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اُردو اخبارات ہزاروں کی بجائے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے کتب فروشی کی تجارت کو وہ فروغ حاصل نہیں ہوا جس کی وہ بجا طور پر مستحق تھی۔ اس اندھیرے میں تین چراغوں نے اتنی روشنی پھیلائی ہے کہ وہ ہمارے لئے قابل فخر بن گئے ہیں۔ ایک نام ہے کراچی ادبی میلہ۔ دُوسرا ہے لاہور کا ادبی میلہ اور تیسرا ہے فیصل آباد کا ادبی میلہ۔
نسیم حجازی کے ناولوں کے بعد جو کتاب ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں فروخت ہوئی وہ تھی تہمینہ درانی کی آپ بیتی (جس کا نام تھا My Feudal Lord) اس کا ترجمہ یورپی زبانوں میں بھی ہوا۔ کمال کی بات ہے کہ یہ کتاب یورپ میں بھی مقبول ہوئی۔ اتنی دلچسپ کتاب کہ کالم نگار نے ایک رات جاگ کر یہ مکمل پڑھی۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف آپ بیتی نہیں بلکہ جگ بیتی ہے۔ ایک عہد اور ایک نودولتیے طبقے کی داستان۔ تہمینہ کی حق گوئی نے اُس کے والدین کے چہروں پر پڑے ہوئے نقاب بھی تار تار کر دیئے۔ تہمینہ نے اپنے ایک شوہر (غلام مصطفی کھر) کی کثرت ازدواج پر کتاب لکھی ۔ آخری خبریں آنے تک وہ ایک بلند پایہ سیاسی شخصیت کے حرم میں شامل ہیں۔ کالم نگار (جو ان کے نہ نظر آنے والے خیر خواہوں میں شامل ہے) کی دُعا ہے کہ وہ ایک اور طلاق یا بیوگی کا صدمہ سہے بغیر عمر کے آخری دنوں میں (جو ابھی دُور دراز تک نظر نہیں آتے) ایک اور سوانح عمری لکھیں جو اتنی ہی دلچسپ ہو جتنی اُن کی پہلی کتاب۔ ہمارے ملک میں ہزاروں تہمینہ ہیں۔ سب کے سینوں میں ہوش اُڑا دینے والے راز ہیں مگر ایک بے بس و لاچار خاتون اپنے اُوپر گزرے ہوئے دُکھوں، مصیبتوں، عذابوں اور اذیتوں کو لکھنا تو دُور کی بات ہے‘ بتا بھی نہیں سکتی۔ یہ اعزاز صرف تہمینہ کو حاصل ہے۔ اگر وہ مجھے اپنا ڈاک کا پتا اور تاریخ پیدائش دونوں ای میل کر دیں تو اُن کا ایک گمنام مداح لندن سے اُنہیں پھول بھیجنے کی خوشی حاصل کر سکتا ہے اور وہ بھی اس موہوم اُمید پر کہ کسی دن وہ لندن میں دُنیا کے سب سے مہنگے ریستوران Ritz (جہاں چائے ساڑھے سات ہزار روپے فی کس کے حساب سے پلائی جاتی ہے) میں اپنا میزبان بنا کر مجھے اپنے راز بتا دیں۔ میں قیامت تک وہ نہ لکھوں گا، یہاں تک کہ اپنی بیوی کو بھی اپنا ہمراز نہ بنائوں گا۔ یہ سطر میں نے ڈرے بغیر لکھی ہے۔ 55 سالوں کی شادی کے بعد میں آتش نمرود میں تو بے خطر کود سکتا ہوں مگر گھریلو ناچاقی (اور وہ بھی مذکورہ بالا خاتون کی وجہ سے) کا خطرہ ہر گز مول نہیں لے سکتا۔ میرے نزدیک لندن کی پہچان Ritz جیسا مہنگا ترین ریستوران نہیں بلکہ لندن کے دل میں ٹریفالگر سکوائر (جو لاہور کے ریگل چوک کے مترادف ہے) کے قریب‘ دُنیا میں کتابوں کی سب سے بڑی دُکان Foyles ہے۔ میں جب بھی اس کے قریب سے گزروں تو میں وہاں ضرور اندر جھانک کر یہ تسلی کر لیتا ہوں کہ ابھی تک میری (صرف ایک) اور میرے بیٹے فاروق کی (تین یا چار) لکھی کتابیں دستیاب ہیں۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کتابوں کی فروخت پر کالم لکھا جائے تو Hay-on-Way کا ذکر نہ کیا جائے۔ میں ہر سال اس کی زیارت کرنے جانا چاہتا ہوں مگر وکالت کی مصروفیت اجازت نہیں دیتی۔ لندن سے ڈیڑھ سو میل کے فاصلہ پر جنوب مغربی برطانیہ کے دیہی علاقہ میں چھوٹے دریائوں‘ خوبصورت وادیوں اور جھیلوں کے درمیان گھرا ہوا ایک قصبہ جہاں برطانیہ میں سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی سب سے زیادہ دُکانیں ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ لاہور اورکراچی کے اُردو بازاروں کو ایک دُوسرے میں جمع کر لیا جائے تو Hay میں کتابوں کی سینکڑوں دُکانوں کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ دُکانوں کے باہر فٹ پاتھ بھی کتابوں سے اَٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 1962ء میں Richard Booth نے Hay کے پرانے قلعہ کے اندر کتابوں کا سٹال لگایا اور اگلے 20 سال کے اندر وہاں کتابوں کی دُکانوں کا جال بچھ گیا۔ یہ صدی شروع ہوئی تو وہاں ہر سال ماہ مئی میں کتابوں کا عالمی میلہ لگنا شروع ہوا۔ جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ 2001ء میں امریکی صدر بل کلنٹن بھی اُن افراد میں شامل تھے‘ جو اس میں جوش و خروش سے شریک ہوئے مگر کلنٹن نے کتابوں کی خریداری سے زیادہ شراب نوشی کی طرف توجہ دی۔ اس شوق کے باوجود کلنٹن نے جو واحد کتاب خریدی وہ کثرت شراب نوشی کے نقصانات کے موضوع پر تھی۔ لگتا ہے کہ اُس نے یہ کتاب محض اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لئے خریدی۔ اس کتاب کو پڑھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کے امکانات روشن ہوں یا نہ ہوں‘ کتنا اچھا ہو کہ اس کالم کو پڑھنے والا ہر شخص (چاہے ایک لمحہ کے لئے) ضرور سوچے کہ گزرے ہوئے سال میں کیا اُس نے ایک بھی کتاب خریدی؟ ہوٹلوں میں خور و نوش اور کتابوں کی خریداری پر اُٹھنے والے اخراجات میں کوئی تو تناسب ہونا چاہیے یا نہیں؟ ذرا سوچئے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں