ملائیشیا کو سلام …(قسط اوّل)

آج کا کالم دو قسطوں میں ہو گا۔ جب سلام ایک دو نہ ہوں۔ نہ سینکڑوں نہ ہزاروں بلکہ لاکھوں سلام تو وہ ایک کالم کے محدود دامن میں سمائیں تو کیونکر؟ میں نے گھرکی قریبی گل فروش خاتون سے پوچھا کہ قریباً نو ہزار میل کے فاصلے پر پھول بھیجنے کا انتظام ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اُس نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے پوچھا کہ پہلے یہ بتائو کس کو بھیجنے ہیں۔ موقع محل کیا ہے؟ پھول کتنے اور کون سے؟ کالم نگار نے جواب دیا: منزل ہے ملائیشیا کا دارالحکومت کوالمپور۔ پھول جائیں گے جناب مہاتیر محمد کو جنہوں نے 92 سال کی عمر میں قومی مفاد کی حفاظت کے لئے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ جسے شکست دی وہ اُن کا پُرانا شاگرد اور جانشین ہے۔ نام ہے نجیب رزاق (آصف زرداری اور نواز شریف کا مجموعہ) اور برسہا برس سے وزیر اعظم۔ اربوں ڈالروں کی کرپشن نے اُس کے راج کو اتنا ہی مستحکم اور مضبوط بنا دیا تھا‘ جتنے زمین میں پیوستہ اہرامِ مصر۔ گل فروش خاتون بولی: اتنے بڑے تاریخی کارنامے کو سرانجام دینے والے کو مبارک دینے کے لئے برطانیہ کی ساری دُکانوں کے پھول بھی ناکافی ہوں گے‘ میری مانو تو اُنہیں مبارکباد کا اچھا سا کارڈ پوسٹ کر دو اور اگر ممکن ہو تو اُن کے پاس خود جائو اور اُن پر پھولوں کی بارش کرو‘ اس نیک کام میں اور کوئی آپ کا ساتھ دے یا نہ دے‘ میں ضرور دُوں گی اور وہ یوں کہ منافع لئے بغیر آپ کو دس بارہ کلو گرام پھول (وہ بھی بہترین) ایک تہائی قیمت پر فروخت کروں گی‘ لیکن مبارکباد کا کارڈ بھیجو تو اُس پر میرا نام لکھنا بھول نہ جانا۔ جنوب مشرقی لندن کی ایک گل فروش خاتون اور جنوب مشرقی لندن میں رہنے والا گم نام اور مسکین کالم نگار۔ دُوسری طرف جنوب مشرقی ایشیا کے ایک ملک کا وہ راہنما جس نے دورِ جدید کی سیاست میں وہ شاندار کارنامہ سرانجام دیا جو ایک معجزے سے کم نہیں۔ میرے ملک میں بوڑھے لوگ صرف عبادت میں مصروف (بلکہ مشغول) رہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کریں (جس طرح کہ یہ کالم نگار) تو نوجوان خواتین و حضرات اُنہیں سارے دُنیاوی کام کاج چھوڑ کر اللہ اللہ کرنے کا مشورہ دے کر ثواب کماتے ہیں۔ میرے لئے اللہ اللہ کرنے کے لئے بڑھاپے کی شرط ناقابل فہم ہے۔ وہ تو ہر عمر میں کرنا چاہئے۔ صبر بھی اور شکر بھی۔ کیا اللہ تعالیٰ ہم سے زیادہ خوش نہ ہوں گے اگر ہم نہ صرف زبان سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہیں بلکہ اپنے عمل سے خدا کے بندوں کی خدمت بھی کریں۔ میں نے 66 سال پہلے ایک درسی کتاب میں کسی درویش (غالباً ابو بن ادم) کے حوالے سے جو شعر پڑھا تھا وہ حافظہ کی تختی پر کندہ ہو گیا۔ اب اسے یہاں لکھتا ہوں تاکہ میرے قارئین بھی پڑھ لیں۔ 
؎خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
جب مہاتیر محمد نے دیکھا کہ کرپشن کی بدولت نجیب رزاق اتنا مالدار اور اتنا باوسیلہ ہو گیا ہے‘ اُس کی جڑیں اتنی گہری اور مضبوط ہو گئی ہیں کہ اب اُنہیں اکھاڑنا ممکن نہیں رہا تو وہ خود میدان میں اُترے اور وہ بھی انتخابات کے اتنے قریب جب طبلِ جنگ بج چکا تھا۔ ملائیشیا کی زبان میں جناب کے لئے تین الفاظ ہیں۔ Tun, Tunku اور Datuk ۔ پہلے وزیر اعظم کا نام تھا: تنکو عبدالرحمن جو پہلے 1957-59ء اور پھر چند ماہ کے وقفہ کے بعد اگلے گیارہ سالوں (1959-70ئ) تک برسر اقتدار رہے۔ 1970ء سے 1981ء تک دو وزرائے اعظم (حاجی عبدالرزاق اور حسن بن عون)۔ 1981 ء میں مہاتیر بن محمد وزیر اعظم بنے اور 2003ء تک (22 برس) اس جلیل القدر عہدہ پر فائض رہنے کے بعد ریٹائر ہو گئے تاکہ نوجوان قیادت کو آگے آنے کا موقع مل سکے۔
جنوب مشرقی ایشیاء سے پاکستان کا پرانا اور قریبی تعلق ہے۔ 1971ء تک مشرقی پاکستان اس جغرافیائی خطہ کا حصہ تھا‘ اور اس حوالے سے پاکستان جس سوویت یونین دفاعی معاہدہ کا فریق اور امریکہ کا قریبی حلیف بنا اُس کا نام Seato تھا۔ سینٹو کا دائرہ مشرق وسطیٰ تھا۔ ایران اور ترکی کی طرح پاکستان اس امریکی دفاعی معاہدے میں بھی شامل تھا۔ قابل ذکر اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ ملائیشیا نے شروع دن سے آزاد خارجہ پالیسی اپنائی اور وہ کسی بھی دفاعی معاہدہ میں شامل نہ ہوا۔ ویت نام میں اشتراکی انقلاب کی کامیابی کے باوجود۔ کالم نگار آپ کو اس کی تاریخ (بڑے اختصار کے ساتھ) بتانے کی معصوم خواہش پر قابو نہیں پا سکتا۔ آٹھویں سے تیرہویں صدی تک یہ ملک بُدھ مت کی پیروکار سری وجے سلطنت کا حصہ تھا۔ پندرہویں صدی میں آبادی کی اکثریت دائرہ اسلام میں داخل ہوئی اور آج بھی آبادی کی بڑی اکثریت مسلمان ہے۔ سولہویں صدی سے یورپی ممالک نے یہاں یکے بعد دیگرے قدم جمانے شروع کر دیے۔ پہلے پرتگیزی‘ پھر ولندیزی اور آخر میں انگریز۔ گھنے جنگلات سے بھرا ہوا ملک جو معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں دس سال تک اشتراکی ذہن اور چینی نسل کے نوجوانوں نے اتنی زبردست گوریلا جنگ لڑی کہ اگر برطانوی فوج بھرپور مداخلت نہ کرتی تو یہاں جنوب مشرقی ایشیا کی دوسری کمیونسٹ حکومت بن جاتی۔ Malay اور چینی نسل کے لوگوں کے درمیان 1969ء میں اتنے خونریز فسادات ہوئے کہ 22 ماہ پارلیمنٹ معطل رہی۔ بعد میں چینی نسل کے لوگوں نے سنگا پور کے نام سے اپنی ایک چھوٹی مگر بڑی کامیاب‘ خوشحال اور مستحکم حکومت بنائی۔ کالم نگار وہاں پانچ سال پہلے گیا۔ وکلا کی عالمی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرنے۔ کانفرنس پانچ بجے شام ختم ہوئی تو میں لندن میں رہنے والی Uzbek دوست خاتون گل اندم کے وہاں رہنے والے بیٹے Shahzod Nozimov کے ساتھ سیر کو نکلا تو آدھی رات تک سنگا پور کو ایک سرے سے لے کر دُوسرے سرے تک دیکھ لیا اور چینی نسل کے لوگوں کی ہمت اور محنت کے اس شاہکار کی قدم قدم پر تعریف کرتا رہا۔ وہاں زندگی کا سب سے مہنگا کھانا برطانوی راج کی یادگار ہوٹل Raffles, (جسے سیاح دُور دُور سے دیکھنے آتے ہیں) میں کھایا۔ میزبان خواتین نے میری رائے پوچھی (جو میں نے مہمانوں کے رجسٹر میں قلم بند کر دی) تو میں نے کہا کہ ہوٹل کی عمارت تو یقینا کمال کی ہے‘ مگر کھانا اپنی لذت میں لاہور کے کسی بھی اچھے ریستوران کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ملائیشیا سے ٹوٹ کر علیحدہ ملک بن جانے والے بڑے چھوٹے مگر بے حد امیر ملک سنگاپور کے درمیان اُس طرح کے دوستانہ تعلقات ہیں جو ایک نہ ایک دن ہندوستان اور اُس سے علیحدہ ہو جانے والے ملک (پاکستان) اور پاکستان سے علیحدہ ہو جانے والے ملک (بنگلہ دیش) کے درمیان ہوں گے۔ جب تاریخ اور جغرافیہ دونوں ایک ہوں تو پڑوسی ممالک کے درمیان کوئی لڑائی‘ کوئی تنازعہ‘ کوئی کشیدگی ہمیشہ جاری و ساری نہیں رہ سکتی۔ آپ شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ ملائیشیا کے دو حصوں کے درمیان 600 میل کا فاصلہ ہے۔ (درمیان میں South China Sea) دو تہائی ملک تھائی لینڈ کے جنوب میں اور ایک تہائی Borneo نامی جزیرہ کے شمال مشرق میں (جہاں برونائی کی تیل سے مالا مال مگر پرلے درجے کے کنجوس اور خیرات کے معاملہ میں سنگ دل مملکت ہے۔)
اگر آج میرے مرحوم دوست ملک غلام جیلانی کی بیٹی عاصمہ جہانگیر زندہ ہوتی تو میں اُسے فون کر کے مشورہ دیتا کہ وہ احمد اویس (سپریم کورٹ بار میں اُن کے حریف)‘ جناب حامد خان‘ جناب انصار برنی‘ جناب ظفراللہ جمالی‘ جسٹس (ر) ناصرہ اقبال‘ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد‘ جناب علی احمد کرد‘ جناب عادل گیلانی‘ جناب شہاب الدین اوستو‘ جناب خلیل احمد نینی تال والا‘ ڈاکٹر فوفیہ صدیقی‘ جناب افراسیاب خٹک اور اپنی اچھی بہن حنا جیلانی کو لے کر کوالالمپور جائے‘ اور مہاتیر محمد کو مل کر نہ صرف اُنہیں مبارک دیں بلکہ پاکستان کے سابق سرپرست (اور موجودہ بدخواہ) امریکہ کے خلاف پاکستان کی مزاحمتی کارروائی میں اُن سے مدد مانگیں۔ رہ گئے پھول تو وہ یہ کالم نگار لندن سے لیتا آئے گا۔ وعدہ رہا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں