نیا عمرانی معاہدہ

لندن میں گنتی کے چند افراد نے 1982 ء میں ''پاکستان کے دوستوں‘‘ کے نام سے ایک گروپ بنایا ‘جس کا مقصد پاکستان کے مسائل پر مل کر سوچ و بچار کرنے اور ان کا حل ڈھونڈنا تھا۔ اس کالم نگار نے باہمی مشاو رت سے 2004 ء میں انقلابی منشور چارٹر2020 ء کے نام سے شائع کیا اور اس کے تعارف کے لئے لارڈ ایوبری (برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی انسانی حقوق کمیٹی کے صدر)کی صدارت میں ہائوس آف لارڈز میں سالہا سال باقاعدگی سے اجلاس کئے گئے۔ چارٹر 2020ء کی بنیاد ضلعی حکومتوں کے قیام کے مطالبہ پر رکھی گئی تھی؛ چونکہ ہم پورے یقین کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچے کہ خرابی سے بہتری اور اندھیرے سے روشنی کی طرف پہلا قدم صرف ضلعی حکومتوں کے قیام کی بدولت اُٹھایا جا سکتا ہے۔ ہماری بدنصیبی کہ پاکستان دو طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ حال مست امیر اور فاقہ مست فقیر۔ سیاسی شعور رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ صرف بے مقصد‘ منفی بحث کرناجانتے ہیں یا حالات کی خرابی پر رونا (حالانکہ حالات کی خرابی کی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے) متوسط طبقہ کے افراد ہمارے اجتماعی مفاد کی خاطر عملاً کچھ نہیں کر تے۔ وہ انگلی ہلانے کے روادار نہیں۔ پرُ امن احتجاج یا خدمت خلق سے بھی دور بھاگتے ہیں۔ کوئی ایسا کام نہیں کرتے‘ جس سے انہیں ذاتی اور خصوصاً مالی فائدہ نہ ہو۔ ان پڑھ لوگ بہت کام کر سکتے ہیں‘ وہی کسان‘ مزدور اور محنت کش ہیں ‘مگر صد افسوس کہ سیاسی شعور نہیں رکھتے اور بری طرح غیر منظم ہیں۔ بالائی طبقہ کو طاقت اور دولت کے نشہ نے اندھا بنا دیا ہے۔ متوسط طبقہ نے اپنے آپ کو مفلوج بنا رکھا ہے۔ محنت کش طبقہ دیکھ سکتا ہے (اور سب کچھ دیکھ رہا ہے) مگر غربت اور جہالت نے اسے اپاہج اور معذور‘ بے بس و لاچار بنا دیا ہے۔ 
70 سال پر پھیلی ہوئی انتہائی تکلیف دہ تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ ہر حکومت اور برسر اقتدار آنے والی ہر سیاسی اور مذہبی جماعت ملکی مسائل کو حل کرنے‘ ہمارے دُکھوں کا مداوا ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ ہماری حماقت ہوگی ‘اگر ہم کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے یہ توقع رکھیں کہ وہ اکیلے ہمارے اتنے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ (نیت کے بارے میں رائے نہیں دی جا سکتی) ہمارے کل حکمرانوں کی تعداد پانچ ہزار سے کم ہے۔ وہ چاہیں بھی تو22 کروڑ لوگوں کے مسائل اس وقت تک حل نہیں کر سکتے ‘جب تک عوام اپنی مدد آپ نہ کریں۔ تین تلخ حقیقتوں کو بیان کرنا ضروری ہے: اوّل‘ جمہوریت کے دعویٰ دار سیاست دان جب بھی الیکشن جیت کر برسر اقتدار آئے‘ تو انہوں نے لوکل گورنمنٹ کا گلا گھونٹا‘ تاکہ ایم پی اے اور ایم این اے کی سیاسی اجارہ داری پر ضرب نہ پڑے۔دوم‘ یکے بعد دیگرے تین فوجی حکومتوں نے جمہوری نظام کے سب سے بڑے ستون ‘یعنی لوکل گورنمنٹ کو مضبوط بنایاا ور جمہوری عمل میں لاکھوں افراد کو حصہ لینے کا موقع بھی دیا۔ سوم‘ سیاست دانوںکی بڑی اکثریت نے ملکی مفاد پر اپنے سیاسی مفاد کو ترجیح دی۔پاکستان کے سارے مسائل (چاہے وہ کتنے زیادہ اور کتنے پیچیدہ ہوں) صرف پاکستان کے عوام حل کر سکتے ہیں (نہ کوئی سیاسی جماعت نہ کوئی مذہبی تنظیم اور نہ سرکاری افسر) کروڑوں پاکستانی ہی اپنے ملک کو آنے والی تباہی سے بچا سکتے ہیں اور اس کا صرف ایک طریقہ ہے۔ بستی بستی‘ گائوں گائوں عوام اپنی اصلاح‘ فلاح اور خود حفاظتی کمیٹی (پنچائیت یا Commune) بنائیں‘ جو اپنے علاقہ کے مسائل خود حل کرنے کی ذمہ دار ہو۔ اگر تمام دیہات‘ تمام تحصیلیں‘ تمام اضلاع اپنی مدد آپ کے اُصول پر عمل کر کے اپنے آپ کو سدھار لیں تو ہمارے ملک کی حالت خود بخود بہتر ہو جائے گی۔قوتِ اخوت عوام کا مطلب یہ ہے کہ22 کروڑ بے بس‘ لاچار عوام کو باشعور اور بااختیار بنایا جائے‘ اگر صرف انتخابات سے مسائل حل ہو سکتے ‘تو اب تک ہو چکے ہوتے‘ اگر عوام کی بے اختیاری کا وہی عالم رہا‘ جو 1947 ء سے لے کر اس وقت تک ہے‘ تو آپ چاہے جتنے الیکشن کروالیں ‘صورت حال بہتر ہونی تو ایک طرف رہی‘ بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ جب تک بنیادی اصلاحات نہ کی جائیں‘ نظام نہ بدلا جائے ‘ رائے عامہ کو بیدار نہ کیا جائے ‘ عوامی دبائو کے تحت عوامی مطالبات اور ضروری اصلاحات کے ایک بنیادی منشور (نیا معاہدہ عمرانی) پر تمام سیاسی جماعتیں دستخط نہ کریں اور اس کی پابندی کا حلف نہ اُٹھائیں اس وقت تک عوام کی حالت ذرہ بھر نہ سدھرے گی‘جب تک عوامی نمائندوں کی کارکردگی ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے کھلونوں کی ہوگی ‘وہ محض کٹھ پتلی کا تماشہ کرتے رہیں گے۔ بے بس‘ بے اختیار اور کمزور عوام کے نام نہاد نمائندے کبھی طاقتور نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ 47 ء سے لے کر آج تک ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاست دان ہمہ وقت برسر اقتدار رہنے والے Establishement ‘یعنی حکمران طبقہ کا محتاج اور دست نگر رہا ہے ۔
عوامی نمائندوں کی طاقت کا منبع اور مآخذ عوام ہوتے ہیں۔ سیاست دان عوام کی قوت اور اختیار کو صفر بنا کر اور اسے صفر رکھ کر کبھی طاقت ور نہیں بن سکتے۔ سرکاری افسروں کا عہدہ انہیں قوت و اختیار دیتا ہے اور جرنیلوں کو ان کی فوج اور ہتھیار۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عوامی نمائندے ہر دور میں بکتے رہے یا جھکتے رہے اور اقتدار کے دستر خوان کی اونچی میز سے گرے ہوئے ٹکڑے اٹھانے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ عوامی نمائندوں کی طاقت کا منبع خود بے طاقت ہے۔
عوامی عہد نامہ:پاکستان کے اندر اور بیرون ملک رہنے والے ہر بالغ پاکستانی کو دعوت دی جائے کہ وہ مندرجہ ذیل عہد نامے پر دستخط کرے اور اس کے ہر لفظ کے عملی احترام کا وعدہ کرے۔٭ میں قانون پسند ہوں: قانون کا احترام کرنے اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا عہد٭ میں مساوات پسند ہوں: پاکستان میں رہنے والوں کا تعلق جس بھی مذہب‘ فرقہ‘ ذات‘ قبیلہ ‘(جنس) Gender ‘ پیشہ اور طبقہ سے ہو‘ ان کی آمدنی کم ہو یا زیادہ‘ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں‘ حقوق کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہیں (ہر قسم کا امتیازی سلوک قابل مذمت ہے) مساویانہ سلوک کرنے کا عہد ٭ میں صفائی پسند ہوں: پاکستان کے ماحول کو صاف رکھنے‘ آلودگی کو ختم کرنے اور پاک سرزمین کو سرسبز بنانے‘ ہریالی بڑھانے‘ درختوں اور پھولوں کو اُگانے اور ان کی حفاطت کا عہد ٭میں خدمت پسند ہوں: عوامی فلاح و بہبود اور اجتماعی اصلاح کے لئے ہر سطح پر مسلسل ٹھوس کام اور عملی خدمت کا عہد٭ میں دیانت پسند ہوں: رشوت‘ بدعنوانی‘ بددیانتی اور دھوکہ دہی سے پرہیز کرنے کا عہد٭ میں جمہوریت پسند ہوں: عوام کی بالادستی قائم کرنے‘ دیہات‘ تحصیل اور ضلع کی سطح پر عوام کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے۔ اختیارات پر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی اجارہ داری ختم کرنے ‘ بڑے شہروں اور ضلعی حکومتوں کو خود مختار بنانے کا عہد٭ میں روشن خیال ہوں: جدید دور کے تقاضوں اور اپنی قدیم تہذیبی روایات کے درمیان توازن قائم کرنے کا عہد‘ توہم پرستی‘ جادو اور جنات‘ جعلی پیروں اور نجومیوں سے دور رہنے کا عہد۔ علامہ اقبال اور اپنے عظیم صو فی شاعروں کا کلام باقاعدگی سے پڑھنے کا عہد٭ میں امن پسند ہوں: اپنے گھر کے اندر امن‘ اپنی بستی میں امن‘ اپنے ملک میں امن‘ پڑوسی ممالک کے ساتھ امن کا عہد٭ میں انسان دوست ہوں: اپنے ذہن کو ہر قسم کے تعصبات سے پاک کرنے‘ دوسرے مذاہب اور دوسرے فرقوں کا احترام کرنے کا عہد۔ اگر مسلمان ہوں‘ تو دوسرے فرقوں کے خلاف ایک لفظ بھی نہ بولنے‘ ان کا دل نہ دکھانے اور انہیں اپنے مسلک پر قائم رہنے کا حق دینے کا عہد‘ فرقہ پرستی اور فرقوں کے درمیان نفرت اور تشدد ختم کرنے کے لئے دوسرے فرقوں کی مساجد میں نماز پڑھنے کا عہد٭ میں انصاف پسند ہوں: اپنے گھر کے اندر انصاف‘ اپنی بستی میں انصاف‘ ملک میں انصاف‘ دنیا بھر میں انصاف کا عہد٭ میں سادگی پسند ہوں: فضول خرچی‘اصراف اور مصنوعی ٹھاٹھ باٹھ کے اظہار سے اجتناب کرنے کا عہد٭ میں احتساب پسند ہوں: سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کا احتساب‘ ہر بااختیار شخص اور قومی ادارے کا احتساب‘ وزیروں اور بڑے سرکاری افسروں کے صوابدیدی اختیارات کے خاتمہ کے لئے جدوجہد کرنے کا عہد ٭ میں ترقی پسند ہوں: غربت‘ جہالت‘ بے روز گاری‘ کسانوں مزدوروں اور نچلے متوسط طبقہ کے استحصال‘ سامراج نواز معاشی پالیسی‘ غیر ملکی سرمایہ دار اجارہ داریوں کی لوٹ کھسوٹ‘ مہنگائی میں مسلسل اضافہ‘ بڑھتی ہوئی غربت اور گرتے ہوئے معیار زندگی‘ ٹیکسوں اور سرکاری محصولات کے انتہائی ناقص اور عوام دُشمن نظام کے خلاف جہدوجہد کا عہد۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں