کراچی کے فولاد سے سیالکوٹ کے ریشم تک… (2)

بھلا ہو میرے قارئین کاکہ میں چاہے شام کی بجائے آدھی رات کو لاہور پہنچا‘ مگر انہوں نے میرا ساتھ نہ چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کالم کی دوسری قسط بھی دل پر جبر کر کے پڑھ رہے ہیں۔اہلِ کراچی ناراض ہوں یا نہ ہوں‘ مگر مجھے سچ لکھنے کی اجازت دیں (اور معافی بھی)کہ جب تک میری طرح کا پنجا بی ''پینڈو‘‘ لاہور پہنچ کر اپنے بستر پہ نہ سوئے یہ احساس نہیں ہوتا کہ اُس کی راہ تمام ہوئی اور واقعی وطن عزیز کی مٹی اُسے پھر کھینچ لائی ہے۔
ماہ جولائی میں ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد میں پہلی بار آیا تو مجھے ماحول میں اس قسم کی خوشگوار تبدیلی محسوس ہوئی‘ جو خوشبو کی طرح تھی ‘ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میری سب سے اہم اخلاقی ذمہ داری یہ تھی کہ سلونی بخاری (مرحومہ) کے گھر جا کر اُن کے اہل خانہ سے تعزیت کروں۔ لبنیٰ ملک اور جمشید اعوان کا مشکور ہوں کہ انہوں نے میری معاونت کی۔ آج وہ زندہ ہوتیں تو تحریک انصاف کی صف اوّل کے کارکنوں میں ایک روشن ستارہ جگمگا رہا ہوتا۔ 
میں نے موجودہ نظام میں ضروری تبدیلیوں کے موضوع پر اسلام آباد میں ہونے والے دو فکر انگیز مذاکروں میں شرکت کی۔ ایک کی میزبانی SDPI (ادارہ برائے پائیدار ترقی) اور دوسرے کی کنور محمد دلشاد صاحب کی سربراہی میں کام کرنے والی نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن نے کی۔ اسلام آباد میں چار اہم افراد نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود مجھے ملاقات کا وقت دیا اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ میاں حماد اظہر (وزیر مملکت برائے محصولات)‘ ڈاکٹر کریم اعوان (سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن) ‘چیف جسٹس (ر) علی نواز چوہان (سربراہ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق اور سید محمد مہر علی شاہ (قائم مقام انڈس واٹر کمشنر) ۔ 
لاہور واپسی سے پہلے میں اپنے دوست مرتضیٰ صاحب کے ساتھ اپنے بھتیجے ذوالفقار باجوہ کے گھر گیا ‘تاکہ میں اس کے والدین اور اپنے بڑے قریبی رشتہ داروں کی وفات پر فاتحہ خوانی کر سکوں اور مغفرت کی دعا مانگ سکوں۔ 
کبھی کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ کالم نگار اپنے آپ کو سزا دینے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ پہلے ہی میری جان کے لئے عذابوں کی کمی نہ تھی کہ اب میں نے بڑے ذوق و شوق سے ان میں کراچی سٹیل مل کے مزدوروں اور اوکاڑہ کے مزارعین کو بھی شامل کر لیا ہے۔ 
نصف صدی سے وطن عزیز سے چھ ہزار میل دور رہنے والا بوڑھا شخص ان محنت کشوں اور افتادگان خاک کی ترجمانی اور وکالت کا بوجھ نہ اٹھاتا تو اُس کی زندگی کے آخری دن چین کی بانسری بجاتے۔ یہ بھی ایک معما ہے کہ میں جونہی یہ کالم لکھنے بیٹھتا ہوں تو کیا وجہ ہے کہ میرے دماغ میں فارسی کے شعر اور محاورے موسم بہار میں پھولوں کے اوپر اڑنے والی تتلیوں کی طرح گردش کرنے لگتے ہیں۔ اب جو محاورہ اچانک یاد آیا‘ وہ آپ بھی پڑھ لیں :اے روشنی طبع تو بر من بلا شدی!
روشنیٔ طبع کا دعویٰ کروں تو یقینا مبالغہ آرائی اور خود ستائی کے زمرہ میں آئے گا اور میرے قارئین کے ماتھوں پر کم از کم ایک شکن تو ضرور اُبھرے گی۔ محنت کشوں سے عمر بھر کا رشتہ چار ستونوں پر کھڑا ہے اور وہ ہیں: محبت‘ عزت‘ عقیدت اور اپنائیت۔ یہ رشتہ میرا عمر بھر کا سرمایہ ہے۔ میں متوسط گھرانے میںپیدا ہوا‘ اس لئے محنت کشوں سے دوستی مجھے منشی پریم چند ‘ ترقی پسند مصنفین اور روسی ادیبوں کی نثر نے اور فیضؔ و فرازؔ اور پنجابی صوفی شاعروں نے سکھائی۔
یہی وجہ ہے کہ میں نے اسلام آباد کے مختصر قیام کے دوران بھاگم بھاگ حکومت پاکستان کے بنائے ہوئے نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے دفتر گیا۔ملاقات کا وقت طے نہ تھا پھر بھی جسٹس (ر) علی نواز چوہان صاحب اور محترمہ فضیلہ علیانی صاحبہ نے بکمال مہربانی انجمن مزارعین اوکاڑہ کے بارے میں میری فریاد بڑی توجہ اور ہمدردی سے سُنی اور فی الفور ہدایت دی کہ مزارعین کے وفد کی عرضداشت پانچ نومبر کو سُنی جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خاطر جدوجہد کرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں‘ مگر تعداد میں کمی کی تلافی طاہرہ عبداللہ ملک کر دیتی ہیں ۔
عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد جو خلا پیدا ہوا وہ اب راشد رحمان‘ زاہد اسلام‘ سلمان عابد‘عمار تحسین جان‘ افراسیاب ملک‘ حنا جیلانی‘ حسین نقی‘ آئی اے رحمان ‘ مریم حسن اور طاہرہ عبداللہ پورا کریں گے۔ طاہرہ کا میں کئی سالوں سے مداح اور معترف ہوں ۔ میری درخواست پر انہوں نے کمیشن کے سامنے اوکاڑہ کے مزارعین کی ترجمانی اور نمائندگی کی ذمہ داری بڑی خوشدلی سے قبول کر لی۔میں ان کا احسان مند ہوں۔ 
مذکورہ کمیشن نے اس تنازعہ کا دو سال پہلے اپنی سالانہ رپورٹ میں ذکر کیا تھا‘ جس میں مزارعین کی طویل جدوجہد کے پیش نظر ٹھوس اور قابل عمل تجاویز پیش کی گئی تھیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اوکاڑہ کے مضافات میں ان فارموں پرکاشت کرنے والے جو 18 دیہات (جنہیں نو آبادیاتی زبان میں چک کہتے ہیں) ایک لحاظ سے آتش فشاں پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔ ان کا کل رقبہ 17013 ایکٹر ہے۔ میں نہیں جانتا کہ 1913 ء میں اس رقبہ کے مالکانہ حقوق کس کے پاس تھے‘ مگریہ جانتا ہوں کہ اُس سال حکومت پنجاب نے مذکورہ بالا رقبہ وزارت دفاع کو پندرہ ہزار روپے سالانہ کی برائے نام رقم کے عوض لیز پر دے دیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس قانونی دستاویز کا ذکر تو کئی جگہ کیا گیا ہے‘ مگر اصل دستاویز ابھی تک کسی نے نہیں دیکھی‘ جس نے اس کا وجود بڑ ا مشکوک بنا دیا ہے۔
اٹھارہ سال پہلے تک ملٹری فارم اتھارٹی مزارعین سے بٹائی فارمولا کے تحت حصہ لیتی تھی‘ مگر 2000ء میں اُس نے نقد رقم کامطالبہ کیا تو اس پر مزارعین میں بے چینی پیداہوئی۔رواں سال اپریل میں اس کے راہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ کالم نگار کی طرح ہر عوام دوست پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ صریحاً زیادتی کے خلاف آواز بلند کرے۔ کالم نگار کا One Man Crusade اسے اوکاڑہ جیل لے گیا‘ جہاں جیل کے حکام نے میری مزارعین کے راہنماسے ملاقات کرائی۔ مزارعین کی بڑی تعداد مسیحی ہے۔
پاکستان کے لوگ دنیا بھر کے مسلمانوں پرہونے والے مظالم پر بجا طور پر بلند آواز میں احتجاج کرتے ہیں ‘مثلاً :برما اور بھارت کے معاملہ میں۔ یہ ان کا اخلاقی فرض ہے‘ مگر ان کا دوسرا فرض یہ بھی ہے کہ قائداعظم کی گیارہ اگست 1947 ء کی تقریر کی روشنی میں پاکستان میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں کی بھی پوری طرح حفاظت کریں۔ جان و مال اور عزت و آبرو‘ چادر اور چار دیواری کی حفاظت۔ ہر لحاظ سے بے خوف و خطر زندگی جو تمام شہری ‘ ہر تعصب سے بالاتر ہو کر گزاریں اور کسی قسم کے امتیازی سلوک کا نشانہ نہ بنائے جائیں۔ 
انصاف اور مساوات کی فراہمی اکثریتی آبادی کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ مزارعین (چاہے وہ اوکاڑہ کے ہوں یا کسی اور جگہ کے) کی مالی اور سماجی حالت پہلے ہی بہت کمزور ہوتی ہے‘ یک نہ شد دو شد کے مطابق اگر وہ غیر مسلم بھی ہوں تو ان کی گردن پر ایک کی بجائے دو طوق پڑ جاتے ہیں اور وہ مزید جُھک جاتی ہے۔ آپ تاریخ کا ایک عبرت آموز سبق ہر گز نہ بھولیں کہ ظلم و ستم کی ابتدا اقلیتوں سے ہوتی ہے اور انتہا اکثریت پر جو اس ظلم کے پہلے مرحلہ پر خاموش رہنے کا جرم کرتی ہے۔ جب کمزور طبقوں اور اقلیتوں کوزیادتی اور غیر قانونی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ 
کالم نگار کا سفر طویل تھا اور موضوعات زیادہ اس لئے بات لمبی ہو گئی۔ وعدہ رہا کہ اگلے اور تیسرے کالم میں ہم کراچی کے فولاد سے سفر کرتے کرتے سیالکوٹ کے ریشم تک ضرور جا پہنچیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں