برق گرتی ہے…

اقبال کے زمانے میں برق گرتی تھی تو بے چارے مسلمانوں پر ۔ انہوں نے بانگِ درا میں شکوہ کے نام سے شہرہ آفاق نظم لکھی تو یہی بیان فرمایا۔ مگر یہ پرانے زمانے کی بات ہے‘ پاکستان بن جانے کے بعد برق صرف غریبوں‘ مسکینوں‘ بے کسوں‘لاچاروںاور بے وسیلہ افراد پر گرتی ہے اور امیروں سے سخت پرہیز کرتی ہے۔ اُفتادگانِ خاک اُس کا نشانہ بنتے ہیں‘ جنہیں انقلابی فلاسفر Frantzs Fanonنے اپنی شاہکار تصنیف میں Wretched of the Earth کہا تھا۔ میرے محترم دوست پروفیسر سجاد باقر رضوی نے اس شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ کیا تو کتاب کے نام کا ترجمہ ''اُفتاد گانِ خاک‘‘ کیا ۔ ساٹھ کی دہائی میں ایک اور ادیب کا نام بھی سجاد باقر رضوی تھا۔ آپ یہ پڑھ کر ہر گز حیران نہ ہوں گے کہ دونوں اصحاب (نام کی یکسانیت کی وجہ سے) ایک دوسرے کو زیادہ پسند نہ کرتے تھے۔ ایک اورینٹل کالج‘ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے ‘ دوسرے ایف سی کالج لاہور میں۔ایک اچھی غزل یا بلند معیارکا تنقیدی مقالہ لکھتا تو داد دوسرے کو ملتی۔ اگر میری معلومات درست ہیں تو اب دونوں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اگر زندہ ہیں تو میں دعا گو ہوں کہ خدا انہیں اور لمبی عمر دے۔ بانی ٔپاکستان قائداعظم نے دو ٹوک اور برملا کہا تھا کہ وہ نیا ملک سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے لئے نہیں ‘بلکہ غریب لوگوں کے لئے بنا رہے ہیں۔ قائداعظم نے اسلام کے حوالے سے بات ضرور کی مگر زور فلاحی مملکت پر دیا۔ یہی پاکستان کے قیام کا واحد جواز تھا۔ پاکستان بنانے کا واحد مقصد (اسلامی) فلاحی مملکت معرضِ وجود میں لانا تھا۔ انصاف‘ مساوات‘ رواداری‘ بقائے باہمی‘ دولت کی منصفانہ تقسیم‘ استحصال کا خاتمہ‘ قانون کی حکمرانی‘ بنیادی ضروریات کی ارزاں فراہمی‘ سرکاری محکموں کے جابرانہ تسلط سے نجات‘ یہ ہیں وہ ستون جن پر فلاحی مملکت کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اب آپ مڑ کر دیکھیں کہ کیا ان 71 سالوں میں وہ مقاصد پورے ہو گئے جن کے لئے ملک بنایا گیا تھا؟ جو اب یقینا نفی میں ہو گا۔ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے ہر شخص میں صرف ایک امید تھی کہ اگر یہ جماعت برسر اقتدار آگئی تو پاکستان کو فلاحی مملکت بنانے کے خواب کی عملی تعبیر کی طرف کس طرح قدم بڑھائے گی۔یہ ہے وہ پیمانہ جس سے جناب عمران خان کی حکومت کی کارکردگی جانچی اور پرکھی جائے گی۔ اُن کا یہ امتحان تو ہو کر رہے گا۔ آج نہیں تو کل۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سال بھی گزر جائیں گے‘ مگر ان پانچ سالوں میں غریب عوام کا کیا بنے گا؟ بقول غالب: 
؎ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
صرف اس اخبار پر موقوف نہیں ‘سارے کے سارے اخبارات متوسط طبقہ کے افراد پڑھتے ہیں۔ مزدور اور کاشت کار اخبار پڑھیں تو کیونکر؟ اوّل تو وہ اخبار پڑھ نہیں سکتے اور اگر پڑھ بھی سکتے ہوں تو خریدنا ان پر مالی بوجھ ہوگا‘ کہ جو وہ اُٹھا نہیں سکتے‘ اور اگر خرید بھی لیں تو وہ یہ دیکھ کر سخت مایوس ہوں گے کہ اخبارات کے سارے صفحات جن خبروں اور مضامین سے بھرے ہوئے ہیں اُن کا محنت کشوں کے مسائل سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ امیر ‘ متوسط اور محنت کش طبقات کی اپنی اپنی دنیا ہوتی ہے‘ اپنے اپنے مسائل اور اپنی اپنی ضروریات۔ امیر شخص کی بیگم صاحبہ کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آنے والی گرمیوں میں خریداری کے لئے ہانگ کانگ جائے یا لندن۔ متوسط طبقہ کی خاتون سوچتی ہے کہ وہ لاہور کی لبرٹی مارکیٹ جائے یا اچھرہ؟ محنت کش کی بی بی کو یہ فکر ہوتی ہے کہ محنت مزدوری کرنے والے خاوند کو ہڑتال یادھرنے کی وجہ سے اگر آج کام نہ ملا تو وہ شام کو بچوں کو کیا کھلائے گی؟قانون ساز اسمبلی صوبائی ہو یا قومی‘ اُس کا ایک فرد بھی نچلے‘ متوسط یا محنت کش طبقے سے تعلق نہیں رکھتا۔ جب انتخابی اخراجات کروڑوں میں ہوں تو متوسط طبقے کا کوئی بھی فرد الیکشن لڑنے کا خواب نہیں دیکھ سکتا۔ غریب آدمی پولیس کی تفتیش کی زد میں آجائے یا کسی مقدمے میں پھنس جائے تو وہ پولیس کی مٹھی گرم کرسکتا ہے اور نہ وکیلوں کی فیس ادا کر سکتا ہے۔ اُسے عدالت جرمانے کی سزا دے تو وہ جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیل چلا جاتا ہے۔ اُس کے گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جائے تو وہ نہ ڈاکٹر کی فیس دے سکتا ہے اور نہ دوائیاں خرید سکتا ہے۔ اُس کے بچے ہوں تو وہ اُن کے تعلیمی اخراجات نہیں اُٹھا سکتا۔ وثوق سے کہا جا سکتا کہ مندرجہ بالا سطور کو پڑھنے والے‘ ان باتوں سے بخوبی واقف ہوں گے‘ مگر وہ اپنے مسائل کے بوجھ تلے اتنے دبے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے سے زیادہ محروم اور بے وسیلہ افراد کو پیش آنے والے عذابوں سے بھرپور زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور اگر ان کے دلوں میں عوام دوستی یا خوفِ خدا ہو تو زیادہ سے زیادہ سطحی‘ سرسری دلچسپی ‘ برائے نام اوربے معنی دھیان کی حد تک۔
وہ امیر طبقہ جو اربوں ڈالر کی چوری کے سنگین جرم کا نصف صدی سے ارتکاب کر رہا ہے‘ کروڑوں پاکستانیوں کی غربت کا براہ راست ذمہ دار ہے۔ ہمارا وہ متوسط طبقہ جو امیر طبقے کی استحصالی کارروائیوں اور چوری چکاری بلکہ ڈاکہ زنی میں اس کا حلیف ‘ معاون اور مددگار ہے‘ وہ بھی کروڑوں پاکستانیوں کی غربت کا براہ راست ذمہ دار ہے۔ محنت کش طبقے کے جو افراد (جن کی تعدادکروڑوں میں ہے) اپنے اصل دشمن کے خلاف جہاد کرنے کی بجائے جعلی راہنمائوں کی قیادت میں عوام دشمن تحریکوں کو افرادی قوت مہیا کرتے ہیں‘وہ بھی اپنے طبقہ کی غربت کے خود ذمہ دار ہیں۔ عدالتوں کا حکم سر آنکھوں پر کہ ناجائز اور غیر قانونی تجاوزات گرا دیئے جائیں۔ لاٹھی بردار پولیس کو اور کیا چاہئے‘ وہ بے گناہ عوام کی دکانوں اور مکانوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑتی ہے۔ لینڈ مافیا سرکاری زمینوں پر قبضہ کرتی ہے اور پھر بظاہر قانونی ضوابط کے مطابق عام لوگوں کو رہائشی پلاٹ فروخت کرتی ہے اور ان لوگوں کو مالکانہ حقوق کے کاغذات بھی دیتی ہے۔ کراچی کے صدر کے علاقے میں دکاندار کراچی میونسپل کارپوریشن کو 30 سال سے کرایہ دے رہے تھے۔ کیا وہ کرایہ نامے ردّی کے ٹکڑے تھے؟ اُن دکانداروں کو کتنے ماہ کا نوٹس دیا گیا کہ وہ نئی جگہ ڈھونڈ لیں؟ متبادل جگہ کی پیشکش دکانیں گرانے کے بعد کیوں کی گئی؟ کراچی کا حُسن اہم ہے یا ہزاروں خاندانوں کا روزگار اورذریعۂ آمدنی ؟ لیاری میں رہنے والے مظلوم لوگ ہوں یا کراچی سٹیل مل کے مزدور‘جو بھی آفت اُترتی ہے تو انہیں کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے۔ ہماری نصف آبادی یا اس کے لگ بھگ خطِ افلاس سے نیچے برُے حالات میں زندہ ہے‘ برائے مہربانی ان کا بھی سوچیں۔ آخر انہیں کس جرم میں ایک کھلی جیل میں عمر قید (اور وہ بھی بامشقت) کی سزا دی جا رہی ہے؟ 
کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ چوری کے اربوں ڈالر پانامہ‘ لندن‘ جنیوا اور دبئی پہنچا دیئے گئے۔ چوری کا مال اب اس طرح ہضم ہو چکا کہ اس کا سراغ لگانا خزاں کے پتوں کے ڈھیر میں سے سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ مجرم ہزاروں ہیں اور ان کو پکڑنے والے بہت کم۔ نظام امیروں اور سابق حکمرانوں اور عالمی سطح کے لٹیروں کی طرفداری کرتا ہے۔ ہمارے پاس تو ایسا کوئی نظام نہیں جو زرداری کو سزا دے سکے‘ کوئی ایسی جیل نہیں جہاں نوازشریف کو قید میں رکھا جا سکے۔ ہماری پاس وہ پولیس نہیں جو اسحاق ڈار یا حسین حقانی یا شوکت عزیز یا اس کے باس پرویز مشرف کو گرفتار کر کے پاکستان لا سکے۔ ہمارے پاس جو جال ہیں وہ صرف چھوٹی مچھلیاں پکڑنے کے کام آتے رہے ہیں یا آسکتے ہیں۔ مگر مچھوں کو پکڑنے کا کوئی بندوبست نہیں۔ وجہ؟ ہم انگریزوں کے بنائے ہوئے ضابطوں کی کھینچی ہوئی لکیروں کے فقیر ہیں اور انگریز کی حکومت کے وقت مگر مچھ معرض وجود میں نہ آئے تھے۔ ہم کریں تو کیا کریں؟ اس گلے سڑے‘ عوام دشمن اور فرسودہ نظام کی صف جلد از جلد لپیٹ دیں۔ اسمبلیاں ہمارے اوپر کروڑوں اربوں روپوں کا بوجھ ہیں مگر یہ قانون سازی سے قاصر ہیں۔ نااہل ‘ نالائق اور بددیانت اشرافیہ کے قبضے سے نجات کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ جناب عمران خان استصوابِ رائے کے ذریعے ہنگامی حالت کے اعلان کا اختیار حاصل کرلیں ‘تاکہ ایک نیا عوام دوست اور غریب پرور نظام ترتیب دیا جاسکے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر وہ برق جو آج غریبوں پر گرتی ہے کل اس نظام پر گرپڑیگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں