قیامت جو گزر گئی

یہ سطور نئے سال میں شائع ہونے والے پہلے کالم کا حصہ بنیں گی اس لئے بسم اللہ کرتے ہیں قارئین کو سالِ نو کی مبارک دینے اور وطن عزیز میں دس کروڑ غریب ہموطنوں کی خوشی اور خوشحالی کی دعا مانگنے سے۔آپ جانتے ہیں کہ ایلزبتھ دوم برطانیہ کی ملکہ ہیں‘ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ 1992 ء اُن کی زندگی کا بدترین سال تھا۔ ملکہ معظمہ نے لاطینی زبان میں مصیبت لانے اور دکھانے والے سال کو Annus Horribilisکہا۔ کالم نگار نے برطانیہ میں قانون کی مختلف ڈگریاں حاصل کرنے کے لئے اُس مضمون کو سات سال پڑھا تو لاطینی زبان کے بہت سے الفاظ سیکھے مگر وہ دو لفظ جو پاکستان میں ہر اخبار پڑھنے والا یا ٹیلی ویژن پر خبریں سننے والا جانتا ہے وہ ہیںSuo Moto ۔ میں نے یہ الفاظ برطانیہ میں نہ کبھی سنے اور نہ کبھی پڑھے‘ چونکہ برطانوی نظامِ انصاف یہاں کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو متاثرہ فریق کی طرف سے استغاثہ دائر نہ کرنے کی صورت میں خود قانونی کارروائی شروع کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔ میں نے لاطینی لغات سے رجوع کیا تو وہاں Moto کی بجائے Motu لکھا ہوا تھا اور اس کے متبادل الفاظ تھے Sua Sponte ۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے (اور شاید خوش بھی) کہ آج بھی برطانیہ کے چوٹی کے پرائیویٹ سکولوں (جنہیں یہاں کالج کہا جاتا ہے) میں تین کلاسیکی زبانیں پڑھائی جاتی ہیںایک لاطینی‘ دوسری یونانی اور تیسری (آپ مانیں یا نہ مانیں) سنسکرت۔ وہی سنسکرت جس میں چار صدی قبل مسیح کالی داس نے اپنا شاہکار ڈرامہ شکنتلا لکھا اور اپنا نام یونان کے ہومر‘ ایران کے فردوسی‘ اٹلی کے دانتے اور انگریزوں کے ملٹن کی ساتھ‘ ابد تک زندہ رہنے والے ادیبوں کے ساتھ لکھوایا۔میں نے شکنتلا کا لفظ لکھا تو اس نے میرے ہاتھ پکڑ لئے کہ میں جب تک اپنے قارئین سے اس کا تعارف نہ کرائوں وہ مجھے اگلی سطور لکھنے کی اجازت نہ دے گا۔ ہندودھر م کی دیومالائی یا اساطیری Mythological داستانوں کے مطابق شکنتلا نام تھا Dushyanta کی بیوی اور شہنشاہ بھارت کی والدہ کا۔ اُس کی کہانی ہندوئوںکی مقدس کتاب مہابھارت میں درج ہے۔ کالی داس نے اسے ڈرامے کی شکل دی اور شیکسپیئر کی طرح اپنی شاعری کا بھی کمال دکھایا۔ چلتے چلتے کچھ مہابھارت کے بارے میں بھی جان لیں: رامائن کی طرح یہ قدیم‘ بہت ہی قدیم ہندوستان کی دوسری رجزیہ داستان ہے جو دو لاکھ اشعار پر مشتمل ہے۔ کرک شہتر(جو اب بھی ہندوستان کی ریاست ہریانہ کا ایک شہر ہے) میں ایک بڑی جنگ تین ہزار سال قبل مسیح لڑی گئی اور مہابھارت کے نام سے تاریخ کا حصہ بنی۔Vyasaنامی شخص نے مذکورہ بالا جنگ میں حصہ لینے والے کرداروں کی ذہنی کیفیت اور کشمکش نظم کی صورت میں بیان کی اور کالی داس نے اس سے خوشہ چینی کر کے ایک کردار (شکنتلا) پر ڈرامہ لکھا۔ اب آپ نے یہ سطور پڑھ لی ہیں۔ توہم آگے بڑھتے ہیں۔ 
مورخین کی تحقیق کے مطابق سن1349ء ایک بہت بُرا سال بلکہ سب سے برُا سال کہلانے کا یوں مستحق ہے کہ اُس سال پلیگ نے یورپ کی آدھی آبادی کو ہلاک کر دیا۔ نئی تحقیق کے مطابق (جو امریکہ کی شہرہ آفاق ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Michael Macormic نے کی) وہ سال جب بنی نوع انسان پر قیامت ٹوٹی سن536 تھا۔ سال کے شروع میں آئس لینڈ میں ایک آتش فشاں پہاڑ کے پھٹ جانے سے راکھ کا اتنا بڑا انبار فضا کا حصہ بنا کہ نہ صرف سارے یورپ بلکہ مشرق وسطیٰ پر بھی اندھیرا چھا گیا۔ سویڈن سے لے کر Mesopotamia (عراق اور اُس کے گرد و نواح) تک فصلیں تباہ ہو گئیں اور زراعت کا نام و نشان مٹ گیا۔ درجۂ حرارت کئی درجہ نیچے گر گیا اور سارا یورپ شدید اور ناقابلِ برداشت سردی کی لپیٹ میں آگیا۔ صرف چار سال گزرے کہ 540 اور 547 کے درمیانی عرصہ میں مصر کی ایک بندرگاہPelusium میں پلیگ پھوٹ پڑی‘ جس نے نہ صرف مصر کی اپنی آبادی کے بڑے حصہ‘ بلکہ مشرقی رومن سلطنت کی آدھی آبادی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ یورپ کو اس قیامتِ صغریٰ سے سنبھلنے میں ایک سو سال لگ گئے۔ چھٹی صدی کے رومن مصنفین نے جب اپنے دور کے حالات قلمبند کئے (خصوصاً Cassidgrus- John The Lydianاور Procopius نے) تو اُنہوں نے اُس گہرے تاریک بادل کا تفصیل سے 
ذکر کیا ‘جس نے تقریباً سارا سال سورج اور چاند کو ڈھانپے رکھا اور زمین ان کی روشنی سے محروم رہی۔ نا صرف انسان ‘بلکہ نباتات‘ حیوانات‘ جنگلات بھی اس حد تک تباہ ہوئے کہ اسے بجا طور پر قیامت کہا جا سکتا ہے۔
یہ تو تھا تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پرانا قصہ۔ یہ تو تھا ذکر اُس قیامت کا جو گزر گئی‘ مگر سائنسدان اب آنے والی اُس قیامت کے بارے میں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں جو Global Warming کی وجہ سے رُونما ہوگی۔ بڑے پیمانے پر کوئلہ جلانے سے فضا کاربن کے ذرات سے اس طرح بھر جائے گی کہ آنے والے سالوں میں یورپ میں موسم گرما ناقابل ِبرداشت ہو جائے گا۔ تپتے صحرائوں کی طرح درجہ حرارت 56 سے اُوپر چلا جائے گا۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ اب ہماری دُنیا میں طوفانوں (Cyclones) کی تعداد اورشدت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں جنگلوں کے جنگل کاٹ لئے گئے تو ہمارے ہاں سیلابوں نے تباہی مچا دی۔ نومبرکا سارا مہینہ امریکہ کی مغربی ریاست (کیلی فورنیا) اتنی بڑی آگ کی لپیٹ میں آگئی کہ وسیع و عریض جنگلات راکھ ہو گئے اور سینکڑوں انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ برطانیہ ان دنوں جس بڑے طوفان کے تھپیڑے کھا رہا ہے‘ اُسے موسمیات کے ماہرین نے Diana کا نام دیا ہے)۔ 70 میل گھنٹہ کی رفتار پر چلنے والی تیز ہوائیں‘ ساحلی علاقے بحری طوفان کی زد میں آگئے اور شدید بارشوں نے سارے ملک کی زندگی درہم برہم کر دی۔ عام شہری ان حالات میں کس قدر پریشان ہیں اس کا آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘ مگر سب سے فکر مند بیمہ (انشورنس) کرنے والی کمپنیاں ہیں‘ جنہیں اربوں پائونڈ کا ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا۔ بڑے پیمانے پر ہونے والے مالی نقصان کی 
تلافی کے لئے ایک صدی قبل علامہ اقبالؔ نے ہمیں فطرت کی سخت تعزیروں سے ڈرایا تھا‘ مگر ہم بہادر اور بے خوف لوگ ہیں شاعروں کی لکھی ہوئی باتوں سے کیوں ڈریں؟ آپ اپنے ملک کی حکمران اشرافیہ کو دیکھیں ‘وہ خداسے نہیں ڈرتی تو ایک شاعر سے خوف کھائے تو کیونکر؟ اب سیلابوں اور دھند کے بادلوں نے ہمارا جو حشر کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے؛ اگر ہم اب بھی لاہور کی ساری گندگی اور سارا کیمیائی فضلہ دریائے راوی میں پھینکتے رہے۔ (وہی راوی جسے آنجہانی کلدیپ نیئر نے اتنا مقدس اور پاک صاف سمجھا کہ اپنی راکھ وہاں بہا نے کی وصیت کی‘ جس پر اُن کے ورثا نے عمل کیا)۔ اگر ہم درخت اگانے کی بجائے درخت کاٹتے رہے‘اگر چکوال کے گردو نواح میں سیمنٹ فیکٹریاں زیر زمین پانی کو بے دریغ نچوڑتی رہیں؛ اگر جنوبی پنجاب ‘ راجن پور میں99,077ایکڑ میں ایک نہایت شاندار جنگل اُگانے کا شاندار منصوبہ محض اس لئے سرد خانے میں ڈال کر کروڑوں روپے (جو خرچ کئے جا چکے ہیں) ضائع کر دیئے جائیں کہ وہ منصوبہ میاں شہباز شریف کے دورِ حکومت میں بنایا گیا تھا‘اگر ہم دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو کھاری ہونے اور ساحلی علاقوں کو غرق کرنے سے نہیں روک سکتے‘ اگر ہم بڑی بڑی صنعتوں کو ماحولیات کے تحفظ کے قانونی احترام پر مجبور نہیں کر سکتے‘اگر ہم ہوا اور پینے کے پانی کو آلودگی سے نہیں بچا سکتے؛اگر ہمیں اپنے دریائوں پر بند بنانے کے لئے عدلیہ کے سربراہ کی چلائی گئی مہم کا سہارا لینا پڑے‘ اگر ہم صفائی کو نصف ایمان کہنے کے باوجود اپنے تمام شہروں کو گندے ترین شہروں کی صف میں شامل کرنے کی روش پر قائم رہیں‘ اگر ہم عید قربان کے موقع پر جانوروں کی آلائشوں کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگا سکتے‘ اگر ہم اپنے ماحول کو خوشگوار صحت افزا نہیں بنا سکتے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اس سنگین جرم کی جواِن دنوں سزا مل رہی ہے‘ وہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی جائے گی۔
میرے ساتھی کالم نگار ایاز امیر صاحب کا یہ زریں قول دُہرائے جانے کے قابل ہے کہ وہ ایٹمی طاقت کس کام کی جو ہمیں پلاسٹک بیگ کے عذاب سے بھی نجات نہیں دلوا سکتی۔ پلاسٹک بیگ ہمارے موجودہ ماحول کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس نے ہماری زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ آج کے کالم کا موضوع تھا وہ قیامت جو گزر گئی‘ مگر میں جب کالم ختم کرنے کے لئے آخری سطر لکھنے لگا تومجھے خیال آیا کہ کتنا اچھا ہو کہ ہم سب مل کر اپنے آپ کو اُس قیامت سے بچائیں ‘جو آنے والی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں