سات سمندر پار سے آنے والی اچھی خبر

ملک کا نام ہے میکسیکو‘ لاطینی امریکہ کے شمال میں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ (U.S.A) کا جنوبی پڑوسی۔ جنوبی امریکہ کے لاکھوں غریب لوگ ہر سال اور ہر ماہ‘ بلکہ ہر روز امریکہ اور میکسیکو کی درمیانی سرحد کو غیر قانونی طور پر اور جان جوکھیم میں ڈال کر عبور کرتے ہیں یا عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کوشش میں یا گرفتار کر لئے جاتے ہیں یا وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہزاروں میل لمبی سرحد پر آہنی باڑ لگانے سے لے کر بلند دیوار تعمیر کرنے تک سب تدابیر اختیار کی گئیں‘ مگر جان لیوا غربت سے نجات حاصل کرنے کا جذبہ کسی نہ کسی طرح ان رکاوٹوں پر غالب آجاتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ سرحد کو عبور کرنا مشکل سے بڑھ کر بتدریج ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ کل آبادی دس کروڑ جس میں دس فیصد (تقریباً ایک کروڑ) دارالحکومت (میکسیکو سٹی) میں رہتی ہے۔ امریکہ کی جنوبی ریاست ٹیکساس میکسیکو کا حصہ تھی جو امریکہ نے جنگ لڑ کر فتح کر لی۔ میکسیکو ایک قدیم تہذیب کا گہوارا ہے۔ یہاں یکے بعد دیگرے Aztec اور Maya نام کی سلطنتوں نے صدیوں سے حکومت کی۔ دو سو سے لے کر چار سو سال قبل مسیح یہاں جو شہر آباد تھااُس کا نام تھا Teothuacan ‘ مگر وہ جتنا بھی پرانا ہو ہمارے موہنجوداڑو جتنا قدیم ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا‘ ماسوائے برازیل کے (جہاں پرتگیزی زبان بولی جاتی ہے) لاطینی امریکہ کے تمام ممالک ہسپانوی زبان بولتے ہیں اور سارا براعظم عیسائی مذہب کا پیرو کار ہے ‘زیادہ تر رومن کیتھولک۔ میکسیکو کے اس مختصر تعارف کے بعد ہم اُس عظیم الشان تبدیلی پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو ماہ دسمبر میں رونما ہوئی‘ جس نے وہاں کی آناً فاناً کایا پلٹ دی۔ 30 سال کے بعد وہاں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اشتراکی ذہن کے روشن دماغ ‘ انسان دوست (اور یقینا ہمارے ڈاکٹر لال خان کے پسندیدہ) رہنما Andre's Manuel Lapez Obrador بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر وہاں کے صدر منتخب ہوئے۔ نئے صدر نے لاکھوں کے جم غفیر کے سامنے اپنے عہدہ کا حلف اٹھایا تو پلک جھپکنے میں اس ملک کے افق پر 30 سال سے چھائے ہوئے گہرے کالے بادلوں میں امید کی چمکتی ہوئی بجلیوں سے روشنی کے آثار پیدا ہوئے۔ ایک صدی قبل شاعر ِمشرق علامہ اقبال ؔنے (چین میں عوامی انقلاب کے اوّلین آثار دیکھ کر) اپنی قوم کو مشورہ دیا تھا۔ع
مشرق سے اُبھرتے ہوے سورج کو ذرا دیکھ
اب تو وہ سورج نصف النہار پر ہے‘ گراں خواب چینی نہ صرف سنبھل چکے ہیں‘ بلکہ ہمالہ میں اُبلنے والے چشمے ایشیا اور افریقہ کے براعظموں کو بھی سیراب کر رہے ہیں۔ میکسیکو میں رونما ہونے والے معجزے نے یہ بھی سچ ثابت کر دیاکہ سورج مغرب سے بھی طلوع ہو سکتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب وہ ایران میں اور پھر ترکی میں اور گزرے ہوئے سال کے آخری دنوں میں ملائیشیا میں طلوع ہوا ۔ ایران میں امام خمینی‘ ترکی میں اردوان او رملائیشیا میں مہاتیر محمد۔ یہ عظیم رہنما ان تینوں ممالک میں تبدیلی کے ہر اوّل دستہ کے حدی خواں ہیں۔ ان کی آواز بیک وقت بانگ ِدرا‘ ضربِ کلیم‘بالِ جبریل اور ارمغانِ حجاز ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ بندہ ٔمومن کا ہاتھ ہی اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ آپ کو اس کا ٹھوس ثبوت چاہئے تو مندرجہ بالا تین ممالک کے علاوہ دسمبر2018ء میں بدل جانے والے میکسیکو کو دیکھ لیں۔ میکسیکو کے نئے صدر کے چار لفظوں پر مشتمل نام کو وہاں کے لوگوں نے مخفف کر کے Amlo بنا دیا ہے۔ Amlo نے اپنی تقریر میں جو کہا اس سے زیادہ غیر رواجی‘ بہادرانہ‘ انقلابی‘ فکر انگیز اور جہانِ تازہ کی نمود دینے والی تقریر انسانی تاریخ میں بہت کم سنی گئی۔ Amlo نے اعلان کیا کہ وہ منڈی کی آزاد حیثیت (Free Market Policies) کے اُس نظریہ کوتاریخ کی ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ یہ وہی نظریہ ہے جس پر دوسوسال سے دنیاپرحکومت کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی بلند وبالا عمارت کھڑی ہے۔ بقول اقبالؔ:؎
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کے مداری گیا
آیئے اب ہم اپنے ملک کی طرف چلیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں بدعنوانی‘ لوٹ مار‘ رشوت ستانی اور استحصال کا سرطان اتنا پھیل چکا ہے کہ وزیر خزانہ چاہے کتنا دیانتدار اورنیک نیت ہو (اور جناب عمران خان کی قابل اعتماد ساتھیوں میں شامل ہو) وہ اتنی برُی طرح ناکام ہو چکا ہے کہ نہ ہاتھ باگ پر ہے اور نہ پا ہے رکاب میں۔یہ وزیرخزانہ کی نہیں‘ بلکہ اس معاشی نظام کی ناکامی ہے جو نہ صرف فرسودہ‘ گلاسڑا‘ عوام دشمن اور پیداواری زاویہ سے بنجر اور بانجھ ہے۔ عمران خان آکسفورڈ میں نہ بھی پڑھے ہوتے تو لاہور کے ایچیسن کالج کی تعلیم نے بھی انہیں یہ انگریزی محاورہ سکھا دیا ہوگاDont Flog a Dead Horse ۔ جناب عمران خان اپنے وزیر خزانہ کو روزانہ ہدایت دیتے ہیں کہ گھوڑے کو ایڑی لگائو اسے اور چابک لگائو تاکہ وہ تیز دوڑ سکے۔ افسوس کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ گھوڑا مر چکا ہے‘ وہ دوڑ نا تو کیا چل بھی نہیں سکتا۔ Amlo نہ صرف خودصدر بنے بلکہ ان کی سیاسی جماعت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل کر لی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس غلطی کو کبھی نہ دہرائیں گے جو 1970 ء سے لے کر 1982ء تک بارہ سالوں میں کی گئی اور اُن کے ملک کو IMF سے اربوں ڈالروں کا کمر توڑ قرضہ لینا پڑا ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس کالم نگار نے چند ماہ پہلے ایک کالم لکھا تھا اس کا عنوان تھا کہ آپ شیروں کو سبزی خور نہیں بنا سکتے۔ اس طرح آپ جو چاہے کر لیں آپ پاکستان کے دکانداروں اور تاجروں کی اکثریت کو اپنے حصے کا پورا ٹیکس دینے اور اپنے کاروبار کو دستاویزی بنانے پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح آپ جو بھی اصلاح کر لیں آپ افسر شاہی کو ''عوام دوست بنا سکتے ہیں اور نہ لکیر کی فقیری چھوڑ کر غیر رواجی ‘ تخلیقی اور ذہنی اُپچ دکھانے والی روش اپنانے کا سبق سکھا سکتے ہیں۔ اسد عمر صاحب کی سادہ لوحی قابل رحم ہے کہ وہ رسوائے زمانہ NEO Liberal روایتی معاشی پالیسی کو جوں کا توں قائم رکھتے ہوئے (اسحاق ڈار اور شوکت عزیز کے نقش قدم پر چلتے) ہوئے مختلف اور بہتر نتائج کی توقع رکھتے ہیں۔ بقول اقبالؔ:؎
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے
گزشتہ70 سال میں ہمارے معاشی نظام کو کس طرح چلایا گیا؟ کروڑوں عوام کو قربانی کا بکرا بنا کر‘ان کا خون چوس کر‘ تمام ضروریاتِ زندگی پر بھاری ٹیکس لگا کر‘افراطِ زر کو فروغ دے کر‘اربوں ڈالروں کی خیرات (بطور قرض) لے کر‘ روپے کی قدر گھٹا اور ڈالر کی قدر بڑھا کر‘ کسانوں اور مزدوروں کا استحصال کر کے۔اب سارا معاشی نظام کھوکھلا‘ نیم مردہ‘ غیر پیداواری اور قریب المرگ ہو چکا ہے۔ ہم کبھی کشکولِ گدائی لے کر چین کی طرف بھاگتے ہیں اور کبھی سعودی عرب کی طرف۔ کبھی IMF اور کبھی کسی اور بین الاقوامی ساہو کار کی طرف۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نہ عوام دوست سیاسی جماعتیں ہیں اور نہ محنت کشوں کی اپنی جاندار تنظیمیں۔ پرُانا زمانہ ہوتا تو کوئی غیر ملکی طاقت حملہ کر کے ہم پر قابض ہو جاتی۔ پچھلے سات سو سال میں یہی ہوتا آیا ہے‘ پہلے پٹھان‘ پھر مغل‘ پھر انگریز۔اب ہمارے ایٹمی ہتھیار ہمیں غیر ملکی فوجی جارحیت سے تو بچا سکتے ہیں مگر وہ نہ ہمارے معاشی بحران کو ختم نہیں کر سکتے ۔ ایک پالیسی یہ ہو سکتی ہے کہ ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا لیں اور دوسرا وہ راستہ ہے جو اردوان کے استنبول سے شروع ہو کر مہاتیر محمد کے کوالالمپور سے ہوتا ہواAmlo کے میکسیکو سٹی تک جاتا ہے؛ اگر ہم ان نازک لمحات میں اپنی جان بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں سیانے آدمیوں کی ایک ٹیم جلد از جلد میکسیکو روانہ کرنی چاہئے۔ وہ جا کر Amlo کے ہاتھ چومیں‘ اس کے سر پر پگڑی رکھ کر اُس کی استادی قبول کریں۔ پنجاب کی روایت کے مطابق سیر ڈیڑھ سیر لڈو بھی ساتھ لیتے جائیں۔ اس کے پائوں میں بیٹھ کر اس سے وہ نسخہ سیکھیں جو ہمارے دکھوں کا علاج کرے۔ ہمیں ایک بھونڈی شکل کی سرمایہ داری کے سانپ نے ڈس لیا ہے ۔ اب شیخ سعدی کا زمانہ نہیں کہ تریاق عراق سے مل جائے‘ اب وہ میکسیکو سے بھی مل سکتا ہے۔ یہ ہے وہ اچھی خبر جو سات سمندر پار سے آئی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں