گھر کا چراغ

کاش کہ ہمارے پاس وہ چراغ ہو تا جو ہمارے گھر کو روشن کرتا۔ کاش کہ ہمارے پاس الٰہ دین کا چراغ ہوتا (قابل اور دیانت دار قیادت کی صورت میں) جو ہمارے سارے دکھوں کو جادوئی عمل کے ذریعہ سُکھ‘ چین میں تبدیل کر دیتا۔ کاش کہ (بقول اقبال)ہمارے پاس چیتے کی آنکھ کا چراغ ہوتا تاکہ ہم گم شدہ راستوں (جو ہمیں اقبال اور قائداعظم نے بتائے تھے) کا سراغ لگا لیتے۔ کاش کہ ہماری قیادت کوئی ایسا مردِ درویش کرتا جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا: ع
وہ مردِ درویش جس کوحق نے دیئے ہیں اندازِ خسروانہ 
موصوف نے یہ کمال دکھایا تو کیونکر؟ اقبال اس کا جواب دیتے ہیں : ہوا ہے گوتندو تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے۔کاش ہمارے پاس امام خمینی یا طیب اردگان یا مہاتیر محمد جیسا میرِ کاروان ہوتا۔ یہ لفظ سو بار بھی لکھوں تو کم ہوگا۔ قائداعظم اور اُن کے جانشین لیاقت علی خان کی آنکھیںبند ہوئیں تو ہمارے گھر کو گھر کے چراغ ہی سے آگ لگ گئی۔کالم نگار کا یہ بیانیہ کوئی ایسا ایٹمی راز نہیں جسے پڑھ کر قارئین حیرت سے اُچھل پڑیں اور اُن کی عقل دنگ رہ جائے۔ سیاست دان‘ افسر شاہی‘ صنعت کار‘ جاگیر دار‘ مذہبی رہنما‘ یہ ہے ہماری اشرافیہ جو روپ بدل بدل کر 71 سالوں سے برسراقتدار رہی ہے۔ مذکورہ پانچوں طبقات مل کر ہمیں بیرونی دشمن کی جارحیت سے ڈراتے رہے مگر بیرونی دشمنی سے ہزار گنا زیادہ نقصان پہنچایا۔ وہ بھارت کی آبی جارحیت پر واویلا کرتے رہے اور انہوں نے خود دستیاب پانی کو ڈیم بنا کرمحفوظ نہ کرکے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ وطنِ عزیز کے لوگ بے بس اور لاچار تو یقینا ہیں مگر لاعلم اور بے خبر ہر گز نہیں۔ لاکھوں افراد روزانہ اخبارات پڑھتے ہیں اور کروڑ وں ٹیلی ویژن پر خبریں سنتے ہیں۔ کرپشن‘ لوٹ مار‘ قومی خزانے سے اربوں کھربوں کی چوری‘ سرکاری عہدوں سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر اربوں ڈالرکے کمیشن کی وصولی‘ دبئی سے لے کر لندن تک سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کی بیش قیمت جائیدادیں۔ پانامہ اور ورجن آئی لینڈ اور اس طرح کے دوسرے مقامات پر چوری کے اربوں ڈالروں کو چھپانے کی کارروائی۔ آپ یہ سب کچھ پڑھ پڑھ کر اور سُن سُن کر اتنے تنگ آگئے ہوں گے کہ اگر میں مذکورہ بالا بے حد تکلیف دہ مگر سوفیصد سچے حقائق کو دُہرائوں تو آپ بجا طور پر اس کالم نگار سے ناراض یا (کم از کم) بیزار ہو جائیں گے۔
1947 ء سے لے کر 1968ء تک (جن میں جنرل ایوب کے آمرانہ دور کے دس سال بھی شامل ہیں۔) بے سرو سامانی‘ لاکھوں مہاجرین کا سیلاب ِبلا‘ خزانہ اتنا خالی کہ نظام آف حیدرآباد اور نواب آف بہاول پور سے تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے رقم قرض لینا پڑی۔ نہ صنعت‘ نہ حرفت‘قیامت کی افراتفری‘ ملک کے دو حصوں میں ایک ہزار میل کا فاصلہ‘ امریکی سامراج کی بالادستی اور ہر سال بڑھتا ہوا سامراجی غلبہ۔ جمہوری اداروں اور عوامی شرکت کا فقدان‘ سول سوسائٹی کا وجود صفر کے برابر‘ پروں میں چونچ چھپانے والا پریس۔ ہاتھوں پر ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں۔ پھر بھی ذرا مڑ کر دیکھئے تو آپ کو ناقابلِ یقین ترقی اور استحکام اور خوش حالی نظر آئے گی۔ مجھے مئی 1967 ء میں برطانوی ویزا ملا تو مجھے‘ میری بیوی اور تین چھوٹے بچوں کو حکومت پاکستان نے بمشکل 15 پائونڈ خریدنے اور ساتھ لے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی‘ مگر نوٹ فرمایئے کہ آج جو پائونڈ 175 روپے کا ہے51 سال پہلے صرف 13 روپے کا تھا۔ یہی حالت ڈالر کے شرح تبادلہ کی تھی۔ 
چوہدری محمد علی‘ ملک غلام محمد اور جنرل سکندر مرزا (اور ان کے جانشین جنرل ایوب خان) کی سیاسی طالع آزمائی ہدفِ تنقید ہے مگر دیانتداری کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ ہمیں 1947 ء میں انگریزی سامراج سے ورثہ میں ICS (انڈین سول سروس) کے جو سو کے قریب افسران ملے وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال تھے اور اتنے ہی دیانتدار تھے جتنے اُن کے جانشین بددیانت نکلے۔ یہ افسران نئی مملکت کے انتظامی ڈھانچے کے لیے نہ صرف ریڑھ کی ہڈی تھے بلکہ دل و دماغ اور دست و بازو بھی۔ انہوں نے اس ملک کو کامیابی سے چلانے کا معجزہ کر دکھایا‘ جس کے بارے میں کانگرس کی قیادت کا گمان یہ تھا کہ علیحدہ ہو جانے والا ملک (وسائل کی کمی کی وجہ سے) چند ماہ یا زیادہ سے زیادہ چند سال کے اندرCollapseہو جائے گااور بھارت کی آنکھ میں چبھنے والا کانٹا خود ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
اب میں اپنے قارئین کا سات سمندر پار سے آنے والی ایک برُی خبرسنانا چاہتا ہوں جس نے کالم نگار کے دن کا چین اور رات کا آرام حرام کر دیا ہے۔ پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال میں 44 وفاقی وزارتوں نے پاکستانی عوام کی جو رقم بے نظمی‘بے توجہی‘ نالائقی‘ کام چوری اور بے تربیتی کی وجہ سے ضائع اور برباد کی وہ 5.8 ٹریلین بنتی ہے۔ پہلی بری خبر کے ساتھ جڑی ہوئی دوسری برُی خبر یہ تھی کہ 2016-2017ء کے مقابلے میں مذکورہ بالا نقصان87 فی صد زیادہ تھا۔ ظاہر ہے کہ حلوائی کی دُکان پر ناناجی کا فاتحہ پڑھنے یا پڑھوانے کا کاروبار ہر سال ترقی کے مراحل تیزی سے طے کر رہا ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی عوام دوست ماہرین معیشت کے قافلہ کے سردار ہیں‘ اُن کی تحقیق کے مطابق ہماری آدھی سے زیادہ معیشت غیر دستاویزی ہے۔ اُس کا سرکار کے کاغذوں میں کوئی نام و نشان نہیں۔ ان دنوں حکومت جتنا ٹیکس وصول کرتی ہے وہ اس رقم کا جو بطور ٹیکس وصولی کی جاسکتی ہے دس فیصد ہے۔ دوسرے الفاظ میں FBR کے سامنے دس گنا زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا امکان موجود ہے۔ اگر ہم ایسا کرلیں تو ہمارا قومی بجٹ خسارے کی دلدل سے باہر نکل آئے گا۔ مجھے تیسری برُی خبر یہ ملی (کتنا اچھا ہو کہ حکومت اس کی تردید کر دے اور یہ غلط ثابت ہو) کہ وفاقی وزارتِ خزانہ نے 3.89 ٹریلین روپوں کی اضافی گرانٹس دیں (فیاضی اور بے دردی کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال جو قابلِ ندامت ہے) تو قانون کے مطابق قومی اسمبلی سے اجازت لینے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ چوتھی بُری خبر یہ ہے کہ ہماری پارلیمان نے کئی وزارتوں کو جتنی رقم خرچ کرنے کا اختیار دیا تھا‘ انہوں نے اس سے1.74 ٹریلین زیادہ خرچ کئے‘ جس کی وہ مجاز نہ تھیں۔ پانچویں برُی خبر یہ ہے کہ کئی وزاتوں کے پاس 109.5 ارب روپے بچ گئے جو انہوں نے قومی خزانہ کو واپس نہ کئے‘ جہاں وہ کسی اور مَد میں خرچ کئے جا سکتے تھے۔ چھٹی اور شاید سب سے کم برُی خبر یہ ہے کہ وزارت خزانہ کے بڑے افسروں نے دس کروڑ روپے (مذکورہ بالا شاندار خدمات سرانجام دینے کے انعام کے طور پر) بطورِ تحفہ آپس میں بانٹ لئے۔ نہ کوئی احتساب نہ شفافیت‘ نہ کوئی قانون نہ ضابطہ۔ جب کوئی پوچھنے والا نہ ہو تو کوئی جواب دینے کا پابند کیوں ہو؟ مال مفت دل بے رحم کے گھسے پٹے محاورے کی اس سے زیادہ بہتر مثال نہیں دی جا سکتی۔
یہ تو تھا تصویر کا ایک رُخ۔ اب آپ دوسرے رُخ کی طرف آیئے۔ کیا کسی سیاسی جماعت نے ہمالیہ پہاڑ سے بڑے اس سکینڈل کی طرف عوام کی توجہ دلائی اور تفتیش کرنے اور کئی کھرب روپوں کے ضائع کرنے والوں یا غیر قانونی طور پر خرچ کرنے والوں کے خلاف کسی کارروائی کا مطالبہ کیا؟ اور تو اور کیاپارلیمان کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے Public Finance کی اتنی بڑی Mismanagementکو اپنی فوری توجہ کا مرکز بنایا؟ جناب عمران خان نے وزیراعظم کی پرانی رہائش گاہ میں جو تحقیقی ادارہ بنانے کا اعلان کیا ہے‘ وہ سارے کام آنے والے کل پر ملتوی کر کے عوام کی کمائی کے ضیاع کی مؤثر روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات تجویز کرے جور قانوناً نافذ بھی ہوں۔ شہر کو سیلاب لے جائے توہم مژگان نہیں کھولتے۔ ہمارے گھر کو گھر کے چراغ سے آگ لگ جائے تو ہم نہیں جاگتے۔ یا خدا میں کونسی دعا مانگوں؟ 20‘21 کروڑ لوگوں اور ان کے رہنمائوں کی آنکھیں کھول دینے والی دعا۔ آیئے ہم رِسم دعا بھول جانے سے پہلے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائیں۔گھر کے چراغ سے گھر کو لگ جانے والی آگ کو بجھانے کی دعا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں