صرف چہرے نہیں‘ نظام بدلو

ہم نے مندرجہ بالا الفاظ سب سے پہلے ایئر مارشل اصغر خان کی زبان سے سنے۔ بعد ازاں ان الفاظ نے ڈاکٹر عطا الرحمن صاحب اور پھر ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے لے کر جناب ہارون الرشید اور جناب خورشید ندیم کی جاندار تحریروں میں جگہ پائی۔ کروڑوں کے ملک میں لاکھوں افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ وہ دیکھتے ‘سنتے اور غالباً سوچتے بھی ہیںمگر حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ ان کی ساری توجہ گاڑی کے ڈرائیور کے انتخاب پر اس طرح مرکوز ہے کہ انہیں سب سے بڑی حقیقت نظر نہیں آتی کہ ہماری گاڑی کا انجن ناکارہ ہو چکا ہے‘ٹائروں میں ہوا نہیں اور وہ اتنے بوسیدہ ہو چکے ہیں کہ اُن میں ہوا بھری بھی نہیں جا سکتی۔ گاڑی کا انجر پنجر ٹوٹ پھوٹ چکا ہے ۔ بالکل یہی حال ہمارے سیاسی اور معاشی نظام کاہے۔ یہ بھی فرسودہ ہوتے ہوتے گل سڑ چکا ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر عوام دشمن ہے۔ اس کی بنیاد سیاسی اور معاشی استحصال‘ لوٹ مار‘ چوری چکاری‘ دھن‘ دھونس اور دھاندلی پر ہے۔ 
آپ ضرور جانتے ہوں گے کہ سپریم کورٹ میں ایک عدالتی کارروائی کے دوران یہ حیرت انگیز (نہ معلوم ہماری قسمت میں کتنی بار اور کتنا زیادہ حیران ہونا لکھا ہوا ہے) انکشاف ہوا کہ ہمارے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کر دی گئی‘ مگر کسی بحث‘ اظہارِ خیال اور ناقدانہ تجزیہ و تبصرہ کے بغیر۔ اس طرح تو عام قانون سازی بھی نہیں کی جا سکتی۔ آئین میں (غالباً اہم ترین) ترمیم اور وہ بھی ایک لفظ بولے بغیر کیونکر کی جاسکتی ہے ۔ موجودہ قومی اسمبلی کی عمر چھ ماہ ہو چکی ہے (یا ہونے والی ہے) مگر وہ ابھی ایک بھی قانون نہیں بنا سکی۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ قانون ساز ادارہ قانون بنانے سے قاصر ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین تعلیم یافتہ ہوں یا اَن پڑھ۔ ایک بات پکی ہے کہ وہ کروڑ پتی ہیں یا ارب پتی۔ قومی اسمبلی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف کی اکثریت اتنی کم ہے کہ اُسے انگریزی میں Wafer Thin کہا جا سکتا ہے۔ وہ کسی قابل ذکر تبدیلی کے لئے قانون سازی کرے تو کیونکر؟کالم کی محدود جگہ لمبی چوڑی بحث کی اجازت نہیں دیتی۔ ہمارے موجودہ سیاسی نظام کو کن تدابیر سے قابل عمل اور فعال بنایا جا سکتا ہے؟ جواب سیدھا سادا ہے۔ صدارتی نظام‘ متناسب نمائندگی‘ مقامی اور ضلعی حکومتوں کا قیام ‘ ہر سطح پر اقتدار میں عوام کی شرکت کا بندوبست۔جو سیاسی عمارت ان چار ستونوں پر کھڑی ہوگی وہ مضبوط اور مستحکم ہوگی۔ وہ عوام دوستی کے بلند معیار پر پورا اُترے گی۔وہ دریائوں پر بڑے ‘ چھوٹے بند بنائے گی۔ آبی ذخیرے بنانے کی طرف وہ توجہ دے گی ‘جو آج تک نہیں دی گئی۔ کسانوں اورمزدوروں کے اوقات کی تلخی کو کم کرے گی کہ وہ بھی یورپ کے محنت کشوں کی طرح سکھ کا سانس لے سکیں۔ وہ فلاحی مملکت کے قیام کے خواب کی عملی تعبیر کو پورا کرے گی۔ وہ مہنگائی اور بے روز گاری کے عذاب اور نصف آبادی کی گردنوں کو طوقِ غربت سے نجات دلائے گی۔
یورپ کے ہر جمہوری ملک میں پارلیمانی نظام اس لئے کامیابی سے چلتا ہے(اور ہمارے ہاں نہیں چلتا) کہ ان میں مندرجہ ذیل خصوصیات (جو خوبیوں کے زمرے میں آتی ہیں) موجود ہیں‘جبکہ ہمارے ملک میں صورتحال بالکل مختلف بلکہ متضاد ہے۔ اوّل: ہر انتخابی حلقے میں ہر سیاسی پارٹی کے رکن اپنی پارٹی کے امیدوار کا چنائو خود کرتے ہیں۔ مرکزی دفتر یا قائد اعلیٰ کے دفتر سے انتخابی ٹکٹ (بطور انعام و اکرام) نہ عنایت کیے جاتے ہیں اور نہ پنجاب کے دیہاتی علاقوں (جن سے اس کالم نگار کا جنم جنم کا رشتہ ہے) کی طرح پسندیدہ افراد میں ریوڑیوں کی طرح بانٹے جاتے ہیں۔دوم: امیدواروں (چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو) کی بڑی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین میں سے نصف ڈگری یافتہ اور ایک تہائی آکسفورڈ یا کیمبرج یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔سوم: حزب اختلاف امورِ سلطنت کو اچھی طرح چلانے میں حکومت سے پورا تعاون کرتی ہے۔ برطانیہ میں حزب اختلاف کو احتراماً Her Majesty's Most Loyal Oppositionکہا جاتا ہے‘ جو برطانیہ کے غیر تحریری آئین کے متعین کردہ دائرے کے اندر رہ کر حکومت پر صحت مندانہ تنقید کرتی ہے۔ بدنیتی یا بغض و عناد سے نہیں بلکہ دیانتداری سے کی جانے والی ایسی تنقید جس کا سرکاری حلقوں میں بھی خیر مقدم کیا جاتا ہے۔چہارم: آزاد‘ ذمہ دار‘ قابل ِاحترام‘ قابل اعتبار اور بلند صحافیانہ معیار پر پورا اُترنے والا پریس۔ پنجم: متحرک جاندار‘ درخشندہ‘ تابندہ‘ عوام دوست اور خدمت گزار سول سوسائٹی (مذہبی ادارے‘ محنت کشوں کی انجمنیں‘ سماجی تنظیمیں)۔ ششم: باخبر ‘ باشعور ‘غیر جذباتی‘ معقول مزاج‘ برد بار اور سمجھ دار رائے عامہ (مثلاً برطانیہ میں دوسری جنگ عظیم کے ہیرو ونسٹن چرچل کے سر سے ابھی جنگ عظیم میں تاریخی کامیابی کا سہرا اُترا نہ تھا کہ اسے عام انتخابات میں شکست سے دو چار ہونا پڑا)۔ ہفتم:اقتدار اور اختیار کی عدم مرکزیت اور مقامی سطح پر بااختیار انتظامی ادارے (ہماری یونین کونسلوں‘ تحصیل کونسلوں اور ضلع کونسلوں کی طرح) جن میں لاکھوں عوام نہ صرف شریک ہوں بلکہ انہیں شرکت کا احساس بھی ہو۔ یہ ہیں وہ سات ستون جن پر مغربی ملکوں کے جمہوری (اور خصوصاً پارلیمانی) نظام کی عمارت استوار کی گئی ہے۔ صدیوں پر پھیلے ہوئے ارتقائی عمل کی بدولت۔ مندرجہ بالا سات ستونوں میں سے ایک بھی ہل جائے تو ساری عمارت متزلزل ہوجاتی ہے۔ اب آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ہمارے ہاں آپ کو ان سات میں سے کوئی ایک ستون بھی نظر آتا ہے؟ یقینا آپ کا جواب نفی ہوگا‘ تو پھر آپ بتائیں کہ جس نظام کو زندہ رکھنے والی آکسیجن ہی ہمارے ہاں موجود نہیں تو ہم پارلیمانی نظام کو مصنوعی تنفس کے ذریعہ کب تک زندہ رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے ‘ مگر یہ بھی سوچیں کہ اتنے سال ایک سعی لاحاصل کتنی بھاری قیمت وصول کرنے کے بعد تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں جا گرے گی۔ بقول اقبالؔ ع
ہو سخن اگر باطل تکرار سے کیا حاصل
مندرجہ بالا الفاظ کے بعد لگایا جانے والا سوالیہ نشان لکھنے میں توتھوڑی سی جگہ لیتا ہے مگر یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جس سے ہم نہ آنکھیں چُرا سکتے ہیں اور نہ شتر مرغ کی طرح اپنی چونچ ریت میں دبا سکتے ہیں۔ ہمارا مستقبل روشن ہے یا تاریک۔ اس کا انحصار اس جواب پر ہے جو ہم اس سوالیہ نشان کو دیتے ہیں۔ ہمارے سیاسی نظام کی وسیع اور گہری خامیوں پر اس سے زیادہ سیاہی صرف نہیں کی جا سکتی۔ اب ہم چلتے ہیں معاشی نظام کی طرف۔ اگر ہم جاگیرداری کو فوراً کم از کم ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے (پارلیمانی نظام میں تو اسے ناممکن سمجھئے گا) تو کیا ہم زرعی اصلاحات بھی نہیں کر سکتے؟ کپاس‘ گنا اور چاول کے کاشت کاروں کو ہم نہ ختم ہونے والے عذاب سے بھی نہیں بچا سکتے‘ تو کیا ہم لاکھوں ایکڑ غیر آباد زرعی زمین لاکھوں بے زمین کسانوں میں بھی تقسیم نہیں کر سکتے؟ اگر ہم یہ نہیں کر سکتے تو پھر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ماسوائے اپنی حالتِ زار کا ماتم کرنے اور ہر سال کشکولِ گدائی اُٹھا کر مشرق و مغرب کا سفر کرنے اور بھیگ مانگ کر اپنے بجٹ کا خسارہ ختم کرنے کے۔ کیا ہمارے لئے لمحہ فکریہ نہیں کہ وہی چین جس نے اپنا نیا سفر پاکستان سے دو سال بعد شروع کیا‘ جہاں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رہتی ہے‘ جہاں کروڑوں افراد کو افیم کے نشے نے ادھ موا کر رکھاتھا‘جو 1947 ء میں معیار زندگی کے ہر پیمانے پرپاکستان سے بہت پیچھے تھا۔ وہ آج سے 30 برس (دوبارہ لکھتا ہوں صرف 30 برس) بعد دنیا کی سب سے بڑی معیشت کس طرح بن جائے گا؟صرف چین کا کیا ذکر انڈونیشیا (جو آزادی سے لے کر اب تک پاکستان کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ اور پسماندہ سمجھا جاتا تھا) 2050ء میں فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی بڑی معیشت بن جائے گا۔ کیا ہمیں اس انقلابی تجویز پر سنجیدگی سے غور نہیں کرنا چاہئے کہ اگر کارخانوں میں مزدوروں کو آدھے مالکانہ حقوق دیئے جائیں تو صنعتی پیداوار کئی گنا بڑھ جائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں