پڑدادا کا جُرم

جرم کا ارتکاب 10 دسمبر 1917ء کو ہوا ۔ ایک سو ایک سال گزر گئے تو بی بی سی میں کام کرنے والے Justia Rowlat نے وسطی لندن میں آکسفورڈ سرکس کے قریب ایک خوبصورت ہال میں ایشیائی ممالک کے مطالعہ کی رائل سوسائٹی کے چھ فروری کو ہونے والے اجلاس میں اپنے پڑدادا کے جرم کااعتراف کیا اور بار بار معافی مانگی۔اس پڑپوتے کا سر شرم سے اتنا نہ جھکا جتنا اس کالم نگار کا‘کیونکہ میرے آبائی وطن میں کسی بھی مجرم کو اعترافِ جرم کی توفیق نہیں ہوتی۔ نہ اسے شرم آتی ہے اور نہ وہ اظہارِ ندامت کے طور پر مستعفی ہوتا ہے۔ پرانے جرائم کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ کالم میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ تازہ جرائم پر ایک نظر ڈالیے گا: کراچی میں نقیب اللہ قتل ‘ چار سال پہلے سانحہ ماڈل ٹائون ‘اس سال جنوری میں سانحہ ساہیوال۔ پُر امن‘ قانون پسند اور ہر لحاظ سے اچھے لوگوں کی اپنی ملک کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کا دل خراش سلسلہ بدستور جاری ہے۔ جوئے خون ہے کہ بہتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے آنسوئوں کی جھڑی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی۔ شہید ہونے والوں کے جسد خاکی شاہراہوں پر رکھ کر کئی کئی گھنٹے ٹریفک نہ روکی جائے تو ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی۔ تفتیش کو معرض اِلتوا اور سرد خانے میں ڈالنے کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جاتی ہے جو پولیس افسروں اور مجرموں کے پیٹی بھائیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر ممکن حیلے بہانے سے تفتیش کو اتنا لٹکایا جاتا ہے کہ ہر سانحہ ہماری پرانی اور تکلیف دہ یادوں کا حصہ بن کر ہمارے ذہن میں دھندلا ہوتے ہوتے آخر غائب ہو جاتا ہے۔ اب رہے تاریک راہوں میں مارے جانے والے بے گناہ افراد تو بقول فیضؔ
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
اب ہم واپس چلتے ہیں بی بی سی کے صحافیJustin کے پڑدادا کی طرف۔ ان کا پورا نام تھاSir Sydney Arthur Taylor Rowlatt۔ وہ انگلستان کی ہائی کورٹ کے ایک ایسے جج تھے جن کی ساری پیشہ ورانہ مہارت Taxation کے قانون تک محدود تھی۔ وہ زندگی میں کبھی ہندوستان نہ گئے تھے۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں کبھی کسی ہندوستانی سے ملنے اور گفتگو کرنے یا ہندوستان پر کوئی کتاب پڑھنے کا بھی موقع ملا ہو۔ پڑپوتا اس کالم نگار کوایک بھی وجہ بتانے میں ناکام رہا کہ ہندوستان میں برٹش سرکار جو کمیشن یا تحقیقاتی کمیٹی بنانا چاہتی تھی اس کی سربراہی کے لئے ان کے پڑدادا کو کیوں نامزد کیا گیا؟ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے نصف میں (پہلی جنگ عظیم کے دوران) ہندوستان کے طول و عرض (خصوصاً بنگال) میں آزادی کی تحریک میں شدت پسندی کے رجحانات اتنا زور پکڑ رہے تھے کہ برٹش اربابِ اقتدارکو تشویش لاحق ہوئی ۔ انہوں نے مناسب سمجھا کہ ہر ممکن باغیانہ سرگرمی کو کچلنے اور ضروری حفاظتی تدابیر کی تجاویز مرتب کرنے کے لئے ایک خصوصی کمیٹی بنائی جائے۔ 1917ء میں پہلی جنگِ عظیم کا خاتمہ صاف نظر آنے لگا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ (جو گورنروں اور گورنر جنرل کو غیر معمولی اختیارات دیتا تھا) بھی جنگ کے خاتمہ پر خود بخود قانوناً دم توڑ جاتا۔ اس کمیٹی کے سارے اجلاس بند کمرے میں ہوئے۔ کسی شخص کو علم نہ ہوا کہ کمیٹی کے سامنے کون سے لوگ پیش ہو رہے ہیں اور کیا گواہی دے رہے ہیں۔ رولٹ کمیٹی کی رپورٹ 15 اپریل 1918 ء کو پیش کردی گئی۔ اس رپورٹ پر مبنی بل مرکزی اسمبلی میں پیش کیا گیا‘ ایک سال بعد (18 مارچ 1919ء میں) منظور کر لیا گیا۔ ایکٹ کے مطابق تین ہائی کورٹ ججوں پر مشتمل ٹربیونل جلد از جلد مقدمات کا فیصلہ سنائے گا‘ جس کے خلاف اپیل کا حق نہ ہوگا۔ جونہی رولٹ ایکٹ کی مذکورہ بالا تفصیلات کا ہندوستانی عوام کو پتہ چلا ‘انہوں نے اس نادر شاہی قانون کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا: نہ اپیل‘ نہ دلیل‘ نہ وکیل۔ بل صرف اس وجہ سے منظور کر لیا گیا کہ اسمبلی میں برٹش راج کے نامزد اراکین کی تعداد منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں سے زیادہ تھی۔ جونہی یہ بل منظور ہو کر ایکٹ کی شکل اختیار کر گیا‘ اسمبلی کے جن تین اراکین نے بطور احتجاج اسمبلی کی رکنیت فی الفور چھوڑ دی وہ تھے: جناب محمد علی جناح ‘پنڈت مدن موہن داس اور جناب مظہر الحق۔ رولٹ ایکٹ کے خلاف عوام کے غصے کی لہر اٹھی اور اس نے سارے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ رائل سوسائٹی کے اجلاس میں تقریر کرنے والے Justin کے دادا کے بھائی Sir John Rowlatt نے 1947ء میں ہندوستان کی آزادی کا وہ بل ڈرافت کیا جسے برطانوی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔
رولٹ قانون ہندوستان کے عوام میں اس لئے بھی نفرت کا نشانہ بنا کہ پہلی جنگ عظیم میں دس لاکھ ہندوستانیوں نے انگریز کی دی ہوئی وردی پہن کر نہ صرف جنگِ عظیم میں حصہ لیا بلکہ سب سے بہادرانہ کارنامے بھی سرانجام دیئے۔ جان کی قربانی دینے والوں کی تعداد 76,000 تھی۔ جنگ ختم ہوئی‘ برطانیہ جیت گیا تو جنگ میں اس کی سب سے زیادہ مدد کرنے والوں کو رولٹ ایکٹ کا انعام ملا۔ اس پر ہندوستانی عوام کا غصہ قابل فہم تھا۔ احتجاجی جلسے تو ملک کے طول و عرض میں ہوئے مگر 13 اپریل1919ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ہونے والا جلسہ صرف ہندوستان کی نہیں بلکہ عالمی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ رسوائے زمانہ جنرل ڈائر نے پچاس فوجیوں (28 گورے تھے اور 25 کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا) کو حکم دیا کہ وہ پندرہ بیس ہزار کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے اندھا دھند فائرنگ کریں۔ غیر مسلح پر امن ہجوم‘ جو سیاسی مظاہرے سے زیادہ بیساکھی کا روایتی تہوار منانے کے لئے اکٹھا ہوا تھا۔ فائرنگ صرف دس منٹ جاری رہی۔ جس میں کل 1650 گولیاں چلائی گئیں۔ فائرنگ تب تھمی جب گولیوں کا سٹاک ختم ہونے کو تھا ۔ ہنٹر (Hunter)(سرکاری اور یقینا غیر معتبر کمیٹی ) کے انگریز اراکین کی رپورٹ کے مطابق 379 افراد ہلاک ہوئے اور زخمیوں کی تعداد اس سے تین گنا زیادہ تھی۔
اس قتل عام کے بعد مہاتما گاندھی نے پنجاب کا رُخ کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ امر تسر کے دو ہر دل عزیز راہنمائوں (ڈاکٹر ستیہ پال اور بیرسٹر ڈاکٹر سیف الدین کچلو) کو شہر بدر کر دیا گیا۔ جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانوی حکام نے اپنے چار چوٹی کے مخالفین (علی برادران‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسرت موہانی) کو گرفتار کر کے قید کی لمبی سزائیں دے دیں ۔ اس لئے وہ 1919ء کے احتجاجی ہنگاموں میں شریک نہ ہو سکے۔ احتجاجاًنوبل انعام یافتہ شاعراور ادیب رابندر ناتھ ٹیگور نے سرکا خطاب واپس کر دیا۔امرتسر میں غضبناک مظاہرین انگریزوں پر حملہ آور ہوئے اور تین کو مار ڈالا۔ ایک انگریز خاتون (جو سماجی کارکن تھی) کی بے حرمتی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ برطانوی حکام اس درجہ مشتعل ہوئے کہ انہوں نے امرتسر کے ان علاقوں میں (جہاں انگریزوں پر حملے ہوئے تھے) شہریوں کو حکم دیا کہ وہ وہاں سے گزرنا چاہیں تو انہیں چلنے کی اجازت نہ ہوگی۔ وہ زمین پر پیٹ کے بل لیٹ کر رینگتے ہوئے سفر کریں گے۔ امرتسر‘لاہور اور گوجرانوالہ میں مارشل لاء نافذ کر کے شہری نظم و نسق فوج کے حوالہ کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ برطانوی فوج میں گوروں کی تعداد کم تھی اور مقامی لوگوں کی زیادہ۔ 
اس قتلِ عام کے صرف 20 برس بعد ہندوستان پر برطانوی راج ختم ہوگیا‘ مگر انگریز حکمرانوں کے جانشینوں کا ریکارڈ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ظلم و تشدد میں اپنے پیشرو انگریز آقائوں سے کئی قدم آگے بڑھ گئے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سیاسی مسائل کو طاقت اور تشدد سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بھارت وادیٔ کشمیر پر اپنا قبضہ ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رکھ سکتا اور نہ اسرائیل فلسطین پر‘ چاہے کتنی دیر ہو کُرد بھی آزادی حاصل کر ہی لیں گے۔مشرقی پاکستان کے جائز مطالبات کو مان لیا جاتا تو بنگلہ دیش کبھی نہ بنتا۔ ایک فوجی آمر حسین شہید سہروردی کو دیوار کے ساتھ نہ لگاتا تو شیخ مجیب پیدا نہ ہوتا۔ کتنا اچھا ہو کہ پاکستان میں اصل اقتدار کے مالک Justinکے پڑدادا کی بے حدغلط اور مہلک سفارشات سے سبق سیکھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں