دور دیس سے آنے والی اچھی خبریں…(پہلی قسط)

لندن میں مقیم (بلکہ پناہ گزین) کالم نگار کو (جسے وکالت نے کولہو کا بیل بنا دیا ہے) جب بھی فرصت ملے تو وہ اچھی موسیقی سنے گا‘ برفباری میں لمبی سیر کرے گا‘ داستان امیر حمزہ یا پنڈت رتن ناتھ سرشار کا لکھا ہوا فسانۂ آزاد یا محمد حسین آزاد کی آبِ حیات ایک بار پھر پڑھے گااور جب وہ یہ تینوں زندگی بخش کام کرلے گا تو پھر زمین کے ساتھ کان لگا کر اوردم سادھ کر غور سے سنے گاکہ دُور دیس سے کون سی خبریںپہاڑوں‘دریائوں‘ سمندروں اور صحرائوں کو عبور کرتی ہوئی آرہی ہیں۔ نہ اخبار کے توسط سے ‘نہ ریڈیو اور نہ ٹیلی ویژن کا احسان؛ اگر یہ کہاوت سچ ہے کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے تو خبریں ضرور سفر کرتی ہیں۔ اچھی خبریں ہوں تو دل کہتا ہے کان نہ ہٹانا‘ سنتے جائو اور خوش ہوتے جائو۔ خبریں بری ہوں تودل اپنے آپ کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے یہ مصرع گنگناتاہے:ع 
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
اور اگر یہ تیر نشانے پر نہ بیٹھے تو پھر ‘بقول اقبال ؎
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کورِ ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سُراغ
کور ذوقی کے سنگین الزام سے بچنے کے لئے اور بوئے گل کا سراغ لگانے کے لئے کالم نگار اٹلانٹک نامی سمندر کو عبورکر کے اور سرزمین امریکہ سے تیزی سے گزرتا ہوا اس کے جنوب میں میکسیکو نامی ریاست جا پہنچا۔ وہاں گیا تو دیکھا کہ جو ڈالی فصلِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ گئی تھی وہ سحاب ِبہار سے پھر ہری ہوگئی ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دلوں میں امید کے چراغ جل اٹھے ہیں۔ افق پر اندھیرا چھٹ گیا اور روشنی پھیل گئی ۔ میکسیکو کے عوام نے جس عوام دوست‘ ترقی پسند اور سوشلسٹ نظریات کے حامی شخص کو اپنا نیا صدر چنا اس کا پورا نام پہلے بھی اس کالم میں لکھا جا چکا ہے‘ مگر غالباًاب آپ وہ نام بھول چکے ہوں گے۔ ہسپانوی زبان میں وہ نام یوں لکھا جاتا ہےAndres Aanvel Lopez Obrando ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اسے Amlo کی تخفیف سے پکارتے ہیں۔ ان دنوں وہ اپنا یہ قول بار بار دہراتا ہے۔ (لگتا ہے کہ وہ اپنے سامعین سے زیادہ خود اپنے آپ کو سناتا ہے) کہ ''اقتدار کا نشہ ذہانت کو مفلوج کر دیتا ہے‘کم عقلوں کو پاگل بنا دیتا ہے‘‘۔ چار مارچ کو Amlo کو اقتدار کے گھوڑے پر سواری کرتے ہوئے 94 دن ہوئے تو اُس نے ایک بڑے جلسہ ٔ عام میں اس قول کو دہرایا تو جم غفیر نے تالیاں بجا کر اپنی پسندیدگی کے پر جوش اظہار کا حق ادا کر دیا۔ اقتدار کے پہلے تین ماہ میں Amlo نے ایک نئے بین الاقوامی ایئر پورٹ کی تعمیر رکوا دی‘ جو قومی سرمایہ کے ضیاع کے باعث سب سے بڑا سفید ہاتھی بن چکا تھا۔انہوں نے تیل کی صنعت میں ارب پتی افراد کی سرمایہ کاری کو حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی بتی کا رنگ سبز سے سرخ کر دیا ۔بڑے پیمانے پر کی جانے والی چوری کے تدارک کیلئے تیل کی پائپ لائنوں سے ترسیل بھی بند کروا دی۔ اپنے پڑوسی ملک وینزویلا میں اپنے ہم خیال سوشلسٹ صدرNicolas Maduro کی (امریکی احکامات کو نہ مانتے ہوئے) بھر پور حمایت کی۔ نا صرف تمام بڑے سرکاری افسروں کی‘ بلکہ خوداپنی تنخواہ میں نمایاں کمی کر دی۔ (ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان کی طرح) سینکڑوں سرکاری گاڑیاں نیلام کر دیں اور خود عام پروازوں سے سفر کرنا شروع کر دیا۔ میکسیکو کے آئین کے مطابق صدر صرف چھ سال کی ایک Term کیلئے چنا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ Amlo کتنا بھی ہر دل عزیز ہو ‘ دوبارہ صدر نہیں بن سکتا؛ البتہ اس کی بائیں بازو کی سیاسی جماعت (Morena) National Regeneration Movementکو اس کی مقبولیت کا بہت فائدہ ہوگا۔
Amlo نے جنوبی میکسیکومیں ریلوے لائن کی نئی پٹری بچھانے کے جس منصوبے کا اعلان کیا ہے وہ بھی بہت پسند کیا گیا ہے‘ کیونکہ اس سے ایک پسماندہ علاقے کو ترقی کا موقع ملے گا۔ حکومت 23 لاکھ طلبا اور طالبات کو وظائف دے کر فنی تربیت دلوائے گی۔ Amlo کی حکومت ٹھیکے داروں کے توسط سے فلاح و بہبود کے کام کروانے کی بجائے عوام کو براہ راست مالی مدد دے گی۔ نا صرف تین لاکھ خواتین کو بچوں کی پرورش کا ملنے والا الائونس دوگنا کر دیا گیا ہے ‘بلکہ عمر رسیدہ افراد کو دی جانے والی پینشن بھی دوگنا کر دی گئی ہے۔ حکومت کی تبدیلی کا (پاکستان کی طرح) سے بڑا اثر یہ پڑا ہے کہ بڑے پیمانے پر کی جانے والی کرپشن بالکل ختم ہو گئی ہے۔ 
قارئین کو شاید یاد ہو کہ میں نے ماضی قریب میں پاکستان کی نئی حکومت کو جلداز جلد ایک وفد میکسیکو بھیجنے اور وہاں سے علم اور عقل سیکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ اگر دیئے جانے والے مشورے میں تین خامیاں ہوں تو وہ ہر گز قبول نہیں کیا جاتا۔ ایک تو یہ کہ وہ اچھا اور صائب ہو۔ دوسرا یہ کہ مشورہ دینے والے کا کوئی ذاتی مفاد نہ ہو (بددیانتی سے دیئے جانے والے مشورے تیزی سے قبول کئے جاتے ہیں) ۔سوم: مشورہ مفت دیا جائے۔ (مفت مشورہ چاہے کتنا اچھا ہو مالِ مفت سمجھ لیا جائے تو سننے والے کے دل سے رحم نکل جاتا ہے)‘ رحم کے ساتھ رہی سہی عقل بھی۔ میکسیکو یاترا کے مشورے میں یہ تینوں خوبیاں بدرجہ اُتم پائی جاتی تھیں۔ اگر میں یہ جانتا ہوں تو حیران کیوں ہوں کہ وہ درخور اعتنا کیوں نہ سمجھا گیا؟ ہم میکسیکو وفد بھیج کر قومی خزانے (خصوصاً زرمبادلہ ) کا نقصان کیوں کریں؟ میرے پاس دو متبادل تجاویز بھی ہیں ‘جن پر عمل کرنے سے کوئی مالی گزند نہ پہنچے گی۔ پہلی یہ کہ ہم میکسیکو میں پاکستانی سفیر سے رابطہ قائم کر کے اس سے مفصل رپورٹ مانگیں۔ اگر ہم اتنی زحمت بھی نہیں کر سکتے تو اتنا کام تو یقینا کر سکتے ہیں کہ ڈاکٹر شیریں مزاری اور جناب شفقت محمود کو اسلام آباد میں میکسیکو کے سفیر کے پاس بھیجیں کہ وہ (انگریزی محاورہ کے مطابق) گھوڑے کی باتیں گھوڑے کے منہ سے سن لیں اور پھر بنی گالہ جا کر اپنے قائد کے گوش گزار کر دیں اور برائے کرم ہمیں یہ خوش خبری سنانا نہ بھولیں تاکہ کالم نگار اور اس کے قارئین گڑ گڑا کر رب العزت سے دعا مانگنا شروع کر دیں کہ ایک مفت مشورہ کی پذیرائی کے امکانات روشن ہو جائیں۔
کالم نگار نے وسطی امریکہ سے سفر کرنے کا منصوبہ بنایا تو یورپ جاتے ہوئے وسط ایشیا میں ایک ایسے ملک میں سستانے کیلئے رکا‘ جہاں وہ سات سال پہلے اپنی بیوی کے ساتھ سیر کیلئے گیا تھا۔ اس کا نام ہے ازبکستان۔ وسط ایشیا کا رقبے کے اعتبار سے چھوٹا ‘مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک۔ تاشقند‘بخارا اور سمر قند میں دو دن گزارنے کے بعد یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم نے وہاں عمر گزاری ہے۔ بخارا‘نا صرف پرانی شاہراہ ریشم پر ایک اہم پڑائو تھا‘ بلکہ دنیا بھر کے مسلمان زائرین بڑے ذوق و شوق سے وہاں دو مقدس مزاروں پر حاضری دینے اور دعا مانگنے جاتے ہیں۔ احادیث کو مرتب کرنے والے امام بخاریؒ اور دوسرے جناب حضرت نقشبندیؒ (اپنے وقت کے اہم ترین صوفی سلسلے کے بانی اور سربراہ) کے مزاروں کی زیارت کا شرف کالم نگاراور اس کی رفیقۂ حیات کو بھی حاصل ہوا۔ جب برطانیہ واپس آئے تو ہمارے ازبک دوست ہمارے دورہ ٔازبکستان کی خوشگوار تفصیلات سن کر خوش ہوئے اور اپنی ثقافتی روایت کے مطابق ہمیں مخاطب کر کے بار بار کہتے تھے ''زیارت قبول‘‘۔ ہم عمرہ اور پھر حج کی سعادت حاصل کر کے گھر واپس آئے تو ایک بار پھر ان الفاظ کی ٹھنڈی پھوار اور موسیقی ہمارے کانوں کو ناقابل بیان فرحت پہنچاتی رہی۔ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کا تعلق فرغانہ وادی سے تھا جو اب ازبکستان کا حصہ ہے۔ افسوس کہ وقت کی کمی کی وجہ سے ہم وہاں نہ جا سکے۔ سمر قند گئے تو شہر کے مرکزی چوک میں سب سے شاندار عمارت امیر تیمور کے مزار کی تھی۔ ہم جانتے تھے کہ موصوف نے ہندوستان پر حملہ کر کے یہاں کتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت کی۔ ہم نے گوارا نہ کیا کہ اُس عمارت کے اندر جا کر اپنا دل دکھائیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں