وطن ِعزیز میں بارہ دن!

25 سال پہلے جب کالم نگار (برطانوی کالجوں میں دس سال پڑھانے اور سات سال قانون پڑھنے کے بعد)بیرسٹر بنا تو اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ ہر سال کم از کم تین بار برطانیہ سے پاکستان جانے لگا۔ اسی حساب سے رواں سال مارچ کے آخری بارہ دن وطن عزیز میں گزرے۔ ایک سہانے خواب کی طرح جو سفر کراچی سے شروع ہوا وہ لاہور‘ سرگودھا‘جوہرآباد اور اسلام آباد سے ہوتا ہوا اختتام کو پہنچا۔ خیر خیریت سے اور خوش اسلوبی سے۔ لاہور میں میرے رفقائے کار (شہزاد اشرف اور جمشید اکبر) کی دن رات محنت کی بدولت ‘ کراچی میں میں نے تین جامعات میں طلبا و طالبات کی بڑی تعداد کو برطانوی آئین اور قانون کے بارے میں پڑھایا۔ کراچی ہائی کورٹ بار اور ڈسٹرکٹ کورٹ بار میں سینکڑوں وکلا سے ملاقات ہوئی۔لاہور کے ایک لا کالج کے علاوہ سرگودھا یونیورسٹی اور جوہر آباد کے گورنمنٹ کالج میں بھی لیکچر دیئے۔اسلام آباد میں ڈاکٹر عابد سلہری اور کنور محمد دلشاد کے تحقیقی اداروں کے زیر اہتمام دو مذاکروں میں شرکت کی۔ اس بھاگ دوڑ کے درمیان جو وقت ملا وہ لاہور میں اردو اور پنجابی کی کتابیں اور اکبری منڈی سے ڈرائی فروٹ خریدنے اور دوستوں سے تبادلۂ خیال کرنے اور اُن کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے میں گزرا۔چھ جامعات میں پڑھانے اوراحباب سے ملاقات کی خوشی اپنی جگہ‘ مگر میرا اخلاقی فرض تھا کہ میں پانچ قبرستانوں میں جا کر اپنے رشتہ داروں ‘بزرگوں اور جدا ہو جانے والے دوستوں کی مغفرت کی دعامانگوں۔ ان میں تین قبرستان تو لاہور میں تھے‘ گلبرگ کے قریب مسیحی قبرستان جہاں Major Langlands دفن کئے گئے‘ میانی صاحب جہاں میرے سُسرالی رشتہ دار ابدی نیند سو رہے ہیں‘ لاہور کے مضافاتی گائوں دلمی جہاں رانا اعجاز اپنے والد صاحب کے پہلو میں مدفون ہیں‘ سرگودھا کے چک نمبر47 شمالی میں میرے والد مرحوم کے بھائی اور بہنیں اور اُن کی اولاد اور جوہر آباد‘ جہاں میری پیاری ماں اور چھوٹا بھائی (جاوید) آسودہ خاک ہیں۔
وطن عزیز میں گزارے ہوئے کل 288 گھنٹوں کے دوران کالم نگار کو یونیورسٹی اساتذہ‘ وکلا اور دانشوروں سے لے کر کسانوں‘ مزدوروں اور ریڑھی لگا کر روزی کمانے والوں سے ان کا حال احوال اور حالات حاضرہ پر اُن کا تبصرہ اور تجزیہ سننے کا موقع ملا۔ میں نے لاہور کی مال روڈ کے چیئرنگ کراس پر لیڈی ہیلتھ وزٹرز کا دھرنا اپنی آنکھوں سے دیکھا تو پتہ چلا کہ محنت کش طبقے کی خواتین میں بھی اب اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کا شعور پیدا ہوچکا ہے۔ افسوس کہ میں کراچی ان دنوں نہ تھاجب وہاں اساتذہ پرُ امن مظاہرہ کر رہے تھے اور پولیس ان کو تشدد کا نشانہ بنا رہی تھی۔ غالباً اس قسم کی صورت حال شیخ سعدی ؒکے زمانے میں بھی پیدا ہوئی ہوگی‘ جسے دیکھ کر اس عقلمند درویش نے برفباری کا منظر دیکھنے کے بعد لکھاکہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ روڑے اور پتھر (برفباری کی وجہ سے) توجکڑے ہوئے ہیں اور کتے آزاد پھر رہے ہیں اورلوگوں کو کاٹنے کے لئے دوڑ رہے ہیں مگر بے چارے لوگ اپنے دفاع کے لئے روڑے استعمال نہیں کر سکتے۔ شیخ سعدیؒ کی مذکورہ بالا کہاوت ہمارے فیض صاحب کو اتنی پسند آئی کہ ا نہوں نے بھی اسے بصد خوشی استعمال کیا ۔ اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنانے والی یہ وہی کراچی پولیس ہے جس کے ایک سابقہ درخشندہ ستارے کا نام رائو انوار ہے۔ رائو انوار ہو یا ماڈل لاہور سے لے کر ساہیوال کے سانحوں کے ذمہ دار‘وہ لا قانونیت کی صدیوں پرانی دیگ میں پکنے والے چند چاول ہیں۔ اگر رائے عامہ اور اسے باخبرکرنے والے میڈیا کا تھوڑا بہت خوف نہ ہو تو ہمارے حکمران اتنے نادان نہیں کہ چند کلیوں پہ قناعت کر جاتے۔ اُن کی کتاب میں گلشن میں تنگیٔ داماں کا جو مؤثر علاج لکھا ہوا ہے وہ یک سطری ہے کہ اختلاف کرنے والوں یا حق و انصاف کی آواز بلند کرنے والوں یا عوامی حقوق کی خاطر لڑنے والوں یا اُن کی حمایت کرنے والوں کا ایک ہی علاج ہے گاجر یا ڈنڈا (انگریزی محاورہ کے مطابق Carrot and Stick )۔ پہلی (اور اکثر کامیاب) کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ شر پسندوں کو خرید لیا جائے۔ اگر وہ ناکام ہو جائے تو پھر عتاب اور تشدد۔مگر بہادر‘ بااصول اور باضمیر لوگ نہ جھکے نہ بکے اور مزاحمت کی علامت بن کر تاریخ پر ایسا نقش ثبت کر گئے جسے نہ پنجاب کی مٹی اور نہ بلوچستان اور سندھ کی ریت ہماری نظروں سے اوجھل کر سکتی ہے۔
کتنی بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں جس دانشور طبقے نے پارلیمانی نظام کو اپنی آنکھ کا تارا بنا رکھا ہے وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ نظام حزب اختلاف کے تعاون اور اشتراک کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا۔ برطانیہ کی مثال لیجئے کہ اپریل کے پہلے ہفتے میں برطانوی وزیراعظم کی دعوت پر قائد حزب اختلاف (جیریمی کاربین) وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ (10 Downing Street ) گئے اور وہاں کئی گھنٹے رہے اور مفید مشورے دیئے اور تعمیری تنقید کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے ہر ممکن تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔ ادھر وطن عزیز میں منظر نامہ کیا ہے؟ قائد حزب اختلاف زیر تفتیش ہیں‘ غالباً ضمانت پر رہا ہیں اور سرکار سبز روشنی نہ دکھائے تو بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ ان کے بڑے بھائی اور اصل لیڈر (اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ) جیل میں رہ چکے ہیں‘ جنہیں آج کل طبی بنیادوں پر مختصر سی ضمانت پر رہائی ملی ہے۔ اب رہ گئی تیسری بڑی سیاسی جماعت تو میرے قارئین مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور جیل کے دروازہ میں کتنا تھوڑا فاصلہ رہ گیا ہے۔ہمارے ہاں جمہوریت کی گاڑی جن چار پہیوں پر چل سکتی ہے (نہ چل رہی ہے اور نہ چل سکتی ہے) مندرجہ بالا سطور میں ان تین کا ٹوٹ پھوٹ کا بری طرح شکار ہوجانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر داد دیجئے ہمارے دانشوروں کی بصیرت اور بصارت کی کہ وہ اب بھی پرُ امید ہیں کہ وہ مبارک دن آنے والا ہے جب پارلیمانی نظام کی بری طرح ناکام ہوجانے والی گاڑی کے چاروں پہیے کسی معجزے کی صورت اتنے کارآمد اور فعال بن جائیں گے کہ گاڑی نہ صرف رواں دواں ہو جائے گی بلکہ فراٹے بھرتی ہوئی عوامی فلاح و بہبود ( جو مملکت کا بنیادی مقصد اور واحد جواز ہے) کی منزل کی طرف اتنی تیزی اور خوش اسلوبی سے بڑھے گی کہ پارلیمانی جمہوریت کے مائی باپ انگریز بھی دنگ رہ جائیں گے۔ 
ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے میرا فرض ہے کہ میں لگی لپٹی رکھے بغیر اس کالم میں وہ لکھ دوں جو میں دیانتداری سے سچ سمجھتا ہوں۔ کالم نگار کو نہ انعام چاہئے اور نہ ستائش اور نہ مذمت کی پرواہ ہے۔ آپ مجھ سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف‘ دونوں صورتوں میں مجھے اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ مختصر ترین الفاظ میں حاصلِ کلام سات نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ 1:میرے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے چونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ بے روزگاری‘ معاشی ابتری‘ افراطِ زر اور بنیادی ضرورتوں(تعلیم‘ علاج‘ امن اور انصاف) کے فقدان نے ایک سنگین بحران پیدا کر دیا ہے۔ 2: بجلی‘ گیس اور پٹرول کو مہنگا کرنے سے یہ معاشی بحران ہر گز حل نہ ہوگا بلکہ عوامی اضطراب کئی گنا بڑھ جائے گا۔ 3: جب تک ہم ایک روپیہ بھی قرض لینا اور خسارے کا بجٹ بنانابند نہیں کرتے ہم یومِ آزادی منانے کا مذاق کرنا فی الحال ملتوی اور معطل کر دیں۔ 4: ہم اربوں روپوں کی غیر ضروری درآمدات پر زر مبادلہ کا ایک ڈالر بھی خرچ نہ کریں۔ ہمیں چاہے کتنی ہی تنگی برداشت کرنی پڑے‘ مصنوعی اور جھوٹے معیارِ زندگی کو فی الفورترک کر دیں۔ 5: سرکاری اخراجات کو بھی نصف کر دیں۔ 6: اگلے دس سال کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کے دیانت دار اور عوام دوست راہنمائوں پر مشتمل قومی حکومت کو اپنی قیادت سونپیں۔7: انگریز کے بنائے ہوئے چاروں صوبوں کو جلد از جلد ختم کر کے سارا اقتدار خود مختار ضلعی حکومتوں کو منتقل کر دیں۔ یاد رکھیں کہ جب جہاز ڈوب رہا ہو تو اس کے عرشے پر کرسیوں کی ترتیب پر بحث کرنا خودکشی کے مترادف ہوتاہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں