دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی

اقبال کے تیسرے مجموعۂ کلام (ضرب کلیم) کی نظم نمبر57 کے چوتھے شعر کا پہلا مصرع آج کے کالم کا عنوان بنا۔ اقبال اس شعر کے دوسرے مصرعے میں پیرِ حرم (دانشوروں یعنی سوچنے سمجھنے والے لوگوں) سے پر زور اور دل کی گہرائیوں سے درد مندانہ اپیل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ رسمِ خانقاہی(فرسودہ اور بوسیدہ روایات) چھوڑے گا تو اگلا مرحلہ طے ہوگااور وہ مرحلہ ہے مثبت قدم اٹھانے کا ع
دارُو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظر ی کا
اقبال اس پر بس نہیں کرتے۔ پیر حرم سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
تو اُن کو سکھا خارا شگافی کے طریقے
مغرب نے سکھایا انہیں فن شیشہ گری کا
شیشہ گری سے مراد اُس طرح کی نقالی کرنا ہے جو ہم بندروں سے منسوب کرتے ہیں۔ کالم نگار کے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے وہ اپنی اس بے پناہ حیرت اور مایوسی کو بیان کر سکے جو اُسے پاکستان کا ذہنی‘ ثقافتی‘ سیاسی اور معاشی منظر نامہ دیکھ کر ہوتی ہے۔ 71 سال گزر گئے اور ہم ابھی تک دورِ غلامی کے بنائے ہوئے نظام کو مقدس سمجھ کر لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ اقبال کے دل میں مغلوں اور اُن کے پیش رو مسلمان حکمرانوں کے لئے نرم گوشہ نہ ہوتا تو وہ دورِ غلامی کا دورانیہ دو نہیں بلکہ سات صدیاں لکھتے۔ سارے کے سارے جاگیردارانہ نظام میں نہ آزادی تھی اور نہ مساوات۔ کالم نگار نے ایک آزاد‘ جمہوری اور فلاحی مملکت میں نصف صدی گزاری تو اسے پتہ چلا کہ آزادی اور مساوات کاکیا مطلب ہوتا ہے۔ ہم ہر سال 14 اگست کو یومِ آزادی مناتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ ہم کسی لحاظ سے بھی آزاد ہیں۔ حکمرانوں کی جلد کا رنگ بدل جانے کو آزادی نہیں کہتے۔ دورِ غلامی کا مطلب گورے رنگ کے حکمرانوں کا سیاسی تسلط نہ تھا بلکہ وہ نو آبادیاتی نظام تھا جس میں سرکاری افسروں کی ایک قلیل تعداد کروڑوں عوام پر حکومت کرتی تھی اور طرزِ حکومت وہ تھا جوغلام عوام کو مستقل طور پر تابعدار ‘ مطیع اور خدمت گزار بنائے رکھنے کے لئے ضروری تھا۔ حکومت سرکاری کہلاتی تھی اور افسران صاحب بہادر۔ برطانوی راج میں ہندوستان پر حکومت کرنے والے انگریز افسروں کی بڑی تعداد پنشن لے کر برطانیہ واپس چلی گئی اور ایک چھوٹی تعداد نے پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کی شب و روز دل و جان سے خدمت کی اور پہاڑ جتنی بڑی مشکلات پر اپنی بہترین حکمت عملی‘ محنت اور مثالی دیانت سے قابو پالیا۔ پچاس کی دہائی کے نصف تک آخری انگریز بھی اپنے آبائی وطن لوٹ گیا۔ ان کے وہ مقامی اور دیسی ساتھی ساٹھ کی دہائی کے آخرتک ریٹائر ہو گئے۔ 
یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ چار سرکاری افسر ملک غلام محمد‘ محمد علی بوگرا‘ جنرل سکندر مرزا اور جنرل ایوب خاں‘ I.C.S نہ ہونے کے باوجود محلاتی سازش کی بدولت بہت سی سیڑھیاں پھلانگ کر وزیراعظم یا صدر مملکت بن گئے۔ آپ انہیں اس پر جتنا بھی برا بھلا کہہ لیں مگر دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم یہ بھی مان لیں کہ وہ چاروں کے چاروں پیشہ ورانہ مہارت اور ذاتی دیانت کے معیار پر پورا اترے اور وہ ہر لحاظ سے اپنے جمہوری جانشینوںسے ہزار درجہ بہتر تھے۔ پچھلے 71 سالوں میں ہمارے ہاں ایک گمراہ کن بیانیہ کافی مقبول رہا کہ نظامِ حکومت چاہے کوئی بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران نیک اور دیانت دار ہو۔ جنرل ضیا الحق سے زیادہ نیک اور عبادت گزار شخص کا صدرِ مملکت بن جانا ممکن نہیں اور اب جناب عمران خان سے زیادہ دیانت دار شخص کا وزیراعظم کے عہدے پر فائض ہونا بھی ممکنات میں شامل نہیں‘ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ نہ جنرل ضیاالحق کی ذاتی پرہیزگاری اور پارسائی اور نہ اب جناب عمران خان کی ذاتی دیانت داری اور ایمان داری ہمارے کسی کام آئی۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہر آنے والا دن ہمارے بحران کو مزید سنگین بناتا ہے۔ کروڑوں افتادگانِ خاک جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرنے کے بعد یہی سوچتے ہوئے سو جاتے ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ نہ روزگار اور نہ علاج اور نہ تعلیم کی سہولت۔ نہ آپ اپنے گھر میں محفوظ ہیں اور نہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ۔
اگست 1947 ء میں جب ہم حصولِ آزادی کی سو سالہ جدوجہد میں کامیاب ہوئے تو ہمیں انگریز کو دیس نکالا نہیں دینا چاہئے تھا بلکہ اس کے بنائے ہوئے عوام دشمن نظام سے نجات حاصل کرنا چاہئے تھی۔لیکن ہمیں جو کرنا چاہئے تھا ہم نے وہ نہ کیا۔ برطانوی راج کی بساط لپیٹ دی‘ انگریزوں کو اُن کے گھر بھیج دیا ‘مگر ہم نے ان کی زبان کو اپنی درسی اور سرکاری زبان بنا لیا (1973 ء کے آئین کے مطابق انگریزی زبان کو بدستور سرکاری درجہ دیئے جانے کے لئے صرف 15 سال کی مہلت دی گئی تھی)۔ ہم نے انگریز کے بنائے ہوئے قانون پر نمائشی طور پر پاکستان کے نام کا ٹھپہ لگا کر اپنا قانون بنائے رکھا (مثلاً1861 ء میں بنایا ہوا پولیس ایکٹ)۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم نے 71 سالوں میں جو تین آئین بنائے وہ سب کے سب 1935ء ایکٹ کا چربہ تھے؟ہم نے انگریز کے متعارف کردہ پارلیمانی نظام کے آگے کوئی سوالیہ نشان لگانے کی جسارت نہ کی۔ اگر جنرل پرویز مشرف کے دست راست جنرل نقوی جرأت کا مظاہرہ نہ کرتے تو یہ ممکن نہ تھا کہ ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کر کے ایک عوامی نمائندہ کو ضلعی ناظم بنایا جاتا۔ کالم نگار نے برطانیہ میں قانون کی تعلیم دو قسطوں میں مکمل کی۔ پہلے 70 ء کی دہائی کے آخری نصف میں اور پھر 90 ء کی دہائی کے شروع میں۔ اگر میں آج (نئے قوانین کا مطالعہ کئے بغیر) قانون کے12 پرچوں کا دوبارہ امتحان دوں تو یقینا بری طرح فیل ہوجائوں۔ اس ناکامی کی وجہ یہ ہوگی کہ ان سالوں میں برطانوی قانون اتنا بدل گیا ہے‘اتنے مقدمات میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے قانون کی اتنی نئی تشریحات کی ہیں کہ ان پر عبور ہونے کے بغیر امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ بقول اقبالؔ یہی نشانی ہے زندہ قوموں کی کہ اُن کی تقدیر صبح و شام بدلتی ہے۔ ایک ہم ہیں کہ صدیوں سے روایتی گل محمد بنے ہوئے ہیں۔
کالم کی محدود جگہ مجھے مقالہ لکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اختصار سے کام لیتے ہوئے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کرتا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ میرے قارئین انہیں توجہ سے پڑھیں گے‘ ان پر غور کریں گے اور اگر میرے مؤقف سے متفق ہوئے تو اس کی تائید میں آواز بلند کریں گے۔ (1):ہم سیاسی اور آئینی اصلاحات کے معاملے میں ڈاکٹر عطا الرحمن اور معاشی معاملات میں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے دیئے گئے مشوروں پر عمل کریں۔ (2): ہم خسارے میں جانے والے سارے قومی اداروں (غالباً کل تعداد 196 ہے) کو نہ بدستور سرکاری تحویل میں رکھیں (کل سالانہ خسارہ ایک ہزار ارب روپے سے بھی زیادہ ہے) اور نہ نجکاری کی متروک اور عوام دشمن پالیسی کو اپناتے ہوئے انہیں بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھ اونے پونے دام فروخت کریں بلکہ ہر ادارے میں کام کرنے والے کارکنوں کو اس کا مالک بنا دیں اور حکومت قابل اور دیانتدار انتظامیہ کو نامزد کرنے کا حق اپنے پاس رکھے۔ (3): موجودہ چاروں صوبے انگریز نے اپنے مفاداور سہولت کے پیش نظر بنائے تھے۔ اب دورِ غلامی کی یادگار چاروں صوبوں کا وجود ہمارے ہاتھوں کی ہتھکڑی اور پائوں کی بیڑی بن گیا ہے۔ ہم ضلعی حکومتیں قائم کریں۔ ہر ضلع کو ہر لحاظ سے خود مختار بنا دیں۔ ضلعی حکومت ٹیکس لگانے اور ٹیکس وصول کرنے سے لے کر اپنی پولیس فورس خود بنائے اور خود اس کی نگرانی کرے۔ اگر ہماری بے ہمتی اور بزدلی ہمیں ضلعی حکومتیں بنانے کی اجازت نہ دے (جس کا زیادہ امکان ہے) تو ہم ہر ڈویژن کو (بطور ایک انتظامی اکائی کے) صوبائی درجہ دے دیں جس کی اپنی ہائی کورٹ ہو۔ (4): گورنروں کے عہدے ختم کئے جائیں۔ وفاقی سطح پر پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام اپنایا جائے اور تمام انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوں۔ (5):دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح نیشنل سروس (فوجی تربیت)ہر بالغ مرد اور عورت کے لئے لازمی بنائی جائے۔ لیکن یہ کالم لکھتے ہوئے ذہن میں خطرے کی گھنٹی مسلسل بجتی رہی کہ جس قوم کا صدیوں کی غلامی نے دل توڑ دیا ہو اسے افکارِ تازہ تو کیونکر قابل قبول ہوں گے؟کیا آپ کے پاس اس کا جواب ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں