چیری کے پھول

1960ء کی بات ہے جب میں نے تھل کے لق و دق صحرا میں ایک نخلستان (جوہر آباد) میں اپنے والدین کے گھر میں ایک سال گزارا۔ ایم اے کا امتحان دینے کے بعد نتیجے کا انتظار موسم گرما کے تین ماہ پر محیط تھا۔ خدا جنت نصیب کرے جناب ظفر الاحسن مرحوم کو جنہوں نے نہ صرف تھل ڈیویلپمنٹ اتھارتی کے خواب کو عملی جامہ پہنایا‘ صحرائوں کو آباد کیا اورتین نئے شہر بسائے ان میں ایک جوہر آباد تھا۔ انہوں نے جوہر آباد کے مرکزی بازار میں جاپان سے وہ خوبصورت درخت منگوا کر لگوائے جن پر سرخ پھول لگتے تھے۔ باغ جناح لاہور کی طرز کا اوپن ایئر تھیٹر بنوایا (نہ معلوم ان 65 سال میں اس کی قسمت کبھی جاگی یا نہیں؟) اور ایک اچھی لائبریری بھی۔ میں نے اس لائبریری سے بڑا استفادہ کیا اور اسے بنانے والوں کے لئے ہر کتاب لیتے وقت دعائے خیر کی۔ جو کتابیں پڑھیں اُن میں سے تین آج بھی یاد ہیں۔ پہلی روسی ادب نگارChekhovکے افسانے اور اُن میں بالخصوص The Cherry Orchard ‘قرۃ العین حیدر کا آگ کا دریا اور انہی کا ترجمہ کیا ہواغیر معروف امریکی ناول نگار William Saroyan کا کمال کا ناول The Human Comedy ۔ سکول کے زمانے میں حفیظ جالندھری سے لے کر اقبالؔ کے کلام کے مجموعوں کے علاوہ منشی پریم چند کا ہر افسانہ پڑھا۔ بار بار پڑھااور وقت نکال کر اب بھی پڑھتا ہوں تاکہ انسان دوستی کے جذبے کو ترو تازہ رکھ سکوں۔مندرجہ بالا کتابوں نے میری جو ذہنی تربیت کی وہی میرا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔
میرے قارئین ذرا سوچیں کہ کہاں تھل کا ریگستان اور کہاں چیری کے پھولوں کا چمن جو چیخوف کے افسانے کی بدولت میرے خواب و خیال میں یوں اُگ پڑا کہ میں آنکھیں بند کرتا تھا تو چشم ِتصور مجھے چیری کے پھولوں سے بھرے ہوئے باغ میں جا بٹھاتی تھی۔ کہاں ایک صحرائی قصبے میں دن کو خواب دیکھنے والا (محاورتاً حقہ نوش) پینڈو نوجوان اور کہاں ہزاروں میل دور سرد ممالک میں اُگنے والے چیری کے درخت۔ مناسب ہوگا کہ اس مرحلے پر آکسفورڈ کی شائع کردہ انگریزی اردو لغات سے رجوع کیا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ کیا کہتی ہے۔یہ راز بھی کھلا کہ چیری خاندان دو بہنوں پر مشتمل ہے۔ دونوں کے نام لاطینی زبان میں ہیں اس لئے پڑھنے اور بولنے میں مشکل پیش آتی ہے۔Prunus laurocerasusاورPrunus Cerasi Fers ۔
کالم نگار 52 برس پہلے برطانیہ پڑھانے آیا تو گھر سے درسگاہ تک کا آدھ گھنٹے کا سفر دس سال پیدل چل کر طے کرتا رہا۔ خوش قسمتی سے میں سڑک کے کنارے بنے ہوئے فٹ پاتھ پر چلتا تھا اور سوچتا جاتا تھا کہ کہاں سے زندگی میری کہاں پہ آگئی ۔ فٹ پاتھ (مارچ ‘اپریل کے دو مہینوں میں) کے دونوں طرف اُگے ہوئے چیری کے درختوں پر سفید اور گلابی پھولوں سے بھری ہوئی ٹہنیوں کو رُک رُک کر دیکھتا جاتا تھا۔ 57‘58 سالوں کی خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد جی کڑا کرکے مان لینا چاہئے کہ میرے اور میری وفا شعار اور خدمت گزار بیوی کے درمیان ذہنی طور پر بعد المشرقین ہے۔ ماسوائے سات چیزوں کے ہمارے درمیان کوئی بھی نکتہ ٔاتفاق نہیں اور وہ ہیں: اقبالؔ اور قائداعظم کی عظمت کا اعتراف‘ منشی پریم چند کے افسانوں کی عوام دوستی‘ بزرگانِ دین سے گہری عقیدت‘ Rat Race سے دُور رہنے کا مصمم ارادہ‘ عمر بھر صبر اور شکر کا رویہ‘ اپنے چھ کے چھ بچوں کی دیسی تربیت (مادری زبان پنجابی‘ قمیض شلوار‘دال ساگ) اور آخر میں چیری کے پھول دار درختوں سے محبت۔
20 سال پہلے اس محبت نے اتنا جوش مارا کہ ہم دونوں وسط مارچ میں چین سے ہوتے ہوئے جاپان جا پہنچے تاکہ وہاں ایک خوبصورت وادی میں میل ہا میل تک اُگے چیری کے درختوں پر پھولوں کی بہار دیکھ سکیں۔جاپان درگاہوں اور خانقاہوں سے اتنا ہی بھرا ہوا ہے جتنا پاکستان۔ سب سے تاریخی اور قدیم اور اہم خانقاہ کا نام ہے Yasukuni ۔ 21 مارچ کو پو پھوٹی تو جاپان کے ایک ماہر ِنباتات نے اس خانقاہ کے وسیع و عریض (چیری کے درختوں سے بھرپور) باغ میں چیری کے سرخ و سفید شگوفوں کو دیکھ کر چیری کے پھول دیکھنے کے مہینہ کے آغاز کا سرکاری اعلان کر دیا۔ اس باغ میں کھلنے والے چیری کے پھولوں کو Somei Yashino کہتے ہیں۔ اہل جاپان کا راسخ عقیدہ ہے کہ وہ بہادر سپاہی جو مادرِ وطن کے لیے اپنی جان کی قربانی دیتے ہیں ان کی روحیں چیری کے شگوفے بن کر اس باغ میں دوبارہ جنم لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا باغ کو مقدس درجہ حاصل ہے اور خانقاہ کی زیارت کرنے والے خاموشی سے باغ کی سیر کرتے ہوئے پھولوں کے آگے سر جھکا کر اور پرستش کے انداز میں ہاتھ باندھ کر چلتے ہیں۔ 
جاپان کی ثقافت میں چیری کے پھولدار درختوں کی دلفریب تاریخ اور منفر دمقام کے بارے میںThe Sakura Obsessionکے نام سے سے Naoko ABE نے اتنی کمال کی کتاب لکھی کہ اسے عالمی شہرت رکھنے والےKnopf نے شائع کیا اور اس ہفتہ یہ کتاب برطانیہ میں Cherry Blossom کے نام سے Chatto & Windus نے شائع کی‘ مگر اس فرق کے ساتھ کہ کتاب کے عنوان میں ایک سطر کا اضافہ (انگریزوں کی روایتی خود پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے) کر دیا اور وہ یہ ہے ''اس انگریز کی داستان جس نے جاپان کے پھولوں کو بچا لیا‘‘۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ چیری کے درختوں کی سینکڑوں قسمیں ہیں۔ مثال کے طور پر جاپان کے پہاڑوں میں اُگنے والے بلند و بالا چیری کے درختوں کا نام Yamazakuraہے۔ 1860ء میں اہلِ جاپان نے فیصلہ کیا کہ وہ چار سو سال (جب جاپان پر Shogun جنگی سرداروں کی حکمرانی تھی) تک بیرونی دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی کو ترک کر دیں اور غیر ممالک سے میل جول بڑھائیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ1860 ء میں چیری کے درخت میں پہلا غیر ملکی پیوند لگایا گیا اور اسے نئے جاپان کا قومی نشان تسلیم کر لیا گیا۔ 158 سال گزر گئے مگر چیری کے درخت کے لئے اہلِ جاپان کے دلوں میں عزت ‘ عقیدت اور احترام کا جذبہ رتی بھر کم نہیں ہوا۔
اب ہم Wigram نامی اُس انگریز کے کارنامے پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے کے بعد گھر لوٹا تو اُس نے نہ صرف اپنے گھر کے باغ میں چیری کے درخت لگا دیئے‘ بلکہ اس نے کئی قسم کے بیج جاپان بھیجے تاکہ وہاں بھی مضبوط اور توانا قسموں کے چیری کے درختوں کی نئی فصل اُگائی جاسکے۔ اس کارنامے نے Wigram کو جاپان میں ہیرو بنا دیا اور سدا بہار شہرت بھی دلوائی۔ اہل ِجاپان ہر سال چیر ی کے پھولوں کادلکش نظارہ دیکھنے کے لئے باغوں میں پکنک پارٹی کا اہتمام کرتے ہیں جسے جاپانی زبان میں Hanamiکہتے ہیں۔ ایسی پکنک پارٹی کتنی دلچسپ اور دلفریب ہوتی ہوگی آپ اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایں کہ دوسرے ممالک (خصوصاًچین) سے ہزاروں سیاح صرف اس پارٹی میں شرکت سے لطف اندوز ہونے کے لئے جاتے ہیں۔ میرے قارئین دعا مانگیں کہ آنے والے برسوں میں کالم نگار (اپنی بیوی کے ساتھ) اس طرح کی ایک پارٹی میں ضرور شریک ہو جو اس کی درازیٔ عمر کا باعث ہوگی۔میں جہاں بھی جاتا ہوں وہاں درختوں (خصوصاً چیری کی طرح پھولدار درختوں) کو رشک بھری نظروں سے دیکھتاہوں۔ 
ایک زمانے میں ہمارا ملک بھی جنگلات سے مالا مال تھا۔ ہر گائوں میں شیشم پنجابی میں ٹاہلی اور بیریوں کے درخت ہوتے تھے۔ جن میں چڑیاں چہچہاتی تھیں۔ اب نہ بیریاں ہیں اور نہ چڑیاں اور نہ اُن کی من موہنی آواز سن کر خوش ہونے والے انتظار حسین۔ مغربی ممالک کی طرح مشرقی ممالک (چین‘جاپان‘ کوریا‘ سنگا پور اور اُس کے پڑوسی) نے یہی ثابت کر دیا ہے کہ انہیں بھی تصویر بنانی آتی ہے اور ادھر ہم ہیں کہ سماجی انتشار‘ معاشی ابتری‘ ماحولیاتی تباہی اور سیاسی عدم استحکام کی بدولت اپنی اچھی بھلی صورت کو بگاڑ رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں