مغرب میں مسلمان خواتین

اس سے پہلے کہ آپ کا تعارف مندرجہ بالا موضوع پر چھپنے والی دو نئی کتابوں سے کرایا جائے میں آپ کو آئرش ادیبہNicole Flattery کے نئے ناول کی پہلی دو سطور پڑھوانا چاہتا ہوں۔ اُس کے ناول کا نام ہے؛ Show Them a Good Time۔اس نے لکھا ''عرصہ ہوا کہ سماج میں عورتیں ایک مسئلہ بن گئی ہیں چاہے وہ منہ کھولیں یا منہ بند رکھیں‘ کوئی قدم اُٹھائیں یا جامد و ساکن رہیں‘‘۔ میں نہیں جانتا کہ ان سطور کا آئر لینڈ کی خواتین پر کس حد تک اطلاق ہوتا ہے مگر یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک میں رہنے والی مسلمان خواتین کے تہذیبی اور ثقافتی بحران کو بڑی اچھی طرح بیان کرتا ہے۔ وہ مسلمان خواتین جوایک طرح کے سماجی کردار اور معاشرے میں ثانوی حیثیت پر قناعت کر چکی تھیں‘ وہ ایک نئے ماحول میں آکر آباد ہو گئیں یا یہاں بچپن سے بلوغت کے تمام مراحل طے کرنے کے بعد مساوات اور آزادی کی بالکل مختلف (غالباً متضاد ) فضا سے ایڈجسٹ ہونے کے گونا گوں مسائل سے دو چار ہوئیں۔ بنگالی نژاد نوجوان خاتون شمیمہ بیگم کی مثال دے کر اس بیانیے کو واضح کیا جا سکتا ہے۔ یہ لڑکی 19 سال پہلے لندن کے بنگلہ دیشی گھرانے میں پیدا ہوئی۔ آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ برطانیہ میں پیدا ہونے اور بڑی ہونے والی شمیمہ بیگم جو پندرہ سال کی عمر میں اپنے گھر سے بھاگ کر شام میں داعش کے جنگی کیمپ میں جا شامل ہوئی‘اس نے اپنی ماں اور اس سے کہیں زیادہ اپنی نانی سے کتنی مختلف زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اُس کی نانی جو بنگلہ دیش کے کسی گمنام گائوں میں پیدا ہوئی اور ساری عمر وہیں گزار دی‘ دوسری طرف اس کی نواسی ‘ ایک دہشت گرد تنظیم سے وابستگی کے جرم میں برطانوی حکومت نے جس کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا اور اب برطانوی عدالتوں میں اس کا مقدمہ دائر کیا جا چکا ہے تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ حکومت کو اس کا پاسپورٹ منسوخ کرنے اور برطانیہ واپس آنے کا حق چھین لینے کا اختیار قانونی طور پر حاصل ہے یا نہیں۔پہلی کتاب مریم خان نے لکھی اور نام ہے؛ It's Not About the Burqa: Muslim Women on Faith Feminism, Sexuality and Race۔ فاضل مصنفہ کو یہ کتاب یوں لکھنی پڑی کہ 2016 ء میں برطانوی وزیراعظم (ڈیوڈ کیمرون) نے یہ رائے ظاہر کی کہ مسلمان مردوں کے شدت پسند رجحا نات رکھنے یا دہشت گرد بن جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم خواتین روایتی طور پر بڑی مسکین اور خدمت گزار ہوتی ہیں۔ برطانوی حکومت نے بیس ملین پائونڈ کی گرانٹ صرف اس مقصد کے لئے دی کہ مسلمان خواتین کو انگریزی زبان سکھائی جا سکے۔ مریم نے بہت سی منظم خواتین سے گفتگو کی‘ اُن کے خیالات‘ تبصروں اور تجزیوں کو مرتب کرکے اپنی کتاب میں جگہ دی۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ مشرقی ماحول سے نہ ٹوٹنے والا تعلق رکھنے والی مسلمان خواتین کو جب تیز ہوا اُڑا کر مغربی ماحول میں لائی تو وہ تہذیبی اور ثقافتی طور پر دو مختلف دنیائوں کے درمیان اس طرح معلق ہو گئیں کہ اسے بجا طور پر Cultural Homelessness کہا جا سکتا ہے۔ مریم نے جن خواتین کی آپ بیتی کا نچوڑ اپنی کتاب میں شامل کیا غالباًاُن میں سے زیادہ دلچسپ اور چونکا دینے والا انٹرویو یاسمین عبدالمجید کا ہے۔ انہوں نے مکینیکل انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سمندروں میں تیل نکالنے والے Rigs Oil پر مردوں کے شانہ بشانہ کئی برس کام کیا ۔
یہ سوچنا کہ صرف مغربی ممالک نے مسلمان خواتین کو برابری کے درجہ‘ انسانی حقوق اور شخصی آزادی کے باغیانہ ''تصورات سے روشناس کرایاہے ‘ایک بڑی غلطی ہوگی۔ نہ صرف عام عرب ممالک (خصوصاً فلسطین) بلکہ ترکی‘ ایران اور پاکستان سے لے کر مشرق بعید کے ممالک میں بھی مسلمان خواتین گزشتہ ایک صدی کے اندر وہ تمام زنجیریں توڑ چکی ہیں جو مذہبی تہذیب کے نام پر (مگر دراصل قبائلی اور جاگیرداری دور کی رسم و رواج کی علامتیں بن کر) اُن کے ہاتھ کی ہتھکڑیاں اور پائوں کی بیڑیاں بن چکی تھیں۔ آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والی اس بڑی تبدیلی کا سہرا تعلیم ِ نسواں او رجدید صنعتی دور کے سروں پر باندھا جا سکتا ہے۔ وہ 52 سال جو کالم نگار نے برطانیہ میں گزارے‘ اُن میں سب سے بڑی تبدیلی مغرب میں مسلمان خواتین کے لباس او رسماجی مقام اور معاشی آزادی اور بڑھتے ہوئے اعتماد میں آئی ہے۔ سر ڈھانپنے کے لئے حجاب اب ایک ثقافتی بیانیے کا اُسی طرح نشا ن یا علامت بن گیا ہے جس طرح کسی ملک کا اپنا پرچم۔ نصف صدی قبل ایک بھی مسلم خاتون حجاب نہیں پہنتی تھی۔ دوبارہ لکھتا ہوں ایک بھی نہیں‘ اور آج تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کی اکثریت حجاب پہنے نظر آتی ہے ۔ اب نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ کے ہر ملک میں رہنے والی مسلمان خواتین کی بڑی تعداد (جو نظر انداز نہیں کی جاسکتی) برُقع پہنتی ہے۔ برطانیہ کے ان سرکاری دفاتر کو چلانے والوں کی رواداری قابل تعریف ہے جنہوں نے مسلمان پردہ دار خواتین کے لئے خصوصی انتظامات کئے ہیں کہ وہ پردے کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے دفتری فرائض سرانجام دے سکیں۔ کالم نگار خود گواہی دے سکتا ہے کہ مغربی لندن میں Felthamکے مقام پر ایک امیگریشن عدالت کی انتظامیہ کی سربراہ ایک پاکستانی برقع پوش خاتون ہیں اور تقریباً20 برسوں سے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھا رہی ہیں۔ 
اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر مناسب ہوگا کہ کالم نگار اپنی ذاتی زندگی اور تجربے کے حوالے سے اپنے قارئین کو یہ بتائے کہ 52 سال پہلے جب لاہور میں رہنے والا ایک چھوٹا سا گھرانہ یہ بڑا فیصلہ کر رہا تھا کہ وہ اپنا آبائی وطن چھوڑ کر ایک مغربی ملک (برطانیہ) جاکر وہاں آباد ہو جائے تو اُس کے بہت سے ذہنی تحفظات میں یہ بھی شامل تھا کہ اُس وقت اُن کی اکلوتی بیٹی کی عمر چار سال تھی اور ماں باپ کے دل میں یہ خدشہ بار بار سر اٹھاتا تھا کہ کہیں ہماری بیٹی بڑی ہو کر مشرقی اور اسلامی روایات اور تہذیب سے اتنی دور نہ ہو جائے کہ ہمارا سر شرم سے جُھک جائے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے (اور اپنی قابلِ فخر بیٹی کا شکریہ) کہ اس نے ہمیں ایک بار بھی ‘ایک لمحہ کے لئے بھی ترکِ وطن کے فیصلے پر شرمندہ نہیں ہونے دیا۔ اُس نے برطانیہ میں اپنے پانچ بھائیوں جتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اب اپنی بیٹی (میری نواسی) کے ساتھ مل کر کامیابی سے اپنا سکول چلاتی ہے۔ وہ دونوں سر پر حجاب نہیں اوڑھتیںمگر قمیض شلوار کے ساتھ ساتھ دوپٹے اور چادر کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ اُن کی کرم فرمائی ہے ورنہ برطانیہ میں مغربی تہذیب کی آندھی کی رفتار اتنی تیزہے کہ وہ مسلمانوں کی بہت سی اخلاقی اقدار کے ساتھ اُن کی اوڑھنی کو بھی اُڑا کر لے گئی ہے۔
آیئے ہم اس کالم کے خاتمے سے پہلے ایک طائرانہ نظر دوسری کتاب پر بھی ڈال لیں۔ The Things I Would Tell You: British Muslim Women Write۔ کتاب کی مولفہ کا نام ہے سرینا محفوظ اور اسے بھی ایک بہت معیاری ناشر (Saqi Buric)نے شائع کیا ہے۔ مولفہ خود ایک شاعرہ ہیں اور تمثیل نگار بھی۔ یہ کتاب شاعری اور افسانوں کا بہت اچھا اور قابلِ مطالعہ مجموعہ ہے۔ افسانہ نگاروں میں شہرت یافتہ اور انعام یافتہ خواتین کا میلا شمسی‘ لیلیٰ ابو لیلیٰ‘ حنان ایشیخ اور شعرا میں امینہ جاما اور صباق عثمان شامل ہیں۔ کالم نگارکو سب سے زیادہ کامیلا شمسی کا افسانہ پسند آیا۔ جس کا نام ہے''پڑوس میں رہنے والی لڑکی‘‘۔ اس کہانی میں پاکستان میں طبقاتی تقسیم اور فرقہ وارانہ کشیدگی پر بڑے لطیف انداز میں طنز کی گئی ہے۔ شازیہ قریشی کی نظم اُن جنگوں میں ہلاک ہو جانے والوں کا نوحہ ہے جو مسلمانوں نے ایک دوسرے کے خلاف لڑیں۔ دونوں کتابوں کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ نہ حجاب اور برقع مسلمان خواتین کے حصولِ تعلیم اور تہذیبی ترقی میں حائل ہے اور نہ ہی اُس کا استعمال مسلمان خواتین کی پسماندگی کی علامت ہے اور نہ ہی یہ کہنا یا سوچنا درست ہوگا کہ جو مسلمان خاتون حجاب یا برقع استعمال نہیں کرتی وہ دوسرے درجے کی مسلمان ہے۔ ایک محاورہ (غالباً ہسپانوی زبان میں) کے مطابق آپ اپنے صحن میں بنی ہوئی دیوار کو کتنا بلند و بالا کر لیں آپ صحن کو سورج کی روشنی سے بند ہوجانے سے نہیں روک سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں