دو شہاب ثاقب

ہالی وڈ میں 56 سال پہلے بنائی جانے والی ایک مشہور فلم کا نام تھا: The Great Escape‘ جو میں نے 1963 ء میں اپنی نوبیاہتا بیوی کے ساتھ چیئرنگ کلاس لاہور کے پلازہ سنیما میں دیکھی۔ بڑی ڈرامائی اور ایکشن سے بھرپور۔ فلم میں اُس وقت کے ہالی وڈ کے تین بڑے اداکاروں نے کمال کے جوہر دکھائے۔ Terrence Stephen McQueen‘ James Garnerاور Richard Attenborough۔ 30 برس کی عمر میں برطانیہ پڑھانے آیا تو ہوش سنبھالی اور پتا چلا کہ ہالی وڈ کی فلمسازی تو امریکی پروپیگنڈا کا ایک ہتھیار ہے۔ بظاہر نہ نظر آنے والا‘ مگر موثر ہتھیار۔ یہ راز جیمز بانڈ کی فلموں سے کھلا کہ اُن کے پیچھے امریکی جاسوس ایجنسی کا ہاتھ تھا۔ ایک اور بات کا علم ہوا کہ چاہے فلم بنانے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آپ کو ایک سچی کہانی پر بنائی جانے والی فلم دکھا رہے ہیں‘ مگر وہ اس معیار پر بہت کم پورا اُترتے ہیں مثال کے طور پر مذکورہ بالا فلم ہی لیجئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن حکام نے اتحادی فوجوں کے قیدیوں کے لیے جو بہت سے کیمپ بنائے اُن میں سے ایک کا نام تھا Stalag Luft III ۔ یہ برلن کے جنوب میں سو میل کے فاصلے پر تھا۔ اس کیمپ سے 200 اتحادی فوجی افسر جس طرح فرار ہونے میں کامیاب ہوئے یہ فلم اُسی پر بنائی گئی ۔جرمن فوج جانتی تھی کہ اتحادی فوج کے سپاہی اور افسران قیدیوں کے کیمپ سے بھاگ جانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اس لیے اُس نے ہر قسم کی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں ۔ اتنی بڑی تعداد میں قیدی پھر بھی بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس تاریخی کارنامے پر ایک کامیاب اور دنیا بھر میں ذوق و شوق سے دیکھی جانے والی فلم بنائی گئی۔
فرار ہوجانے والے قیدیوں کے سردار کا نام تھا رچرڈ چرچل۔ رچرڈ کی وفات پر برطانوی اخباروں میں جو تعزیت نامے شائع ہوئے انہیں پڑھ کر لگتا تھا کہ رچرڈ فلمی دنیا کا نہیں سچ مچ کا ہیرو تھا‘ جس نے افسانوی شہرت حاصل کی۔رچرڈ کا رائل ایئر فورس میں بھرتی ہونا بھی اس قدر غیر ارادی تھا کہ اسے بجا طور پر حادثہ کہا جا سکتا ہے۔ دوسری جنگ ِعظیم میں وہ ایک عام پائلٹ کی حیثیت سے برطانوی فضائیہ کا حصہ بنا اور بہت کم عرصے میں سکواڈرن لیڈر کے عہدے تک جا پہنچا۔ جرمنی پر ایک حملے کے دوران جرمن فضائیہ نے ستمبر1940 ء میں اُس کا جہاز مار گرایا اوررچرڈ کو قیدی بنا لیا گیا۔ رچرڈ اور اُس کے ساتھی قیدیوں کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ قید خانے میں ملنے والی خیر و عافیت کو غنیمت جانیں اور جنگ ختم ہونے کا انتظار کریں۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ قید سے بھاگ نکلنے کے بارے سوچیں۔ اس کا صرف ایک ہی طریقہ تھا اور وہ تھا سرنگ کھود کر راہِ فرار اختیار کرنا۔ فیصلہ کیا گیا کہ تین سرنگیں کھودی جائیں‘ جن میں ہر سرنگ قریباً27 فٹ گہری ہوگی۔ مصیبت یہ تھی کہ جنگی قیدیوں کے کیمپ کے نیچے گہرائی پر سخت زمین کی بجائے نرم ریت تھی۔ خطرہ یہ تھا کہ اگر سرنگیں منہدم ہوگئیں تو ان کے راستے بھاگ نکلنے والے قیدی ریت کے انبارمیں دم گھٹ کر مرجائیں گے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ 27 فٹ کی گہرائی پر اتنی لمبی تین سرنگیں بنانا کتنا جان جوکھوں کا کام ہوگا۔ وہ سرنگیں جو قیدیوں کو جنگی کیمپ کی حدود سے باہر ویرانہ میں لے جائیں۔
کالم نگار مڑ کر دیکھتا ہے تو اسے (بیوی اور تین چھوٹے بچوں کے ساتھ) مئی1967 ء میں پاکستان سے (برطانیہ کا ورک پرمٹ حاصل کر کے) اپنا فرار کافی بڑا کارنامہ نظر آتا ہے۔ ایچی سن کالج‘ لاہور کے انگریزاساتذہ میری بروقت مدد نہ کرتے تو میں نہ ختم ہونے والی بے روزگاری کی دلدل سے کبھی نہ نکل سکتا۔ میرے سامنے دو ہی راستے تھے یا اپنے دوست حنیف رامے صاحب کے نقش قدم پر چلتا ہوا عوام دشمن آمرانہ نظام کا ایک چھوٹا سا پرزہ بن جاتا یا میدانِ جنگ سے بھاگ جاتا اور چھ ہزار میل کے محفوظ فاصلے پر پہنچ کر اپنی خود ساختہ جلاوطنی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جدوجہد پھر شروع کر دیتا۔ مندرجہ بالا سطور لکھی جا چکی تھیں تو میں نے نظر ثانی کے لیے دوبارہ پڑھیں۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرے قارئین کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا کر دے کہ ان کو لکھنے کا مقصد اپنے آپ کو دوسرا شہاب ثاقب بنا کر پیش کرنا ہے۔ آج کے کالم کے عنوان کے مطابق ؛پہلا شہاب ثاقب رچرڈ چرچل تھا‘ جس کا تعارف آپ پڑھ چکے‘ جبکہ دوسرے کا اسم گرامی ہے؛ Lamia Al-Gailani Werr۔ نا صرف عراق نژاد‘ بلکہ اُس معزز اور قابل صد احترام گھرانے سے تعلق جو نو صدیوں سے بغدادمیں حضرت عبدالقادر جیلانی ؒکے مزار کی نگہداشت کا ذمہ دار ہے۔ 1258ء میں منگول حملہ آوروں نے بغداد کی ہر لائبریری کو تباہ و کر دیا‘ مگر معجزاتی طور پر قرآنِ پاک کا ایک قلمی نسخہ محفوظ رہا‘ وہ نسخہ اس خاتون کے کتب خانے کی زینت تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے 60 برس عراق میں قدیم تہذیب کے مطالعہ اور قبل از مسیح دور کے نوادارت کی حفاظت پر صرف کر دیئے۔ اپنی زندگی کے آخری سانس تک انہوں نے ہر سال کے ہر دن ایک ہی کام کیا اور وہ تھا بابل‘ نینوا اور صفحہ ہستی سے مٹ جانے والے دوسرے عراقی شہروں میں کھدائی کے بعد حاصل کی جانے والی چیزوں کو بڑے سلیقے سے سنبھال کر رکھنا۔ میرے لیے یہ بیان کرنا ہر گز ناممکن نہیں کہ جب وہ 18 اپریل2003ء کو بغداد کے قومی عجائب گھر پہنچیں تو انہوں نے کون سا وحشت ناک منظر دیکھا اور وہ دیکھ کر اُن کا کیا حال ہوا؟ یہ وہ دن تھا جب بغداد پر امریکی اور برطانوی فوجوں کے جارحانہ حملے کے بعد چوروں اور ڈاکوئوں نے پورے دو دن قومی عجائب گھر کولوٹا۔ چرائے جانے والے نوادرات کی تعداد پندرہ ہزار سے زیادہ تھی۔ جو نوادرات اتنے وزنی تھے کہ اُٹھائے نہ جا سکتے تھے وہ پاش پاش کر دیئے گئے۔ عجائب گھر کے عملہ پر سکتہ طاری تھا۔خاتون نے Assyria‘Babylon‘Sumer‘UR اورNineveh کے کھنڈرات سے نکالے جانے والے نوادرات کو دوبارہ کھنڈر بنا دیکھا تو مرتے دم تک اس صدمہ سے نہ سنبھل پائیں۔ اس سانحہ کے دوران Lamia کو صرف ایک اچھی خبر نے زندہ رکھا اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے عجائب گھر کے تہہ خانے میں قدیمMesopotamia کی جو سات ہزار سرکاری مہریں چھپائی ہوئی تھیں وہ لٹیروں کے ہاتھ نہ لگیں ۔ انہوں نے 18 جنوری2019 ء کو 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔ عراق میں شائع ہونے والوں اخباروں‘ رسالوں کا تو مجھے علم نہیں ‘مگر برطانیہ کے سب سے بڑے جریدہ The Economist نے اپنی نو فروری کی اشاعت میں اُن کے اعزاز میں ایک صفحہ کا تعزیت نامہ شائع کیا۔
یہاں کالم نگار مناسب سمجھتا ہے کہ اپنے قارئین کا ایک دلچسپ‘ علم افزا اور قابلِ مطالعہ کتاب سے تعارف کروایا جائے۔ Muslims Against The Muslim League ۔ کل صفحات:408 ۔ علی عثمان قاسمی اور Megan Eaton Robbنے مرتب کی اور کیمبرج یونیورسٹی پریس (دہلی ) نے شائع کی۔ یہ حقیقت توجہ طلب ہے کہ 1957ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے صرف پانچ فیصد ووٹ لیے اور 1945-46 ء کے انتخابات میں 75 فیصد۔ 1943 ء میں قتل ہو جانے تک سندھ کے رہنما اللہ بخش سومرو نے پوری کوشش کی کہ قائداعظم کے قدم سندھ میں نہ جم سکیں۔ یہی حال پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے لیڈر اور وزیراعلیٰ سرسکندر حیات کا تھا۔ بلوچستان میں (ایک مضمون نگار عبدالحمید کی رائے میں) حکمران گھرانے نے ہر ممکن طریقہ سے قلات کی ریاست کے پاکستان میں ادغام کو روکنے کی کوشش کی‘ مگر یہ کالم نگار اپنے قارئین سے یہی کہے گا کہ آج ہم جہاں کھڑے ہیں وہ محض یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ یہ ملک کیسے بنا؟ کیوں بنا؟ کون حامی تھا اور کون مخالف؟ آج ہمارے سامنے ایک اہم مسئلہ ہے‘ زندگی موت کا مسئلہ اور وہ یہ کہ اتنی زیادہ قربانیوں کے بعد بنائے جانے والے ملک کو کس طرح بچایا جائے؟ اسے کس طرح فلاحی مملکت بنایا جائے؟یاد رکھیں کہ ملک کو فلاحی مملکت بنانا ملک بچانے جتنا ہی اہم ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں