انگریزوں کی Eccentricity

اس کالم نگار کو کسی انگریزی لفظ کا ترجمہ کرنے میں شاید کبھی اتنی مشکل پیش نہ آئی ہوگی جتنی کالم کے عنوان کے آخری لفظ کے معاملے میں۔شان الحق حقی کی مرتب کردہ اور لغات سے رجوع کرنے کی سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ صفحہ نمبر491 بائیں ہاتھ پر دوسرا لفظ۔ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ''انوکھا غیر معمولی وہمی و سنکی۔ کج نہاد‘‘ دل مطمئن نہ ہوا تو انگریزی اردو لغت کے بعد اردو انگریزی لغت دیکھی۔ صفحہ نمبر717 دائیں ہاتھ پر چوتھا لفظ سنکی تھا اور ترجمہ Eccentric/Crazy Person ۔ اب تو شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی۔ کالم نگار کی بہادری اس کی کم علمی پر غالب آئی اور وہ Eccentric (جو انگریزوں کی نمایاں خوبی یا خصلت ہے) کا مفہوم سمجھانے کے لئے دو الفاظ میں اس کا ترجمہ کرنے کی جسارت کرے گا۔ ''غیر رواجی‘روایات اور معمولات کی پابندی نہ کرنے والا‘‘۔ بقول غالب وہ شخص جو سرگشتہ خمارِ رسوم و قیود نہ ہو۔ ہمارے ہاں ادیب‘ شاعر اور فنکار اکثر اتنے غیر رواجی ہوتے ہیں کہ آپ انہیں بجاطور پر Eccentric (یعنی سنکی) کہہ سکتے ہیں۔ میں چند مثالیں دینے پر اکتفا کروں گا۔ آپ جانتے ہوں گے علامہ اقبال تہمد اور بنیان(جس میں کئی سوراخ ہوتے تھے) پہنے ہوئے ہوتے اور حقہ نوشی کا شغل جاری رہتا۔ اُستاد دامن نے بھی ساری عمر تہمد باندھا (چاہے وہ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے مہمان ہوں) اور سر پر پنجاب کی روایتی بڑی پگڑی۔ساری عمر بادشاہی مسجد لاہور کے قریب تنگ وتاریک کوٹھڑی میں رہے۔ منیر نیازی اور ناصر کاظمی نے راتوں کا پہلا پہر لاہور کی سڑکوں اور گلیوں میں آوارہ گردی کرتے گزارا۔ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ اور عالمی عدالت کے جج سر ظفر اللہ خان نے ساری عمر سُرخ رنگ کی ترکی ٹوپی پہنی۔ کراچی سے نیویارک کا سفر کرتے (اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کیلئے) تو اپنے سوٹ کیس میں سنگترے‘ مالٹے اور دوسرے پھل رکھ کر لے جاتے کہ وہ امریکہ میں ملنے والے پھل سے مقابلتاً سستے ہوتے۔ حیدر آباد کی ریاست کے آخری حکمران (نظام) دنیا کے امیر ترین شخص تھے۔ (ان کی سیر میں کام آنے والی چھڑی کی مٹھی میں کروڑوں روپوں کی ملکیت کا ہیرا لگا ہوا تھا) مگر جو کپڑے پہنتے وہ یا تو سلوٹوں سے بھرے ہوتے تھے یامیلے کچیلے ہوتے تھے۔ 
مندرجہ بالا مثالیں اپنی جگہ مگر آج کا کالم انگریزوں کے بارے میں ہے۔ شروع کرتے ہیں Simon Norton سے۔ وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا حساب دان تھا۔ اگر آپ نابغہ یعنی غیر معمولی ذہانت کا مطلب سمجھنا چاہیں تو اس شخص کے علمی کارناموں کو دیکھ لیں جو اُس نے علمِ حساب اور شماریات کے میدان میں سرانجام دیئے۔ اس نے ساری عمر ایک عمارت کے بدبو دار تہہ خانے میں بنے ہوئے دفتر میں کام کرتے گزا ر دی۔ وقت بچانے کے لئے ڈبوں میں بند مچھلی موٹے چاول کے ساتھ کھاتا رہا۔ ہر روز‘ ہر ماہ اور ہر سال۔ حساب کا ایک پرابلم اتنا پیچیدہ اور اُلجھا ہوا ہے کہ Monster (ہیبت ناک / عفریت) کہلاتا ہے۔ موصوف نے اُس پر نصف صدی سر کھپایا۔ مگر اُسے حل نہ کر سکے مگر پھر بھی پرُ جوش طریقے سے جُتے رہے اور ہار نہ مانی۔ اپنی ساری علمیت اپنے شہر میں بسوں کے سفر کے راستے کو بہتر بنانے اور اُن کے سفر کے اوقات میں ترمیم کرنے پر صرف کر دی۔ انگریزوں کی نظر میں اُس کی ذہنیت سے اُس کا سنکی ہونا زیادہ قابل تعریف ہے۔ میں سند کے طور پر برطانوی فلاسفر جان سٹورٹ مل کے قول کا حوالہ دوں گا جس نے 1859 ء میں لکھا ''ایک قوم کے اندر سنکی افراد کی موجودگی اور دوسری طرف ذہانت‘اخلاقی جرأت اور بڑے کارنامے سرانجام دینے کی صلاحیت کے درمیان گہرا رشتہ اور مناسبت ہوتی ہے‘‘۔
Quentin Crispنے اپنی کمال کی خود نوشت لکھی جس کانام تھا: The Naked Civil Servant۔ یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ اُسے فلمایا بھی گیا۔ وہ اپنے وقت میں سب سنکیوں کا سردار مانا جاتا تھا مگر اب ناقدین نے اُس کا اوڑھا ہوا نقاب اُتار کر اُس کا اصل چہرہ دیکھا تو ہمیں پتہ چلا کہ وہ اپنی جلد کے نیچے ایک عام رواجی شخص تھا۔ یہ پڑھ کر مجھے موصوف پر رحم آیا کہ وہ ساری عمر سنکی ہونے کی اداکاری کرتے کرتے کتنے تھک جاتے ہوں گے اور رات کو اپنے بستر پر ادھ موئے ہو کر سوتے ہوں گے۔ برطانوی معاشرے میں دو طبقوں نے سب سے زیادہ سنکی افراد پیدا کئے ہیں ایک ہے جاگیرداروں پر مشتمل موروثی اشرافیہ اور دوسری ہے بری فوج۔ بہترین مثال ایک جرنیل کی دی جا سکتی ہے۔ نام بھی انوکھا تھا: Adrian Carton de Wiart ۔ ایک آنکھ میں بینائی سے محروم تھے اور اُس آنکھ کو (اسرائیلی جرنیل موشے ڈیان کی طرح) کالے کپڑے کی دھجی سے چھپائے رکھتے تھے۔ وہ جنوبی افریقہ میں لڑی جانے والی Boer Warاور پھر پہلی جنگ عظیم میں لڑے۔ جسم کا کوئی حصہ نہ تھا جس پر گہرے زخموں کے نشان نہ ہوں۔ دو بار ہوائی جہاز کے حادثوں میں بچ جانے والے واحد مسافر تھے۔ جنگی قیدیوں کے کیمپ سے سرنگ بنا کر مفرور ہونے میں کامیاب رہے۔ برطانوی تاریخ میں ایک شخص کا نام صرف اس لئے لکھا ہوا ہے کہ وہ غیر رواجی زندگی بسر کرنے میں اپنی مثال آپ تھا۔ وہ تھا 1795ء میں پیدا ہونے والا Dr. joseph Wolf ۔ اُس نے عمر کے پچاس برس مشرق وسطیٰ‘ وسط ایشیا اور کوہ قاف سے جڑے ہوئے ممالک میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے اور یہودیوں کے گم شدہ قبائل کو تلاش کرنے میں صرف کر دئیے۔ ایک بار ڈاکوئوں نے انہیں گھوڑے کی دم سے باندھ کر گھوڑا بھگا دیا۔ تین بار انہیں اپنے لباس سے محروم ہونا پڑا اور ایک بار آگ میں زندہ جلا دیئے جانے سے بال بال بچے۔ بخارا کے سلطان نے انہیں ایک گہرے گڑھے (جو زہریلے سانپوں کا مسکن تھا) میں گرا دینے کا حکم دیا ‘آخری وقت پر واپس لے لیا چونکہ وہ برہنہ پادری کے نحیف و نزار جسم کو دیکھ کر بے اختیار ہنسنے لگا اور اپنی ہنسی پر قابو نہ پا سکا ۔ Alan Mathison Turing(1912-1954ء) اپنے دور کے بہت بڑی ریاضی دان تھے ۔ وہ جس پیالے میں کافی پیتے تھے اسے دوسروں کی پہنچ سے دُور رکھنے کے لئے دیوار سے زنجیر باندھ کر رکھتے تھے۔ انہوں نے سونے چاندی کے سکوں کا ایک ذخیرہ زمین میں دفن کر دیا تاکہ اگر نازی جرمنی برطانیہ پر قابض ہو جائے تو وہ ان کے کام آئے۔ جرمن تو برطانیہ پر قابض نہ ہو سکے‘ مگر یہ چوٹی کا عالم فاضل شخص بھول گیا کہ اُس نے اپنی عمر بھر کی کمائی کہاں چھپائی تھی۔ سر آئزک نیوٹن ساری عمر نہ صرف مجرد بلکہ کنوارے رہے۔ ونسٹن چرچل ان جرنیلوں کو زیادہ پسند کرتے تھے جو غیر رواجی اور سنکی ہوتے تھے۔ اُن کے خیال میں ایسے جرنیل تھے کہ جنگ جتنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں چونکہ دشمن اُن کی جنگی چالوں کا کبھی درست اندازہ نہیں لگا سکتا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انگریزوں کا تذکرہ ہو اور اُس میں بادشاہوں کا ذکر نہ ہو؟ بادشاہوں کا انگریزوں کی تاریخ میں وہی مقام ہے جو یہاں کی سرزمین میں پہاڑوں جنگلوں اور جھیلوں کا ہے۔ پانچویں صدی کے اوائل میں انگلستان سے رومن فوج نکل گئی تو یہ علاقہ رومن سلطنت سے نکل گیا۔ تاریخی شواہد بیان کرنے کی بجائے فسانہ طرازی کرنے والے آرتھر نامی بادشاہ کے کارناموں کو بار بار اتنے وثوق سے دہرایا کہ آبادی کی اکثریت آرتھر کو چھٹی صدی کا ایک ایسا بادشاہ مانتی ہے جو ہیرو بھی تھا۔ پھر ہم چلتے ہیں رچڑڈ سوئم کی طرف جس کی ہڈیاں Leicester نامی شہر کے کار پارک کے نیچے کھدائی میں برآمد ہوئیں اور انہیں 2012ء میں شاہی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ ابھی یہ قصہ پرانا نہیں ہوا کہ جنوب مغربی انگلستان کے شہر Winchester (جو ایک زمانے میں دارالحکومت تھا) کے بڑے گرجا گھر (کیتھڈرل) کے قدیم قبرستان سے Emma of Normandy کی ہڈیاں دریافت ہوئیں۔ وہ انگلستان کی ملکہ بن کرتخت نشین ہوئی۔ وہ انگریزوں کی واحد ملکہ ہے جس کی رسم تاجپوشی دوبار ہوئی‘ چونکہ اُس نے یکے بعد دیگرے دو بادشاہوں سے شادی کی۔ اُسے دو بادشاہوں کی ماں بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ 1066ء میں جس ولیم نے انگلستان کو فتح کیا (اور اس طرح فاتح ولیم کہلایا) وہ رشتے میں Emma کا پوتا لگتا تھا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں