تین مزید نئی کتابیں

آج کا کالم گزشتہ سے پیوستہ ہے۔ عنوان میں مزید کا لفظ لکھا گیا تو مجھے اپنی طالب علمی کے دور کے سب سے بڑے مزاح نگار شفیق الرحمٰن یاد آئے۔ ان کی ایک کتاب کا نام ہے ''حماقتیں‘‘ دوسری کتاب لکھی تو اُس کا نام رکھا ''مزید حماقتیں‘‘ ۔ان کی باقی کتابوں کی طرح یہ دونوں بھی کمال کی تھیں۔ مزاح نگاری کی جس روایت کو انہوں نے پروان چڑھایا وہ ابن انشا اور کرنل محمد خان سے ہوتے ہوئے مشتاق احمد یوسفی تک پہنچی تو بامِ عروج پر تھی۔میں اپنے قارئین کو برطانیہ اور امریکہ میں شائع ہونیوالی نئی اور اچھی کتابوں سے متعارف کرانا اپنا خوشگوار فریضہ سمجھتا ہوں۔ اگر ایسا کرنا عقلمندی کی بجائے حماقت کے زمرے میں آتا ہے تو اسی طرح کا ایک اور کالم لکھنا منطقی اعتبار سے مزید حماقت کو سرزد کرنا ہوگا۔ اجازت دیجئے کہ میں اس بدگمانی کو فی الفور اپنے دماغ سے نکال دو ں اور آج جب مزید تین کتابوں کا تذکرہ لکھوں تو قارئین کو یقین دلائوں کہ چاہے میں کتنی نئی کتابیں پڑھوں‘ انہیں کافی عرصے تک اس ذہن پر بوجھ ڈالنے والی مشق سے محفوظ فاصلے پر رکھونگا۔ کالم نگار نے دو عہد ساز مغربی فلاسفروں پر ڈرتے ڈرتے کالم لکھا تھا‘ مناسب ہوگا کہ ڈاکٹر عبدالغفار صاحب اور رحمت اللہ صاحب کا شکریہ ادا کیا جائے جنہوں نے بکمال مہربانی بذریعہ ای میل اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور کالم نگار کی حوصلہ افزائی کی ۔
1799 ء میں ایک انگریز خاتون Henrietta Clive نے ایک ایسا جملہ لکھا جو ایک نئی کتاب کا حصہ بن کر ہم تک پہنچا ''ہم بطور قوم کتنے کمال کے لوگ ہیں جو ساری دنیا پر حکومت کرتے ہیں۔ میں اپنے انگریز ہونے پر بہت فخر کرتی ہوں‘‘۔ یہ ہے 400 صفحات کی ایک نئی کتاب جو برٹش راج میں قابلِ ذکر انگریز خواتین کے موضوع پر لکھی گئی اور چھپ کر بازار میں آئی تو کالم نگار کو 1947 ء کے پہلے کے وہ بھولے بسرے دن یاد آئے جب انگریز خواتین میں سے ایک اپنی پڑوسن دیسی خاتون (جو میری والدہ محترمہ تھیں) سے ملنے اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنے اور چائے پینے آتی تھیں اور کالم نگار پسینے میں شرابور پیشانی کے ساتھ مترجم کے فرائض ادا کرتا تھا۔مندرجہ بالاجملہ جس خاتون نے لکھا وہ صرف برٹش راج کے بانی لارڈ کلائیوکی بہو نہیں تھی بلکہ خود ماہر نباتات تھی۔ جو کتاب اُن کے تذکرے سے شروع ہوئی وہ اتنی دلچسپ اور رنگا رنگ لفظی تصویروں سے بھری ہوئی ہے کہ لگتا ہے کہ میں قبل از آزادی کے دور میں اپنے گائوں میں لگنے والے میلے میں بارہ من کی دھوبن کی فِلم کو ایک آنکھ بند کر کے اس طرح دیکھ رہا ہوں کہ دل نہیں بھرتا۔ بحری قزاق‘ نواب‘ جاگیر دار‘ طوائفیں ‘ چوکیدار ‘ عطرِگلاب‘ اجنبی ملک کے غیر مانوس رسم و رواج‘ دیسی آداب و اطوار‘ مچھروں اور مکھیوں کی بہتات‘طرح طرح کے خطرات۔ 1784 تک بحری جہازوں کا عملہ خواتین کی موجودگی کو نحوست سمجھتا تھا۔ جب Eliza Mary نے برطانیہ سے ہندوستان تک بحری جہاز سے سفر کیا تو تین ہفتوں کے دوران اسے صرف پانچ بار عرشے پر جانے کی اجازت ملی اور وہ سارا وقت اپنے کیبن میں قید رہی۔ وہ جہاں اُتری اُس بندرگاہ پر جہازوں کے لنگر انداز ہونے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ جب برطانیہ سے بحری جہاز آتے تو نیم برہنہ ہندوستانی مچھیرے انگریز خواتین کو اپنی کمر پر اُٹھا کر ساحل تک پہنچاتے۔ یہ خواتین جب نئے رہن سہن کی عادی ہو جاتیں تو مقامی لباس کو شوق سے پہنتیں اور جب اپنے میکے والوں کو خط لکھتیں تو پاجامے کو Pie-Jammas لکھتیں۔ ہاتھوں کو مہندی سے رنگنے اور آنکھوں میں کاجل کا فن سیکھنے کا بھی تذکرہ کرتیں۔Lena Login اس لئے قابل ذکر ہے کہ اُس نے 1840ء میں روانی سے اُردو بولنا سیکھ لیا۔ Fanacy Parkes نے نہ صرف ستار بجانا سیکھا بلکہ چھری کانٹے کے بغیر کھانا کھانے کا طریقہ بھی۔ انگریز خواتین کی نوابوں کی حویلیوں میں پردہ نشین خواتین سے بھی راہ و رسم بڑھی۔ لیڈی کلائیو کو ہندوستان دیکھنے کا شوق چر ایا تو اُن کا قافلہ 14 ہاتھیوں‘ 100بیل گاڑیوں‘ 750 ملازمین اور فارسی بولنے والے اُستاد پر مشتمل تھا۔ جنوری 1877ء میں ایک بہت بڑا جشن منایا گیا۔ ایک لاکھ معزز‘ تابعدار اور وفادار لوگوں کا اجتماع۔ ہیروں اور جواہرات سے جگمگ جگمگ کرتی ہوئی ہزاروں انگریز اور دیسی خواتین ایک طرف اور جنوبی ہند میں خوفناک قحط دوسری طرف‘ جو لاکھوں افراد کی ہلاکت کا باعث بنا۔
دوسری کتاب برطانوی تاریخ کے ایک بڑے کردار پر لکھی گئی۔ نام ذرا عجیب ہے: The Songs of de Monffort ۔ سال تھا 1265ء میدان جنگ کا نام تھاErtesham جب De Montfortشکست کھا کر مارا گیا ۔ برطانیہ میں پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ لکھی جائے تو اس کے پودے کی برطانوی سر زمین پر جڑ لگانے والوں میں اس کا نام ضرور لکھا جاتا ہے۔ جس جگہ اُس کا دھڑ دفن کیا گیا وہ اُس کے ان گنت مداحوں کے لئے زیارت گاہ بن گئی ہے۔ انگلستان کی ایک یونیورسٹی اور ایک معروف سڑک پر پُل کواُس کا نام دیا گیا۔ سائمن نے اُس وقت کے بادشاہ (ہنری سوئم) کی مخالفت اور مزاحمت کی۔ اُس نے قانونی اصلاحات کی داغ بیل ڈالی اور 1265ء میں اُس بڑی پارلیمنٹ کو معرض وجود میں لانے میں کردار ادا کیا جس میں جاگیرداروں‘ پادریوں اور درباریوں کے علاوہ شہری آبادی کے نمائندوں کو بھی جگہ دی گئی۔ وہ فرانس سے 1229ء میں انگلستان آیا تاکہ بادشاہ سے وہ خاندانی جاگیر کا قبضہ چھڑوا سکے جو وسطی انگلستان کے شہر Leicester کے نواح میں تھی۔ وہ 1232 میں شہرکا بطور نواب حکمران بن گیا تو اُس نے شہر کے سارے یہودیوں کو نکال دیا ۔1237ء میں اُس نے بادشاہ کی بہن سے شادی کر کے بادشاہ سے صلح کرنے کی ناکام کوشش کی۔ ساری کتاب پڑھ کر بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس کے نام میں Songs کے لفظ کا کیوں اضافہ کیا گیا؟ بارہویں اور تیرہویں صدی کی انگلستان کی تاریخ تشدد‘مار دھاڑ اور جاگیردارانہ دور کی بہادرانہ روایات (Chivalry) سے آگے مرتب ہوئی۔ De Montfortاُس عہد کی پیداوار تھا اور اُس کی جیتی جاگتی علامت۔ 268 صفحات کی کتاب نے اُس کی زندگی کو اس طرح اُجاگر کیا جیسے ہم نو سو سال قبل کے برطانیہ میں رہتے ہوں اور De Montfort کے ہم عصر ہوں۔ وہی انشا پردازی جو ہمارے کلاسیکی ادیبوں (شبلی نعمانی‘عبدالحلیم شرر‘سلیمان ندوی‘ غلام رسول مہر‘ چراغ حسن حسرت اور عبدالمجید سالک) کی تحریروں میں ملتی ہے۔
تیسری کتاب قرونِ وسطیٰ میں وسطی یورپ کے ایک کامیاب بادشاہ کی سوانح عمری ہے۔ نام ہے Emperor بادشاہ کا نام چارلس پنجم تھا۔ وہ اپنے ماں‘ باپ‘ نانا ‘نانی‘ دادا ‘ دادی کی طرح دوسرے شاہی گھرانوں میں شادیاں کرنے سے اتنا فیض یاب ہوا کہ 1521ء اور 1526ء کے درمیان سارے وسطی اور جنوبی یورپ کا بادشاہ بن گیا۔ آپ اس بات کو ذہن میں رکھ کر اُسے دیکھیںکہ اُس کا حریف سلطنت عثمانیہ کا عظیم سلطان سلیمان تھا۔ اُس کے اقوال میں سب سے مشہور یہ ہے کہ میں عبادت ہسپانوی زبان میں کرتا ہوں مگر خواتین سے اطالوی‘ مردوں سے فرانسیسی اور اپنے گھوڑے سے جرمن زبان میں گفتگو کرتا ہوں۔ Adman اُس کا اتالیق تھا جو اپنے وقت کے سب سے بڑے علم دوست دانشوروں Erasmus اور تھامس مور کا دوست تھا۔ چارلس اُس دور کا واحدحکمران تھا جس نے اپنی خود نوشت لکھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اُس نے اپنے جانشین (فلپ دوئم) کیلئے بھی مفصل ہدایت نامہ بھی لکھا۔ 1521ء میں چارلس کی عمر صرف 21 سال تھی جب اُ س نے چرچ کے بڑے پادریوں کے اجلاس میں مارٹن لوتھر کو اپنے عقائد پیش کرنے کی دعوت دی جو آگے جا کر Protestant مسلک اور تحریکِ اصلاحِ کلیسا کے پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ چارلس کی وفات کے بعد اگلی دو صدیاں یورپ کا واسطہ اُس فصل سے پڑا جو چارلس کے عہد میں بوئی گئی‘ یہی وجہ ہے کہ چارلس پنجم کو بجا طور پر عہد ساز کہا جاتا ہے۔ شارلیمان سے لے کر نپولین تک کسی یورپی حکمران نے اتنے زیادہ ممالک پر حکومت نہیں کی جتنی چارلس پنجم نے۔ وہ Habsburg بادشاہوں میں ایسا تھا کہ پانچ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کی چمک دمک ماند نہیں پڑی ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں