کیپٹن کک کی جہان گردی

پورا نام تھا؛James Cook 1728ء میں انگلستان کی شمالی کائونٹی یارک شائر میں ایک دیہاتی مزدور کے گھر پیدا ہوا۔ وہ1740ء سے لے کر 1745ء تک شمال مغربی انگلستان کے گھنے جنگلات میں گھرے ہوئے گائوں Clitheroe کے ایک قدیم تعلیمی ادارہ ‘جو رائل گرائمرسکول کہلاتا تھا‘ میں پڑھا۔ کالم نگار نے 1967ء سے 1970 ء تک وہاں اے لیول کے طلبا کو برطانوی آئین اور نظامِ حکمرانی کا مضمون جزوقتی پڑھایا۔ پہلے دن پرنسپل اپنے نئے استاد کو اس ادارے کی سیر کرانے نکلے تو اُسے کالج ہال میں لگے ہوئے ایک بورڈ کو بڑے فخر سے دکھایا ‘جس پر ممتاز سابق طالب علموں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ وزرائے اعظم‘ جرنیل‘بحریہ کے ایڈمرل ‘ سائنس دان‘ادیب ‘شاعر اور کھلاڑی ‘مگر سرفہرست کیپٹن کک کا نام تھا۔ آسٹریلیا کامشرقی ساحل‘ قطب شمالی کا منجمد براعظم‘ نیوزی لینڈ اور بحر الکاہل کے بہت سے جزیرے۔ یہ سب کیپٹن کک اور اُس کے ماتحت کام کرنے والے ملاحوں نے پندرہ سالوں میں دریافت کئے۔ اُس کے بعد ساری عمر بحری سفر ( Expeditions) خیر و عافیت سے مکمل ہوتے رہے۔
وہ اتنا محتاط تھا کہ اُسے ان گیارہ سالوں میں صرف ایک ملاح کا جانی نقصان برداشت کرنا پڑا‘ مگر ایک ایسا دن بھی آیا جب وہ خود اتنی سنگین بے احتیاطی کا مرتکب ہوا کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ہوائی کے جزیرے کے مقامی باشندوں نے اُس کی ایک کشتی چرالی تو وہ اسے بازیاب کرانے خود وہاں گیا اور خون ریز لڑائی میں مارا گیا۔ اُس کے ساتھی اُس کی میت کو برطانیہ واپس لانے میں کامیاب رہے اور اُسے بڑے اعزاز کے ساتھ اُس کے آبائی گائوں میں دفن کیا گیا۔ جس اتوار کو اُس کی تدفین ہوئی انگلستان کے طول و عرض میں ہر گرجا گھر نے اپنی گھنٹیاں بجا کر یارک شائر کے ایک غیر معروف گائوں کے رہنے والے عالمی شہرت یافتہ بحری جہازران کی ماتمی تقریبات میں حصہ لیا۔
کیپٹن کک اٹھارہویں صدی میں جس تعلیمی ادارے میں پانچ سال پڑھا‘ کالم نگار نے بیسوی صدی میں وہاں تین سال پڑھایا۔ اگر (قابلِ معافی) مبالغہ آرائی سے کام لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کیپٹن کک سے میرا اُستادی شاگردی کا رشتہ ہے‘ گرچہ ذرا دور کا۔ کیپٹن کک کی پندرہ سالوں پر پھیلی بحری جہاں گردی دو جہازوں کی مرہون منت تھی‘Endeavour اور Resolution ۔ ہر بحری سفر کم از کم تین سال لمبا تھا اور وہ بھی اُس زمانے میں جب ٹیلی فون‘ ریڈار اور دوسرے جدید آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ سمندروں کے فاصلوں کا آپ صرف ایک بات سے اندازہ لگائیں کہ کیپٹن کک کا جہاز نیوزی لینڈ سے 1900 میل کا سفر طے کر کے جب ایک جزیرے پر لنگر انداز ہوا تو وہ بحر الکاہل کے وسط میں تھا ۔اہلِ جزیرہ کو نوواردان نے اپنے جہاز کی سیر کی دعوت دی‘ مگر وہ جہاز پر سوار ایک بڑے ڈیل ڈول کی بکری دیکھ کر اتنے خوفزدہ ہوئے کہ جذبۂ خیر سگالی سے دی جانے والی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ان چھوٹے چھوٹے جزیروں کی کل تعداد پندرہ ہے اور آج بھی وہ Cook Islandsکے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ ان جزائر کے باشندے (جن کی کل تعداد سترہ ہزار ہے) ان جزیروں کا نام بدلنا چاہتے ہیں اور وہ بھی کیپٹن کک کے پہلے بحری سفر کی دو سو پچاسویں سالگرہ کی تقریب کے موقع پر۔ ان جزائر کے قائد ین کی خواہش ہے کہ نیا نام بولنے اور لکھنے میں آسان ہو اور مقامی شناخت کا عکاس ہو۔ 25 برس پہلے جو نام (Avaikinui)تجویز کیا گیا اُسے استصواب رائے میں ووٹ دینے والوں کی دو تہائی اکثریت نے مسترد کر دیا۔قارئین اچھی طرح جانتے ہیں کہ سامراجی آباد کاروں نے مفتوحہ علاقوں کے نام بدل ڈالے۔ صرف نام نہیں سب کچھ بدل دیا۔ خود ہمارے ملک میں ساہیوال کو منٹگمری کا نام دیا گیا۔ (بھلا ہو میرے مرحوم دوست میاں محمد یاسین وٹو کا جن کی کوششوں سے اس جغرافیائی خطے کو اپنا اصل اور پرانا نام پھر مل گیا) ۔ نیوزی لینڈ کا پرانا نام ابھی تک تبدیلی کی نئی لہر کی زد میں نہیں آیا‘ مگر مقامی آبادی اس کے لئے اپنے قدیم Moari نام کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ لفظ ہے Aotearua جس کا مطلب ہے طویل و عریض سفید بادل۔ نیوزی لینڈ کے ایک شہر (Gisborne ) کے عمائدین نے فیصلہ کیا ہے کہ شہر کے وسط سے کیپٹن کک کے مجسمہ کو ہٹا دیا جائے کیونکہ اس ملک پر قبضہ کرنے والے کو ناپسند کرنے والے لوگ اس کے بت کے اوپر سرخ رنگ کا روغن پھینک کر اس کا حلیہ بگاڑتے رہتے ہیں۔ کیپٹن کک نے نیوزی لینڈ پر بزور شمشیر قبضہ کیا۔ مقامی لوگ (جو سفید فام نہیں) اُسے Crooked Cook کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے ایسا دھوکے باز اور مکار شخص جو ہرگز معزز کہلانے کا مستحق نہیں۔
جہاں کیپٹن کک کا تذکرہ ختم ہوا وہاں سے Cecil Rhodes (1853-1902ء )کا شروع ہوگا۔ اُس نے جنوبی افریقہ میں عالمی شہرت کی ہیروں کی کان کنی کی کمپنی De Beersکو بامِ عروج تک پہنچایا‘ نام کمایا اور بے پناہ دولت بھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ جنوبی افریقہ کی قانون ساز اسمبلی کا رکن بنا۔ افریقہ کے ایک ملک رہوڈیشیا کا نام اسی کے نام پر رکھا گیا‘ چونکہ یہ اُس کی فتوحات کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا۔ جنوبی افریقہ سے لے کر رہوڈ یشیا تک یہ شخص سفید فام نسل پرست حکمرانی کا کم و بیش ربع صدی سب سے بڑا نشان ‘ ترجمان اور نگہبان بنا رہا۔ اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی کو بھاری رقوم بطور عطیات دیں‘ جن کی بدولت آج بھی امریکی‘ جرمن اور دولت ِمشترکہ کے ہونہار طلبا اور طالبات کو وظائف دیئے جاتے ہیں۔ اگر آکسفورڈ یونیورسٹی نے بڑی مالیت کے عطیات دینے والے کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اُس کا مجسمہ نصب کر دیا تو سو سال پہلے یہ ہر لحاظ سے مناسب تھا ‘مگر اب رُت بدل چکی ہے۔ سیاہ فام طلبا کو ایک طرف رہنے دیں‘ سفید فام طلبا کا ذہن بھی اتنا بدل چکا ہے کہ اُن کے لئے Rhodes کا نام برطانوی تاریخ پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ وہ Rhodes کے مجسمہ کی اُسی طرح بے حرمتی کرتے ہیں جس طرح ہزاروں میل دور بحر الکاہل کے جزیرے میں قدیم باشندوں کی اولاد کیپٹن کک کے مجسمہ کی۔ 
اب ہم برطانیہ کی دوسری قدیم یونیورسٹی کی طرف چلتے ہیں جو کیمبرج میں ہے۔ اس یونیورسٹی کے اربابِ بست و کشاد پر عوامی دبائو اس قدر بڑھا کہ وہ مجبور ہو گئے ہیں کہ ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائیں جو دو سال کے اندر رپورٹ پیش کرے گی کہ اس یونیورسٹی کا غلاموں کی تجارت کے ساتھ کس قسم کا رشتہ تھا؟ یونیورسٹی نے اس شرمناک تجارت سے کتنا مال بنایا اور کتنا خرچ ہوا؟ اب معاوضہ واجب الادا ہے تو وہ کسے اور کتنا ادا کیا جائے؟ کیا تاریخ کے مضمون کا نصاب بدلنا پڑے گا یا اس کی تعلیم و تدریس سرے سے بند کرنی پڑے گی؟ Lord William Wilberforceکے سر پر بجا طور پر یہ سہرا باندھا جاتا ہے کہ اُس نے برطانوی پارلیمان میں افریقی غلاموں کی تجارت کو خلاف ِقانون قرار دینے کا قانون منظور کروایا۔ 1833 ء میں آٹھ لاکھ سیاہ فاموں کو غلامی سے نجات ملی۔
میں مندرجہ بالا سطور لکھ چکا تھا کہ مجھے اچانک یاد آیا کہ بدترین غلامی نہ صرف سیاہ فاموں بلکہ سفید فاموں کا بھی مقدر بنی اور وہ ایسے کہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں شمالی افریقہ (خصوصاً الجزائر کے برَ بر قبائل) کے بحری قذاق برطانیہ کے مغربی ساحلوں میں رہنے والوں کو اغوا کر کے غلام بنا لیتے تھے اور پھر انہیں بذریعہ نیلامی اپنے وطن واپس جا کر فروخت کرکے بڑی رقوم کماتے تھے)۔ کالم ختم کرنے سے پہلے میں قارئین کی توجہ پاکستان میں اُن لاکھوں بھٹہ مزدوروں کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو آج بھی بھٹہ مالکوں اور ٹھیکیداروں کے غلام ہیں۔ یہی حال سندھ میں لاکھوں ہاریوں کا ہے۔ ہاری رپورٹ لکھنے والے بہادر اور حق گو مسعود کھدر پوش کی رُوح یقینا بے چین ہو گی کہ تقریباً ایک سو سال گزرنے کے بعد بھی سندھ کے ہاریوں کو غلامی سے نجات نہیں ملی۔ انہیں یہ نجات ملے تو کیونکر؟ انہیں نجات دلانے والی سیاسی اشرافیہ خود غیر ملکی ارب پتی ساہو کاروں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی غلام بن چکی ہے۔ لگتا ہے کہ ہم سارے کے سارے خاندانِ غلاماں بن چکے ہیں۔ اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں‘یا ہم اپنی غلامی کی زنجیریں توڑ دیں اور شدید مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کریں یا ہم مل کر آہ و زاریاں کریں ۔ کوئی حالِ دل پکارے اور کوئی حال چمن۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں